... loading ...
ایک سال قبل پانچ اگست کو ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تحلیل کرنے کے بعد بیشتر مبصرین خدشہ ظاہر کر رہے تھے کہ خطے کی مسلم اکثریتی ا?بادی کو اپنے ہی وطن میں اپنی ہی زمین پر ا قلیت میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ گو کہ اس طرح کے اقدام کو نافذ کرنے میں عملاً کئی سال درپیش ہوں گے مگر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کشمیر کی افسر شاہی میں تناسب کے اعتبار سے مقامی مسلمان پہلے ہی اقلیت میں ا? چکے ہیں۔ فی الوقت خطے میں 24 سیکرٹریوں کی پوسٹوں پر صرف پانچ مسلمان فائز ہیں۔ اسی طرح 58 اعلیٰ عہدیداران یعنی انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس‘ جو ریاست کا نظم و نسق چلاتے ہیں‘ میں مسلمان 12 یعنی 17.24فیصد ہیں۔ ان میں سے ایک شاہ فیصل نے دو سال قبل استعفیٰ دے کر سیاست میں شمولیت اختیار کی تھی اور پچھلے 10ماہ سے نظربندی کے بعد حال ہی میں رہائی حاصل کی ہے۔ حکومت نے ان کا استعفیٰ ابھی تک منظور نہیں کیا۔
2011ء کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر کے سوا کروڑ نفوس میں 68.31فیصد مسلمان اور 28.43فیصد ہندو ہیں مگر آبادی کے تناسب کے اعتبار سے سرکاری اداروں میں مسلمانوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ دوسرے درجے کے 523انتظامی افسران جنہیں کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس کہتے ہیں‘ میں 220 یعنی 42.06فیصد کشمیری مسلمان ہیں۔ اعلیٰ پولیس افسران کی خطے میں 66پوسٹس ہیں ان میں صرف سات مسلمان ہیں۔ دوسرے درجے کے پولیس افسران میں 248 میں سے 108 یعنی 43.54 فیصد مسلمان ہیں۔
چند ماہ قبل سوشل میڈیا پر لیفٹیننٹ گورنر گریش چندر مورمو کے دفتر سے جاری کردہ میٹنگ کی ایک تصویر خاصی زیر بحث رہی۔ گورنر مقامی مسائل کے حوالے سے ایک میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے، اس میں موجود 19 افسران میں بس ایک برائے نام سابق مقامی اہلکار فاروق احمد لون موجود تھے‘ بقیہ سبھی افسران ریاست سے باہر کے تھے۔ گو کہ بھارتی حکومت نے خانہ پری کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک لیڈر اور سابق پولیس افسر فاروق احمد خان کو بطور مشیر نامزد کیا ہے، جن کو 20 سال قبل دو عدالتی کمیشنوں نے کئی افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان کے خلاف ایکشن کی سفارش کی تھی۔ جس کے بعد اس وقت کی فاروق عبداللہ حکومت نے ان کو بر طرف کر دیا تھا مگر چند سال بعد کانگریسی وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد نے ان کو پھر عہدے پر بحال کر دیا۔
جن افراد کو انہوں نے مبینہ طور پر ہلاک کیا تھا وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر کی جانب شکایت کرنے جا رہے تھے کہ ان کے لواحقین کو پولیس اور فوج نے غیر ملکی بندوق بردار قرار دے کر جعلی مقابلے میں ہلاک کر دیا تھا۔ یہ واقعہ مارچ 2000ء کو امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ? بھارت کے دوران پیش ا?یا تھا، جب جنوبی کشمیر کے ایک گائوں چٹھی سنگھ پورہ میں رات کے اندھیرے میں 35سکھ افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا تھا۔ اس کے اگلے روز ہی اننت ناگ ضلع کے ایس ایس پی فاروق خان نے سکھوں کے قتل میں ملوث افراد کو ایک مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا اور ان کا تعلق پاکستان سے جوڑا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ مقتول افراد ایک دیہاتی اور ایک اننت ناگ کا تاجر تھا اور ان کو پہلے سے گرفتار کر رکھا تھا۔
معروف مصنف اور قانون دان اے جی نورانی کے مطابق 1950ء میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 اس لیے تشکیل دی گئی تھی کہ ہندو اکثریتی بھارت میں کشمیر کی مسلم شناخت قائم رہے۔ اب اس شناخت پر کاری وار کیے جا رہے ہیں۔ حقوق انسانی کے کارکن خرم پرویز کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران کورونا وائرس کے کرائسس کے دوران حکومت نے جو پے درپے اقدامات کیے ہیں ان کا مقصد مقامی ا?بادی کو مکمل طور پر بے اختیار اور حق رائے دہی سے محروم کرنا ہے۔ سابق وائس چانسلر صدیق واحد کے مطابق دنیا کے کسی بھی خطے میں جب اس طرح کے اقدامات کیے جاتے ہیں تو باضابطہ ریفرنڈم کے ذریعے عوامی رائے معلوم کی جاتی ہے۔ خود بھارت میں بھی کسی ریاست کی تقسیم وہاں کی مقامی اسمبلی کی سفارش پر ہی کی جاتی ہے مگر کشمیر کے معاملے میں بھارتی پارلیمان کو استعمال کرکے فیصلہ ٹھونس دیا گیا۔ بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے 788اراکین میں محض 10اراکین جموں و کشمیر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان میں سے بھی ایک سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کو نظر بند کرکے ایوان کی کارروائی میں شمولیت سے روک دیا گیا تھا۔
بقیہ نو اراکین میں سے پانچ نے اس فیصلہ کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے دو ممبران نے تو شدتِ جذبات میں کارروائی کے دوران بھارتی ا?ئین کی کاپیاں تک پھاڑ ڈالی تھیں۔ نہ صرف افسر شاہی بلکہ تجارت میں بھی اب کشمیریوں کو دودھ سے مکھی کی طرح نکالا جا رہا ہے۔ چند ماہ قبل کان کنی کے 52ٹھیکوں میں سے 40ٹھیکے غیر ریاستی افراد کو دیے گئے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس مدن لوکور کے قیادت میں ممتاز بھارتی شہریوں کے ایک گروپ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران کشمیر تاجروں کو 400 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ مقامی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی یعنی سیب کی پیداوار اس حد تک متاثر ہوئی کہ ٹرانسپورٹ کی عدم موجوگی کی وجہ سے تقریباً 1.35 لاکھ میٹرک ٹن پھل سڑ گئے۔ گو کہ کورونا وائرس چین کے شہر ووہان سے نمودار ہوا مگر لاک ڈائون کا منبع کشمیر ہے، جہاں پچھلے سال اگست میں لاک ڈائون لگا اور پھر اس نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔اس لاک ڈائون سے خطے کی دوسری بڑی معیشت یعنی سیاحت تو پوری طرح دم توڑ گئی جس سے ایک لاکھ 44 ہزار افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔
اکثر افراد اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ جموں و کشمیر ایک غریب اور مفلس خطہ ہے اس لیے اکثر لوگ یہاں چلنے والی آزادی کی تحریک کو اقتصادی صورتحال سے جوڑ دیتے ہیں۔ ان افراد کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے عرض ہے کہ پچھلے سال تک خصوصی ریاستو ں کے درجہ میں جموں و کشمیر بھارت میں ٹیکس آمدن میں تیسرے نمبر پر اور غیر ٹیکس آمدن میں دوسرے نمبر کی ریاست تھی۔ ریاست کی مجموعی گھریلو پیداوار 780ارب روپے سے تجاوز کر گئی تھی۔ اس طرح فی کس مجموعی گھریلو آمد ن بھی ایک لاکھ روپے کے لگ بھگ تھی۔ کشمیر میں خطِ غربت کا تناسب محض 10.31فیصد ہے جبکہ بھارت میں یہ تناسب 21.92 فیصد ہے۔گو کہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شا بار بارآبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے خدشہ کو بے بنیاد قرار دے رہے ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کی اپنی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں کام کرنے والے 28لاکھ افراد ریاست کشمیر سے تعلق نہیں رکھتے، ان میں اکثریت بہاریوں کی ہے۔ نئے قانون سے یہ افراد تو یکمشت ہی شہریت کے حقدار ہوں گے۔ اس طرح جو لگتا تھا کہ ا?بادی کے تناسب کو بگاڑنے میں کئی سال لگ جائیں گے اور اس دوران تاریخ کا پہیہ پلٹ کر کشمیری عوام کی مدد کو آئے گا، اگر اتنی بڑی تعداد میں افراد کی شہریت دے دی جاتی ہے تو جموں و کشمیر کی ا?باد ی کا تناسب راتوں رات بگڑنے کا اندیشہ ہے۔
کشمیر کے سابق وزیر خزانہ حسیب درابو کے مطابق بھارت کے اقدامات نے خطے میں آزادی پسندوں کے دلائل کو تقویت بخشی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک سال میں سب سے زیادہ نقصان بھارت نواز جماعتوں یعنی نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس کو ہوا ہے۔ ان پارٹیوں کی حالت قابل رحم ہے‘ جو بھارت کے فیڈرل، سیکولر اور جمہوری ڈھانچے کے اندر کشمیری تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں تھیں۔ یہ پارٹیاں ایک طرف نریندر مودی حکومت کے آمرانہ اور جابرانہ رویے اور دوسری طرف مقامی عوام کی ناراضی کے پاٹوں میں پھنس گئی ہیں۔ ان کو سمجھ نہیں ا? رہی کہ کس کا ہاتھ تھامیں۔ ویسے اگر بیرونی ریاستی افراد کی اتنی بڑی تعداد کو شہریت دی جاتی ہے اور وہ کشمیر میں ووٹ دینے کے حقدار ہوں گے تو پھر بھارت کو عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور سجاد لون کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ پھر وہ بہار کے کسی فرد کو اسمبلی میں لاکر ہمیشہ کے لیے وادی کی بھارت نواز پارٹیوں کی سیاست ختم کر دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔