وجود

... loading ...

وجود

کراچی کے نالے

جمعرات 06 اگست 2020 کراچی کے نالے

کراچی میں مون سون کی طوفانی بارشوں کے بعد نکاسی آب کے مسائل حل ہو نہ ہو بہرحال نالوں کی صفائی کی مہم پورے زور و شور کے ساتھ ضرور شروع کردی جاتی ہے ۔یہ انتظامی طرزِ عمل گزشتہ چالیس برسوں سے کراچی پر راج کرنے والی ہر سیاسی جماعت کا محبوب اور پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔کہا جاتاہے کہ نالوں کی صفائی مہم کے ذریعے کرپشن کرنے کا جو ’’صاف ستھرا‘‘ موقع سیاسی جماعتوں کو میسر آجاتا ہے ۔اُس کا انتظار کراچی پر راج کرنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے سارا سال بڑی شدت اور بے چینی کے ساتھ کیا جاتاہے اور پھر جیسے ہی مون سون کی بارشیں کراچی میں کھل کر برستی ہیں،تو اُس کے فوراً بعد ہی نالوں کی صفائی کی مہم کے نام پر چند طاقت ور افراد کی تجوریوں کو منہ تک لبالب بھرنے کے لیے نالوں کی صفائی کی مہم کے ٹھیکے اپنے من پسند افراد کو عطا کردیئے جاتے ہیں ۔ یوں کراچی کی بارشیں گزشتہ چالیس برسوں سے چند طاقت سیاسی افراد کے لیے تواتر کے ساتھ ’’باعثِ رحمت‘‘ بنتی آ رہی ہیں ۔لیکن رواں برس اِس’’سیاسی منصوبہ ‘‘میں ذرا سی تبدیلی یا یہ کہہ لیجئے کہ کھنڈٹ ڈال دی گئی ہے اور وفاقی حکومت نے نالوں کی صفائی کی تمام تر ذمہ داری نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو تفویض کردی ہے ۔ وفاقی حکومت کے اِس اقدام کو گزشتہ چالیس سالہ روایت سے ہٹ کر یقینی بنانے میں تحریک انصاف کراچی کے چند رہنماؤں، خاص طور پر تحریک انصاف کراچی کے اہم ترین رکن اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے استعفا نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے ۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ عامر لیاقت حسین نے اپنا استعفا واپس لینے کے لیے یہ بنیادی شرط ہی یہ رکھی ہے کہ کراچی کے مسائل کے سدباب کے لیے’’ سندھ حکومت ‘‘ کو بیچ میں سے ہٹا کر بھی کچھ انتظامی بندوبست کیا جائے ۔
ویسے بھی ملک کے اقتصادی مرکز کہلائے جانے والے کراچی کے متعدد علاقے مون سون کے پہلے سیزن ہونے والی بارش کے نتیجے میں جس طرح غرقِ آب ہوئے، نکاسیِ آب کے نظام کو فعال رکھنے میں شہر کراچی کے بلدیاتی اداروں اور پاکستان پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کے متعلقہ محکموں کی ناکامی اس سے پوری طرح واضح ہو گئی ہے اور بالآخر وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے پاس کوئی دوسرا چارہ کار ہی نہ رہا کہ وہ کراچی کو مستقبل میں برسنے والی مون سون کی بارشوں میں غرقِ آب ہونے سے بچانے کے لیے انتظامی مداخلت کرتے ہوئے پاک فوج کو شہر کراچی کو بدانتظامی کے مشکل بحران سے نکالنے کے لیے براہ راست ذمہ داریاں تفویض کردیں۔وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی خصوصی حکومتی احکامات پر ہی لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کی سربراہی میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن نے شہر کے برساتی نالوں کی صفائی کابیڑا اٹھایا ہے تاکہ آنے والے دنوں میں جو مزید بارشیں شہر کراچی متوقع ہو سکتی ہیں،کم از کم وہ تو شہریوں کے لیے رحمت کے بجائے جاں گسل عذاب کا باعث ثابت نہ ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہر کراچی میں نالوں کی صفائی مہم کے لیے پاک فوج کو بلائے جانے کے بعد عام شہریوں کو پہلی بار اُمید ہو چلی ہے کہ اب کی بار اُن کے شہر میں نالوں کی صفائی کا خاطر خواہ کا انتظام ضرور ہوجائے گا۔ بظاہر جمہوری دورِ حکومت میں فوج کو فقط نالوں کی صفائی کے لیے طلب کرنا عجیب سا کام لگتا ہے لیکن کراچی کے سول و بلدیاتی ادارے سیاسی جماعتوں کی جانب سے روا رکھی جانے والی سیاسی اقربہ پروری کے باعث جس زوال اور انحطاط کا شکار ہیں ۔اُسے دیکھتے ہوئے پاک فوج کے علاوہ کسی انتظامی ادارے پر اعتبار نہیں کیا جاسکتاکہ وہ کراچی میں نالوں کی صفائی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتاہے۔
یادر ہے کہ بارش کوئی اچانک ٹوٹ پڑنے والی آسمانی آفت نہیں جس کے منفی اثرات سے نمٹنے کا پیشگی بندوبست دشوار ہو اور نہ ہی بارش کوئی ایسی وباہے جو کئی سالوں کے طویل وقفوں کے آسمان سے نازل ہوتی ہے کہ نکاسی آب کا شہر میں بندوبست ہی نہ کیا جاسکے ۔ مون سون کی بارش تو ہر سال برستی ہے لیکن افسوس شہر کراچی پر حقِ حکمرانی رکھنے والی سیاسی جماعتیں آسمان سے برسنے والی بارش سے بھی ’’اُوپر کی کمائی ‘‘ بڑھانا چاہتی ہے۔ وگرنہ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ اگر شہر کراچی کے متعلقہ ادارے اپنا کام بروقت انجام دیتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ شہر سیلابی کیفیت کا کبھی نشانہ بنتا اور قومی سلامتی کی حفاظت پرمامور فوج کو شہر کراچی کے نالوں کی صفائی کے لیے خاص طور پر بلانا پڑتا۔ گزشتہ روز لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل نے میڈیا سے گفتگو میں اس حقیقت کی نشان دہی بھی کی ہے کہ پچیس سال پہلے کراچی کے نالوں کی چوڑائی تین سو سے چار سو میٹر تھی جو آج کئی کئی جگہوں پر بمشکل تین چار میٹر رہ گئی ہے نیز نالوں کے اطراف تجاوزات کی بھی بھرمار ہے جبکہ یومیہ اکٹھا ہونے والے سالڈ ویسٹ میں سے صرف تین چار ہزار ٹن سالڈ ویسٹ اٹھایا جاتا ہے اور باقی ندی نالوں میں جا کے رکاوٹ بن جاتا ہے حالانکہ دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح ہم بھی اسے آمدنی کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے چیئرمین نے بجاطور پر صراحت کی ہے کہ نالوں کی صفائی کا یہ کام جو فوج کررہی ہے مسئلے کا مستقل حل نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اتفاق رائے سے جدید سیوریج سسٹم کے بندوبست اور تجاوزات کے خاتمے کا لائحہ عمل طے کریں۔ بلاشبہ اس ضرورت کی جلد ازجلد تکمیل شہر کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے۔لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو سندھ حکومت برسہا برس سے نالوں کی صفائی کروانے میں کامیاب نہ ہوسکی ہو اُس سے یہ توقع کرنا کہ وہ شہر کراچی کو ایک جدید سیوریج لائن کا تحفہ دے سکتی ہے ۔ ایں خیال است و محال است و جنوں است۔ یعنی یہ سوچنا بھی خواب ہے ، مشکل ہے اور پاگل پن ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال وجود پیر 21 اپریل 2025
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال

ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا! وجود پیر 21 اپریل 2025
ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا!

ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے! وجود اتوار 20 اپریل 2025
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے!

یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال وجود اتوار 20 اپریل 2025
یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال

تارکین وطن کااجتماع اور امکانات وجود اتوار 20 اپریل 2025
تارکین وطن کااجتماع اور امکانات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر