... loading ...
جنگ عظیم اول کے بعد دنیا کو تباہی سے بچانے اور عالمی انصاف کی فراہمی کے اہداف کے ساتھ لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں آیا جو کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکا، دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام عالم نے بہتر دنیا کی تشکیل کی غرض سے انجمن اقوام متحدہ کے قیام کو ضروری سمجھا۔ سابق امریکی صدر ہینری ایس ٹرومین نے اقوام متحدہ کے قیام کے وقت جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوے وہاں موجود تمام اراکین کو مخاطب کرتے ہوے کہا کہ ہمیں تمام دنیا کو انصاف فراہم کرنے کے لئے کام کرنا ہوگا لیکن افسوس ”میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی” کے مصداق یہ خواب عملی طور پر تعبیر نہ ہوسکا کیونکہ چھوٹی موٹی مرمتوں سے دنیا امن کا گہوارہ نہیں بن سکتی جب تک کہ تمام بڑے مسائل حل نہ کرلیے جائیں۔
اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق اس کی سیکیورٹی کونسل کی سب سے اہم ذمہ داری عالمی امن و انصاف کو یقینی بنانا اور دنیا کو جنگوں کی ہولناکیوں سے بچانے کے لیے اقدام کرنا ہے لیکن ستر سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل بھارت سے اپنی منظور کردہ متعدد قراردادوں کے باوجود عالمی قوانین کی پاسداری کروانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے، عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اس وقت عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے جو دو ایٹمی قوتوں بھارت و پاکستان کو کسی بھی وقت جنگ میں الجھا سکتا ہے۔ ماضی میں دونوں ممالک کے مابین چار ہولناک جنگیں ہوچکی ہیں لیکن اب دونوں ہی ایٹمی قوت ہیں اور ممکنہ طور پر جنگ کی صورت دونوں ایٹمی ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کرسکتی ہیں ایسے میں یہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ سات دہائیوں سے لٹکے مسئلہ کشمیر کا حل اپنی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق کرے جس سے بھارت مختلف ہتھکنڈوں اور حیلے بہانوں کا استعمال کرکے ستر سالوں سے گریز کررہا ہے۔
کشمیریوں کی شروع سے ہی مذہبی، ثقافتی و سماجی ہم آہنگی موجودہ پاکستان کے لوگوں سے تھی اور جغرافیائی لحاظ سے بھی موجودہ پاکستان سے منسلک تھا یہی وجہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد کشمیریوں کی بڑی اکثریت نے پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی، 5 ؍ستمبر 1947 کو کسان مزدور کانفرنس ہوئی اور پاکستان میں شمولیت کی قرارداد پاس کی، 18؍ ستمبر کو کشمیر سوشلسٹ پارٹی نے پاکستان سے الحاق کی قرارداد پاس کی۔ کشمیریوں کے اس رجحان کو دیکھتے ہوے بھارت نے جموں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا جس کے ردعمل میں قبائلی مجاہدین کشمیری مسلمانوں کی مدد کو پہنچنا شروع ہوگئے اور جب بات ڈوگرا فوج و ہندوتوا شدت پسندوں کے بس سے باہر ہوگئی تو نہرو سرکار نے بھارتی فوج کو کشمیر میں داخل کردیا جس کے نتیجے میں پاک بھارت جنگ پھوٹ پڑی جس میں بھارتیوں کی زبردست پٹائی ہوئی تو نہرو سرکار فوراً اقوام متحدہ جا پہنچی۔ اقوام متحدہ کی ثالثی پر پاکستان نے جنگ بندی کردی اور معاملہ عالمی قوانین کے تحت اقوام متحدہ پر چھوڑ دیا۔ سیکیورٹی کونسل میں بھارت کو منہ کی کھانی پڑی اور معاملہ استصواب رائے کے زریعے حل کرنے کے فارمولے کے تحت طے پایا۔ اس ضمن میں UNSC نے متعدد قراردادیں پاس کیں لیکن ہٹ دھرم بھارت مختلف ہتھکنڈوں سے ٹال مٹول کرتا رہا۔ اسی دوران بھارت نے 1954 میں نام نہاد الیکشن کرواکر پپٹ کشمیر اسمبلی سے بھارت کے ساتھ الحاق کی منظوری لیکر اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا جس کے جواب میں UNSC نے قرارداد 122 پاس کی جس میں نام نہاد کشمیر الیکشن اور نام نہاد اسمبلی کے قانون کو مسترد کرتے ہوئے استصواب رائے کے مطابق الحاق کا فیصلہ قائم رکھا اور سابق بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کے انکشاف کہ ”کشمیری مین اسٹریم لیڈر 1947 سے بھارت سے پیسے لے رہے ہیں” جس کے جواب میں کشمیری مین اسٹریم لیڈر نے کہا کہ ”اس کے بدلے ہم بھارتی پرچم کو کشمیر میں سرنگوں رکھے ہوئے ہیں” کے بعد اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ بھارت اپنے چند زرخرید پپٹ کے ذریعے نہ صرف کشمیر کے ناجائز الحاق کو قائم رکھے ہوے تھا بلکہ اپنے کالے قوانین پبلک سیفٹی ایکٹ، آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ وغیرہ اور ظلم و بربریت کو روا رکھے ہوئے تھا۔ بھارت کبھی سیٹو اور سینٹو کا بہانہ بناکر تو کبھی سوویت یونین کے پیچھے چھپ کر اقوام متحدہ کی قراردادوں پہ عمل کرنے سے بھاگتا رہا اور پھر 1972 میں پاک بھارت شملہ معاہدہ ہوا جس کے تحت دونوں ممالک راضی ہوے کہ آپسی معاملات باہمی رضامندی سے طے کیے جائینگے اس کے بعد سے جب بھی مسئلہ کشمیر کے حل کا سوال اٹھا تو بھارت نے اسے Bilateral کہہ کر مسترد کردیا۔
1998 کے پاک بھارت ایٹمی دھماکوں کے بعد اقوام متحدہ نے قرارداد 1172 کے ذریعے دونوں ممالک پر کشیدگی ختم کرنے اور تعلقات کی بہتری کے لیے زور دیا لیکن بھارت اپنی فطرت سے باز نہ آیا وقتی دکھاوا کرکے بھارت پاکستان میں دہشتگردانہ کاروائیوں کی سرپرستی کرتا رہا۔ ملکہ الزبتھ نے پاک بھارت دورے کے موقع پر کشمیر کی ثالثی کی آفر کی تو بھارت نے اسے دو طرفہ یا باہمی معاملہ کہہ کر مسترد کردیا، اس کے بعد یہ جواب ترکی، چین و ایران کی آفرز کے جواب میں دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انٹوریو گٹیرس کی ثالثی کی آفر کی تو بھارت نے جواباً شملہ معاہدہ کا زکر کرتے ہوے کہا کہ اب UNMOGIP کی ضرورت نہیں یہ ہمارا باہمی مسئلہ ہے اس کے علاوہ فرانس کے دورے کے موقع پر بھی نریندر مودی نے ڈونلڈ ٹرمپ و فرانسیسی قیادت کو یہی جواب دیا لیکن 5 اگست 2019 کو یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کرکے کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کے مودی سرکار کا اقدام نہ صرف شملہ معاہدہ و لاہور ڈیکلریشن کی صریحاً خلاف ورزی ہے بلکہ ویانا کنونشن کی بھی خلاف ورزی ہے اور ویانا کنونشن کے آرٹیکل 60 کے تحت پاکستان اب مزید اس معاہدہ کو مکمل یا جزوی منسوخ کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے اور اب بھارت کے پاس یہ جواز باقی نہیں رہ سکتا کہ وہ کشمیر کو بائی لیٹرل مسئلہ کہہ کر عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بھاگ سکے۔ اس کے علاوہ مودی سرکار کی حکمت عملی سے اب حریت لیڈروں کے علاوہ مین اسٹریم لیڈر بھی بھارت سے متنفر ہوگئے ہیں جس کا فائدہ پاکستان کو اٹھانا چاہئے اور اقوام عالم کو جھنجھوڑ کر بیدار کرے۔ UNSC کو عالمی امن کو یقینی بنانے کے لیے عراق طرز پر بھارت کے خلاف ایکشن لینا ہوگا ورنہ کوئی بعید نہیں کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے کسی بھی ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔