... loading ...
سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بار کہا تھا کہ ’’شہری سیاست کے بل بوتے پر انتخابات جیت کرحکومت تو نہیں بنائی جاسکتی لیکن شہری سیاست کسی بنی بنائی انتخابی و جمہوری حکومت کو گرانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے‘‘۔ پاکستانی سیاست پر ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی بصیرت سے لبریز یہ تبصرہ ہمیشہ ہی صادق آیا ہے اور ماضی میں کئی بار تواتر کے ساتھ ہیوی مینڈیٹ لے کر ایوانِ اقتدار تک پہنچنے والی جمہوری حکومتیں بھی پاکستان میں شہری سیاست کے احتجاجی مزاج کی تاب نہ لاتے ہوئے بہت آسانی کے ساتھ زمین بوس ہوچکی ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی اقلیم کی واحد امین جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اپنے قائد عوام کے اِس اہم ترین جملہ کو اپنے سیاسی منشور کا اُصولِ زریں بنا لیتی اور شہری سیاست کے بدمست گھوڑے کو انتظامی چابک سے سدھانے کے بجائے عوامی خدمت کے زریں اُصولوں سے رام کرنے کی کوشش کرتی ۔
لیکن افسوس صد افسوس پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے قائد عوام کی سیاسی نصیحت پر کان دھرنا مناسب نہ سمجھا اور اپنے دورِ حکومت میں ہمیشہ ہی سے شہری اور دیہی سیاست میں زیادہ سے زیادہ خلیج پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ خاص طور پر سندھ حکومت نے گزشتہ دو دہائیوں سے شہر کراچی کے ساتھ سیاسی بغض و عناد کا جو انتظامی رویہ، روا رکھا ہے، اُس کی وجہ سے کراچی کے شہری ،سندھ حکومت سے اس قدر نالاں اور مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ اَب مشکل کی کسی چھوٹی سے چھوٹی گھڑی میں بھی سندھ حکومت کی طرف دیکھنے کے بجائے وفاقی حکومت اور پاک فوج کو مدد کے لیے دہائیاں دینا شروع کردیتے ہیں ۔ جس کی تازہ ترین مثال کراچی میں ہونے والی حالیہ طوفانی بارشیں ہیں ۔ اُصولی طور پر تو شہرکراچی میں طوفانی بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال میں کراچی کے باسیوں کو اپنے شہر کے بلدیاتی اداروں اور سندھ حکومت کو مدد و اعانت کے لیے ہی پکارنا چاہئے تھا لیکن کیا عجیب ستم ہے کہ بارش کے پانی میں ڈوبتے ہوئے بھی شہر کراچی کے مکینوں نے سندھ حکومت کے ’’سیاسی تنکے ‘‘ کا سہارا لینا گوار ا نہ کیا اور اپنی ساری اُمیدوں کا مرکز و محور وفاقی حکومت اور پاک فوج کو بنا لیا۔
اَب آپ خود ہی بتائیے کہ ایسی مخدوش انتظامی صورت حال میں جب سارا شہر کراچی جھولیاں پھیلا ،پھیلا کر وفاقی حکومت اور پاک فوج کو اپنی مدد کے لیے پکار رہا ہو ۔ ان حالات میں وفاقی حکومت اور پاک فوج کے پاس سوائے اس کے اور کون سا دوسرا راستہ باقی رہ جاتاتھا کہ وہ فی الفور عازم کراچی ہوجائیںاور سسکتے ، بلکتے شہریوں کو پیش آنے والی تکلیفوں کا مقدور بھر مدوا کریں۔ یادش بخیر ! کہ وفاقی حکومت اور پاک فوج نے یہ ہی سب کچھ کرنے کی کوشش کی اور اتنے بہتر انداز میں کی کہ کراچی کے مکینوں کے شکستہ دل ،رفو ہوگئے اور وہ اپنے مددگاروں کے صدقے واری جانے لگے ۔ چونکہ یہ سب کچھ پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے ہوتے ہوئے ، ہو رہا تھالہذا سندھ حکومت کی انتظامی و سیاسی اہلیت پر کچھ سوالات اُٹھنا تو لازم تھے کہ آخر گزشتہ دو دہائیوں سے متواتر صوبہ سندھ کے راج سنگھاسن پر براجمان ہونے کے باوجود بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اس قدر تباہ حال کیوں ہے کہ مون سون کی بارش کے چند چھینٹے بھی برداشت نہیں کرسکتا؟۔
کچھ اس طرح کے کاٹ دار سوالات نے اور کچھ وفاقی حکومت اور پاک فوج کے دوستانہ رویے نے کراچی کے مکینوں کی اُمیدوں کو اتنا زیادہ بڑھاوا دیاکہ بے چارے ناعاقبت اندیش شہریوں نے دن کی تیز ’’سیاسی روشنی ‘‘میں بھی ایک ’’انتظامی سپنا‘‘ دیکھنا شروع کردیا۔سپنا کچھ یوں تھا کہ کراچی دو، چار دنوں کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہی وفاقی حکومت کے زیر انتظام آچکا ہے اور شہر بھر کی حکومت دنیا کے کسی بڑے میٹرو پولیٹن کارپوریشن شہرکی مانند راست انداز میں چلائی جارہی ہے ۔ یعنی کراچی پورے چالیس برس بعد روشنیوں کے حقیقی شہر کا ایک دلکش منظر پیش کررہاہے۔ ابھی یہ سپنا ،سپنے میں بھی مکمل نہ ہو پایا تھا کہ اِس سپنے کی اُڑتی ،اُڑتی بھنک پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو پڑ گئی ۔بس پھر کیا تھا ، پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں وہ آہ آہ کار مچی کہ کراچی کے شہریوں کا سپنا ، کہیں بیچ سپنے میں ہی ٹوٹ کر رہ گیا ۔ جب کہ سیاسی چیخ و پکار سُن کر کراچی کے شہریوں کی آنکھیں بھی مکمل طور پر کھل چکی ہیں اور وہ اپنے ٹوٹے خواب کی ایک ایک کرچی جمع کرنے میں مصروف ہیں۔شاید یہ سادہ دل اتنی سی بات بھی نہیں جانتے کہ ٹوٹے ہوئے خواب کی کرچیاں جمع کربھی لی جائیں تو پھر بھی اُنہیں جوڑ کر دوبارہ سے خواب نہیں بنایا جاسکتا۔
ویسے بھی کوئی مانے یا نہ مانے بہر کیف حقیقت یہ ہی ہے کہ کراچی پر دائمی اور ہمیشگی حکومت کا’’انتخابی حق ‘‘ تو صرف اور صرف پاکستان پیپلزپارٹی کی نامزد کردہ سندھ حکومت کے ہی پاس ہے ۔پیپلزپارٹی کے اِس مقدس سیاسی حق پر کراچی کے عوام نے کبھی کوئی اعتراض بھی نہیں اُٹھایا۔لیکن اہلیانِ کراچی کو اپنے جسم و جاں کا نازک سا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کچھ بنیادی نوعیت کی سہولیات تو آخر کار درکارہی ہوں گی نا!۔ مثلاً رات کاٹنے کے لیے بجلی دے دی جائے ، پینے کے لیے صاف پانی پہنچا دیا جائے ،چلنے کے لیے ٹوٹی پھوٹی ہی سہی،چند سڑکیںان کے قدموں میں بچھادی جائیں، گھر کے سامنے پڑا ہوا تعفن پھیلاتا ہوا کچرا اُٹھالیاجائے اور اگر ممکن ہوسکے تو سندھ حکومت کے دفتروں میں رشوت کا ریٹ تھوڑا سا کم کردیاجائے۔اہلیانِ کراچی کا ،بس اتنا سا خواب ہے۔اس سے زیادہ کراچی کے عوام، سندھ سرکار سے کچھ مانگتے ہی نہیں ۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ سندھ کے حکمران اِن مسائل کے حل کے متعلق کچھ جانتے ہی نہیں۔ بقول شاعر
کسی بھی شخص پہ اس کو ترس نہیں آتا
امیر شہر ہوا ہے،یہ کن صفات میںگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔