... loading ...
دوستو،کسی ملک کے وزیراعظم نے اقتدار میں آنے سے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ قرضہ نہیں لوں گا،لیکن آئی ایم ایف سمیت کئی مالیاتی اداروں سے خوب قرضے لیے گئے۔۔پھریہ دعوی بھی کیا تھا کہ پیٹرول، گیس، بجلی سستی کروں گاجب کہ سستا کرنا تودرکنار ان کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کردیا گیا۔۔کہا میٹروبس نہیں بناؤں گا، لیکن اپنی صوبائی حکومت کے ایک شہر میں بناڈالی۔۔کہاتھا کہ۔۔ڈالر مہنگا نہیں کروں گا، ڈالر آج روز بروز مہنگاترین ہوتاجارہا ہے۔۔وزیراعظم صاحب دعویدار تھے کہ ہندوستان سے دوستی نہیں کروں گا، لیکن ابتدا ہی میں دوستی کا ہاتھ بڑھایا،کوریڈور بھی بناڈالا لیکن بعد میں تعلقات نہایت کشیدہ ہوگئے۔۔ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہیں دوں گا ۔مگرپچھلی حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو معمولی رد و بدل کے ساتھ نافذ کیا گیا۔۔آزاد امیدواروں کو نہیں لوں گالیکن حکومت بنانے کے لیے اراکین کی تعداد مکمل کرنے کے لیے آزاد اُمیدواروں کو شامل کیا گیا۔۔سیکیورٹی اور پروٹوکول نہیں لوں گا ،اس پر عمل دارآمد بھی نہیں کیا گیا۔۔وزیراعظم کو لائبریری اور گورنر ہاؤس پر بلڈوزر چلاؤں گا لیکن اس اعلان پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔۔فرمایا تھا کہ بیرون ملک دورے نہیں کروں گالیکن وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے ایک سال ہی میں امریکا، سعودی عرب اور انڈونیشیا سمیت متعدد ممالک کے کئی دورے کیے۔۔ فرمایاتھا کہ جب بھی بیرون ملک جاؤں گا عام کمرشل فلائٹ میں جاؤں گا مگراس اعلان پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔۔ہیلی کاپٹر کے بجائے ہالینڈ کے وزیراعظم کی طرح سائیکل پر جاؤں گا،لیکن عوام اب تک سائیکل کے دیدارکے منتظر ہیں۔۔دعوی کیاتھا کہ مختصر کابینہ بناؤں گالیکن کابینہ میں وزرا اور مشیروں کی تعداد میں متعدد مرتبہ اضافہ ہوا۔۔جس پر الزام ہوگا اسے عہدہ نہیں دوں گا ۔لیکن متعدد موجودہ اور سابق وزرا کو مقدمات کا سامنا ہے۔۔جو حلقہ کہیں گے کھول دوں گالیکن اپوزیشن کی شدید تنقید کے باوجود اس اعلان پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔۔ملائیشیا اور ترکی کے ساتھ مل کر اسلاموفوبیا کے خلاف مشن کا اعلان کرنے والے نے اس وقت عالمی یو ٹرن لیا جب انہوں نے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے اچانک انکار کردیا۔ان تمام یو ٹرنز کے علاوہ 1 کروڑ نوکریوں کے وعدے سے پھرنے سے لے کر 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے چھوٹے موٹے مختلف مواقعوں پر لیے گئے یوٹرنز سنہرے الفاظ میں لکھے جائیں گے۔
باباجی فرماتے ہیں،حکومت کچھ لوگوں کے لیے ’’غور‘‘منٹ اور کچھ کے لیے ’’گور‘‘منٹ بنی ہوئی ہے۔۔ جب اس بات کی تشریح کے لیے باباجی کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا گیا تو باباجی نے نئی نویلی دلہن کی طرح مسکرا کر چہرہ چھپا لیا، کافی دیر بعد جب چہرہ اپنے پتلے پتلے ’’گوڈوں‘‘ سے باہر نکالا تو باباجی کو محسوس ہوا کہ سوالیہ نظریں ابھی تک انہیں تاڑنے میںمصروف ہیں، باباجی زیرمونچھ مسکرائے اور فرمانے لگے، حکومت کو جب فیصلے کرنے ہوتے ہیں تو یہ ’’غور‘‘منٹ بن جاتی ہے،لیکن جب اپوزیشن کا جب کوئی معاملہ ہوتا ہے یا اپنے ہی کسی وزیر کی کوئی کرپشن یا بزدار جی کی کوئی کوتاہی یا لاپرواہی تو پھر یہ حکومت فوری طور پر ’’گور‘‘منٹ بن کر اس معاملے پر مٹی ڈال دیتی ہے۔۔حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر سربراہ اے این پی اسفند یار ولی نے سوال کیا کہ ایک کروڑ نوکریاں کہاں ہیں؟ لاکھوں لوگ روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق عمران نیازی کے دورحکومت میں کرپشن میں اضافہ ہوا۔انکا کہنا تھا کہ دو سال میں چینی کی اوسط قیمت فی کلو 40 روپے بڑھ گئی۔ شوگر کمیشن، آٹا چوری، ماسک چوری، دوائیاں چوری، کیا کیا چوری نہیں کی گئی۔ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب نواز شریف کے دور میں چینی 52 روپے کلو تھی۔ ملکی ایکسپورٹ آج کم ہے۔ اہلیت اورقابلیت کاجنازہ نکال دیاگیا۔ ملک میں ہرطرف مہنگائی اوربیروزگاری ہے۔ کوروناکو بیساکھی کے طورپراستعمال کیاجارہاہے۔
ایک بہت ہی غریب انسان مملکت خداداد کے کسی علاقے میں رہتا تھا۔۔وہ بہت زیادہ غریب تھا ویسے یہ ملک غریبوں میں خودکفیل ہے مگر وہ شہری غربت کی آخری لکیر سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہا تھا جیسے قصاب کی دکان پر لگے پٹھے کے نیچے کوئی چار ٹانگوں والا جانور اپنی زندگی گزاررہا ہوتا ہے۔۔اس غریب شہری نے بھوک سے تنگ آ کر بھیک مانگنے کے منصوبہ بنایا لیکن شہر میں بھکاریوں کی بھرمار ہونے کی وجہ سے کامیابی نہ ہوئی تو اس نے انوکھا طریقہ اپنانے کا سوچا۔ اس نے دیکھا ایک بڑے پارک میں حکومتی جماعت کا سیاسی جلسہ ہورہا ہے۔ غریب شہری وہاں گیا اور مجمع کے قریب پارک میں لگی گھاس کھانا شروع ہوگیا۔ لوگوں نے حیران ہوکر دیکھا۔ آخر ایک پارٹی ورکر نے پوچھا ۔۔ گھاس کیوں کھا رہے ہو؟۔۔غریب نے جواب دیا ۔ جناب کئی روز کا بھوکا ہوں۔ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے گھاس کھانے پر مجبور ہوں۔ اس ورکر نے رحم کھا کر 100 روپے دیے اور کہا گھاس چھوڑو ، یہ پیسے لے جاؤ جا کر اچھا کھانا کھا لو۔ غریب آدمی بہت خوش ہوا۔۔ اس نے سوچا اگر اس پارٹی کا ورکر اتنا رحمدل ہے تو لیڈر اس سے بھی زیادہ رحمدل ہوگا۔ چلو اس کے قریب جاتے ہیں اگر لیڈر سے مزید کچھ روپے مل گئے تو گھر میں بھوکے بیوی بچوں کے لیے بھی کھانا لے جاؤں گا۔
اسٹیج کے قریب پہنچ کر دیکھا ،کپتان جلوہ افروز ہیں۔ بھوکے آدمی نے ان کی کرسی کے سامنے ہی اگی گھاس کھانا شروع کردی۔کپتان کی نظر پڑی تو پوچھا ، یہ کیا کررہے ہو ؟۔۔ غریب بولا ۔ جناب کئی روز کا بھوکا ہوں۔ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے گھاس کھانے پر مجبور ہوں۔۔۔کپتان نے غریب کو اسٹیج پر بلایا۔ مائیک پر لوگوں سے مخاطب ہوکر بولے ۔ دیکھو پچھلے دور کی پالیسیوں کی وجہ سے غریب گھاس کھانے پر مجبور ہیں۔ ہم عوام کو بھوک سے نجات دلانے کے لیے آئے ہیں۔ میں غریبوں کا رکھوالا بن کر آیا ہوں۔۔بنے گانیا پاکستان، تبدیلی آئی رے۔۔ مجمع نے جوشیلے نعرے لگائے۔ میڈیا نے ٹی وی چینلز پر کپتان کی انسانی ہمدردی کی بریکنگ نیوز جاری کر دی۔۔جب تقریر ختم ہوئی توا سٹیج سے اترتے ہوئے اسی غریب نے کپتان کے سامنے آکر مدد کی درخواست کی۔کپتان نے اپنے ایک پارٹی رہنما سے کہا، اسے اپنی جیب سے دس روپے نکال کر دے دو،پارٹی رہنما نے جیسے ہی دس روپے غریب کے ہاتھ پر رکھے تو کپتان نے کہا۔۔ پاگل اس پارک میں گھاس بہت کم ہے۔ سامنے بس میں بیٹھو، 10 روپے کے ٹکٹ میں راوی پار شاہدرہ پہنچو ۔وہاں بہت زیادہ اور بہت لمبی لمبی گھاس ہے ۔۔
اردو گرامر کا ایک استاد بچوں کوپڑھارہاتھا۔۔کہنے لگا۔۔بچو ! میں جملہ بولتا ہوں۔ آپ بتائیں کہ گرامر کی رو سے یہ کونسا زمانہ ہے ؟۔۔میں رو رہا ہوں۔۔تم رو رہے ہو۔۔۔ہم رو رہے ہیں۔۔۔اب بتاؤ یہ گرامر کی رو سے کونسا زمانہ ہے ؟۔۔ سارے بچے ہم آواز ہوکر بولے۔۔۔ یہ پی ٹی آئی کا زمانہ ہے۔۔۔ایک بار ہمیں بچپن میں ہمارے انگریزی کے استاد نے پوچھا تھا۔۔گورنمنٹ کسے کہتے ہیں۔ ۔ہم نے معصومیت سے جواب دیا تھا ۔۔ جو منٹ منٹ پر غور کرے۔۔ اور موجودہ حکومت بھی بالکل ایسی ہی ہے، منٹ منٹ پر غور کرتی ہے پھر جس مسئلے پر ’’غور‘‘ کرتی ہے اسے ’’ گور‘‘ کردیتی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔