... loading ...
آئیے جنرل ضیاء الحق کے ذریعے پاکستانی سیاست کا چہرہ پہچانتے ہیں۔ نفاق کو کھنگالتے ہیں۔
سلیم احمد مرحوم نے لکھا تھا: عورت اور شاعری پورا آدمی مانگتی ہے‘‘۔ شاید جمہوریت بھی۔ جمہوریت کے خصائص و قصائد اُنہیں زیبا نہیں جو ادھورا ہو۔ طاقت کی جدلیات میں دستور ی بالادستی اور جمہوری حقوق کا نعرہ دلفریب تو لگ سکتا ہے۔ قابل حصول ہر گز نہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اپنے طرزِ فکر وعمل سے ایک ایسی دنیا تخلیق کی ہے جس میں اُصول ، دستور ، انصاف اور حقوق میں سے کوئی چیز بھی اپنی معنویت نہیں رکھتی۔ ان کے حلیف وحریف کسبی کی وفاداریوں کی طرح تبدیل ہوئے ہیں۔ اقتدار کے لیے اُنہوں نے دشمن دوست کی کوئی تمیز نہیں رکھی۔ قصے خاک نشینوں کے سنائے مگرپناہ اشرافیہ میں ڈھونڈی۔ان کے موسموں میں خزاں و بہار کی کوئی تمیز نہیں۔ ان کے ہاں نکہت ِ باد بہاری اور خارو خس میں کوئی فرق نہیں۔ وہ اشرف المخلوق میں ہی کہاں شمار ہوسکتا ہے جو انسان کے ازلی ارادہ واختیار پر جبرواستبداد کو گوارا کرتاہو۔ مگر وہ کون سی مخلوق ہے جس کا تصورِ آزادی عہد بہ عہد مفادات کے جوہڑ میں ڈبکیاں لگاتا رہا ہو۔ جس نے قلقلِ مینا و مے کے شور میں اپنا آپ بیچا ہو۔ جن کے جسموں پر پڑنے والے ہاتھوں کا شمار نہ ہوسکتا ہو۔ آئیے اس مخلوق کو جنرل ضیاء الحق کے ذریعے پہچانتے ہیں۔ آج 17؍ اگست ہے ۔جنرل ضیاء الحق کا طیارہ بہاولپور میں اسی تاریخ کو آتشِ تاریخ کی نذر ہوا۔
ہمارے ہاں ایک طبقہ ہے جس کی جمہوریت ، دستوری بالادستی اور انسانی حقوق کی ساری ولولہ انگیزی جنرل ضیاء کے خلاف حقارت میں خرچ ہوتی ہے۔ جمہوریت کے وقار کو پورا آدمی درکار ہے۔اس کی تکریم کا بوجھ وہی اُٹھا سکتا ہے جس نے آمریت کی کسی بھی شکل سے کبھی بھی ساز باز نہ کی ہو۔ یہ طبقہ جنرل ضیاء الحق پر بات کرتے ہوئے اس سے ذرا پہلے کے ایوب دور کے متعلق پراسرار سناٹے کا شکار رہتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟اگر آمریت اپنے آپ میں ہی کوئی بُری شے ہے تو اسے جنرل ایوب ، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف میں کوئی فرق نہیں کرنا چاہئے۔ مگر ایسا نہیں ۔ پاکستان کے ایک طبقے میںجنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف نفرت کا ارتکاز وہ نہیں جو جنرل ضیاء کے خلاف ہے۔ درحقیقت اس کا سبب ان شخصیات میں موجود ذاتی رجحانات کا الگ الگ رچاؤ ہے۔ اگر یہ طبقہ جمہوریت کا تناظر اختیار کرکے صرف جنرل ضیاء پر گرج برس رہا ہے اور باقی جرنیلوں کو نظر انداز کررہا ہے تو پھر یہ مسئلہ جمہوریت کے حوالے سے کسی مطلق (absolute)فکر سے جڑا ہوا نہیںبلکہ مذہب مخالف تصور سے آلودہ ہے۔ اگرچہ جنرل ضیاء کا تصورِ اسلام ناقص تھا،جنرل ضیاء نے اس تصور اور اقتدار میں ایک نامیاتی رشتہ پیدا کرکے اسلام کو ہی نقصان پہنچایا مگر اس کے باوجود مذہب بیزاروں کو یہ بھی گوارا نہیں۔ پیپلزپارٹی کو پہلے ٹٹول لیتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے بعد جمہوریت کے مطلق تصور سے خود کو وابستہ کرنے والی یہ جماعت تاریخ میں کہاں کھڑی دکھائی دیتی ہے؟
پیپلزپارٹی بالعموم جنرل ایوب کے دور پر لب کشا نہیں ہوتی ۔ اس جماعت کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب کی گود میں بیٹھ کر اپنی سیاست چمکائی۔ یہ کوئی راز نہیں کہ بھٹو ، ایوب خان کو’’ ڈیڈی ‘‘کہتے تھے۔جنرل ایوب خان کے بدولت ہی ذوالفقار علی بھٹو اور نصرت بھٹو کا ازدواجی رشتہ محفوظ رہ سکا تھا۔ وگرنہ بھٹو کی سیمابی طبیعت کے ہاتھوں اس رشتے کے ٹانکے ٹوٹنے لگے تھے۔ بھٹو نے ایوب دور میں ہی وزارت خارجہ کا تاج پہن کر اپنے سیاسی تیور کا اظہار کیا۔ بھٹو بعد کی تاریخ میں بھی جنرل یحییٰ خان کے ساتھ تال میل بنائے رکھنے والے ایک کردار کے طورپر دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں تک جنرل پرویز مشرف کے دور کا معاملہ ہے تو کچھ اور نہ کیجیے ، بے نظیر بھٹو کی کتاب ’’مفاہمت‘‘ کا مطالعہ کرلیجیے!بے نظیر بھٹو نے خود اپنے قلم سے مشرف کے ساتھ سیاسی ساز باز کی پوری کہانی لکھ دی ہے۔ اب درمیان کے اس دور پر نگاہ ڈالیں جس میں جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں بھٹو اپنے انجام تک پہنچتا ہے اور پھر پاکستان کے اندرونی حالات نئی نئی سیاسی کروٹیں لیتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو پاکستان میں 1986ء میں لوٹتی ہے جب جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا۔لاہور میں بے نظیر بھٹو کا ایک بے مثال عوامی استقبال ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بے نظیر بھٹو اپنی طاقت کا راز پہچانتی اور خود کو عوام کی تقدیر سے وابستہ کرلیتی ۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ بے نظیر بھٹو جنہیں اپنا مخالف اور اپنے باپ کا قاتل سمجھتی تھی اُن سے ہی تال میل کر کے اقتدار میںآتی ہے۔
بے نظیر بھٹو نے دنیا کی سب سے کم عمر اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر جب 35برس کی عمر میں 2؍ دسمبر 1988ء کو وزیراعظم کے منصب کے لیے حلف اُٹھایا تو صدر مملکت غلام اسحاق خان تھے جو جنرل ضیاء الحق کے طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد چیئرمین سینیٹ سے صدرِ مملکت کے عہدے پر جلوہ افروز ہوچکے تھے ۔ یہ وہی غلام اسحق خان تھے، جنہوںنے سیکریٹری دفاع کے طور پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے متعلق جنرل ضیاء کو یہ اطلاع دی تھی کہ بھٹو اُنہیں فوجی سربراہی کے منصب سے ہٹانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ چنانچہ جنرل ضیاء نے بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کردیاتھا۔بے نظیر بھٹو نے غلام اسحق سے حلف اُٹھایا تب پاک فوج کے نو کورکمانڈرز میں سے پانچ جنرل ضیاء الحق کے معتمدین خاص کہلاتے تھے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ اور پاکستان کے خفیہ ادارے کے سربراہ جنرل حمید گل تھے۔ان کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم کا حلف اُٹھایا تو تقریب میں لوگ وزیراعظم کے بجائے چیف آف آرمی اسٹاف کے گرد جمع تھے۔ بے نظیر بھٹو تقریب میں غلام اسحاق خان کے ساتھ کھڑی تھیں، غلام اسحق خان نے اپنی پلیٹ میں صرف ایک سموسہ رکھا تھااور وہ چائے کی چسکیاں لے رہے تھے، اس دوران نماز کا وقت ہوگیا ، غلام اسحق خان نے پلیٹ رکھ کر مسجد کا رخ کیا تو بے نظیر بھٹو نے اُن سے پوچھا کہ کیا وہ اُن کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھ سکتی ہے؟غلام اسحق خان کا جواب تھا: یہ صرف مردوں کے لیے ہے‘‘۔ ان تمام حالات کے باوجود بے نظیر بھٹو نے اپنی تقدیر کس کے ساتھ وابستہ کی؟ عوام یا طاقت ور مراکز کے ساتھ؟ جواب واضح ہے۔ ایک اور پہلو بھی شامل کرلیں۔
بے نظیر بھٹو سے خصوصی قربت رکھنے والی برطانوی خاتون صحافی کرسٹینا لیمب نے اپنی کتاب ’’Waiting for Allah‘‘ میں لکھا ہے کہ بے نظیر بھٹو یہ سمجھتی تھی کہ امریکا کی وجہ سے اُن کے باپ کو اقتدار سے بے دخل کرکے تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔بے نظیر نے اپنی دوست صحافی کرسٹینا کو یہ بتایا کہ وہ ہنری کسنجر کی 1976ء میں دھمکی کے بارے میںاب بھی سوچتی ہے تو اس پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ اس پس منظر کے باوجود بے نظیر بھٹو نے کون سی راہ اختیار کی؟اُنہوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھانے سے پہلے امریکی سفیر رابرٹ اوکلے کی چائے کی دعوت قبول کی۔ یہ وہ دن تھے جب وزارت ِ عظمیٰ کی جوڑ توڑ جاری تھی۔ امریکی سفیر کی اس ملاقات سے ہی طے ہوا کہ نیا وزیراعظم کوئی اور نہیںبے نظیر بھٹو ہے۔ آج یہ پیپلزپارٹی کس حال میں ہے۔ آصف علی زرداری مختلف مقدمات میں گردن گردن دھنسے ہوئے ہیں۔ ہرگزرتے دن مقدمات کے اتارچڑھاؤ میں سیاسی نشیب وفراز طے اور تہہ ہوتے ہیں۔ کسی کے پاس کوئی اخلاقی بنیاد نہیں۔ آصف علی زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں جنرل ضیاء کے صاحبزادے اعجاز الحق سے ملاقات کی جو ذرائع ابلاغ کی زینت نہیںبن سکی۔ ایک ملاقات میں اُنہوں نے اس خاکسار کو بتایا کہ آصف علی زرداری نے اُن سے کہا کہ میں نے آپ کے خاندان اور آپ نے میرے خاندان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تو ہم ایک دوسرے سے کیوں دشمنی رکھیں۔ یہ سیاست ہے جس کی تکریم میں ایک طبقہ نامعلوم کون کون سے اسالیب تراشتا ہے۔ ادبی تراکیب کی آڑ لیتا ہے اور شعروں کی گوٹاکناری کرتا ہے۔
پیپلزپارٹی کو چھوڑئیے اور نواز لیگ کی طرف توجہ دیں۔ یہ وہی جماعت ہے جس کی سانسوں سے لے کر آنتوں تک ہر چیز غیر سیاسی قوتوںکی مہیا کردہ ہے۔ اس جماعت کے متعلق تاریخ سے کسی حوالے کو بھی ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔جنرل ضیاء الحق نے اسی نواز شریف کو اپنی عمر لگنے کی دعا دی تھی (یہ فیصلہ ابھی تک نہیں ہوسکا کہ یہ دعا تھی یا بددعا)۔ جنرل حمید گل سے لے کر نامعلوم کتنے جرنیل ہیں جو اس تال میل کی تاریخ سناتے سناتے رزقِ خاک ہوگئے۔ نوازشریف نے ان سب سے سب کچھ سمیٹا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تلوار کتنی ہی تیز ہوجائے جس نیام میں رہنا ہو اُسے ہی کاٹنے لگے۔ نوازشریف ایک ایسی تلوار ثابت ہوئے جو اپنی ہی نیام کو کاٹنے کے درپہ ہو۔ ایسا وہ کسی اخلاقی برتری یا سیاسی فراست سے وطن ِعزیز کو عالمی برادری میں کوئی مقام دلانے کی جستجو میں کرتے تو وہ تاریخ میں سرخرو دکھائی دیتے۔ مگر یہ سب بدعنوانیوں کے تحفظ، اقتدار پر جدی پشتی حق اور قومی مفادات کو پھلانگ کر اناپرستی میں کیا۔جو شخص اپنی ذات کے گنبد سے نکل کر سوچنے کی صلاحیت ہی نہ رکھتا ہو، اس کے لیے دستوری بالادستی کے وجد آفرین بیانئے، آئینی حیلے اور جمہوری ترانے گانے سے کچھ دیر کے لیے طمانیت تو مل سکتی ہے کچھ کے دسترخوان تو تھوڑی دیر کے لیے سج سکتے ہیں۔ کچھ ہڈیاں تو چچوڑنے کے لیے مل سکتی ہیں مگر اس سے جمہوریت کو کوئی حیات افزا پیغام اور آئین کو کوئی مقام نہیں ملتا۔ پیٹ کی باتیں کتنی ہی اعلیٰ ہو معدے میں گڑگڑ کی وجہ بنتی ہیں اور بس!!! صوفی شاعر سراج اورنگ آبادی نے کہا تھا
دو رنگی خوب نئیں یک رنگ ہو جا
سراپا موم ہو یا سنگ ہو جا
اگر جمہوریت چاہتے ہو، تو پہلے عورت اور شاعری کی طرح اس کا مطالبہ بھی پورا کرو، پورے پورے جمہوریت کے ہو کردکھاؤ!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔