وجود

... loading ...

وجود

’’گائے‘‘ گی دنیاگیت میرے۔۔

جمعه 31 جولائی 2020 ’’گائے‘‘ گی دنیاگیت میرے۔۔

دوستو،پتہ نہیں کیوں ہر بقرعید پہ ہمیں ملکہ ترنم نورجہاں کی یاد آجاتی ہیں۔۔ جنہوں نے شاید اسی دن کیلیے گایا تھا۔۔’’ گائے ‘‘گی دنیا گیت میرے۔۔گلی کوچوں میں گھنگھروں کی چھم چھم، جانوروں کی بھاں بھاں، میں میں اور بھیں بھیں۔۔لڑکوں کی چیخیں اور نعرے دیکھ کر اسپین کی بل فائٹنگ کے میدان یاد آجاتے ہیں۔۔بقرعید ایسی عید ہوتی ہے جس کا پہلے سے سب کو علم ہوتا ہے کیوں کہ چاند دس روز پہلے ہی نظر آجاتا ہے۔۔ اس بار بھی کل عید ہے، اور اپنی اوٹ پٹانگ باتیں اسٹارٹ لینے سے قبل آپ تمام احباب کو پیشگی عید مبارک۔۔
بقر عید تو دراصل مردوں کا تہوار ہے۔ بکرا منڈی جانا ، پھر ان کا جانوروں کی تفصیلات حاصل کرنا، کیا عمر ہے کہ ہمارے یہاں قربانی کا جانور اور محبوب دونوں بالی عمر کے ہی پسند کیے جاتے ہیں، کوئی شرعی عیب تو نہیں ؟چاہے خودمیں جتنے بھی عیب کیوں نہ ہوں، قربانی کے جانور میں کوئی عیب نہیں ہونا چاہئے ورنہ دنیا تْھو تْھو کرے گی، منہ کھلوا کر دانت گننا خاصا خطرے کا کام ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ آپ جانور کے دانت گنیں کہیں جانور آپ کی انگلیاں نہ گننے لگ جائے۔ اس لیے قربانی ان جانوروں کی ہوتی ہے جو کبھی مکتب نہ گئے ہوں۔ پھر چلا کر دیکھنا کہ الہڑ مٹیار کی طرح چلتا ہے کہ نہیں۔ لیکن اس چال میں چلن کا بانکپن ہونا چاہئے، ورنہ کہیں ضعف چلن کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوجائیں، خاص طور پہ گائیوں کا ضعف چلن ہمارے یہاں غیرت کا مسئلہ بن سکتا ہے جس میں قانون بھیگی بلی بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر قیمت کا تعین اور اس پہ بحث۔ اسکے بعد اپنی حد سے باہر جاتا دیکھ کر اسے چھوڑنا، اپنی حد میں آتا دیکھ کر سوچنا کہ مبادا اس سے اچھا کوئی اور جانور مل جائے اور دوسرے کی حد میں جاتا دیکھ کر تاسف میں پڑنا کہ سال بھر اس نے ہم سے بہتر مال بنایا۔ اس طرح پوری بکرا منڈی کا ایک سیر حاصل تجزیہ جس کے بعد آپ محض میں میں اور بھیں بھیں سن کر بتا سکتے ہیں کہ یہ کسی سرائیکی دکاندار کا جانور ہے یا سندھ کے میدانوں سے آیا ہے۔ آیا خالص پاکستانی جینز رکھتا ہے یا کسی فرنگی ملک کے شاندار جینز میں بھی حصے دار ہے۔ یہاں بہت سارے سوالات کھڑے ہوتے ہیں مگر انہیں بٹھا دیتے ہیں کہ عید پہ قربانی بے زبان ، معصوم، ‘سیدھی’ سادی گائیوں ،بکروں، چھتروں،اور بکریوں کی جائز ہے ہماری نہیں۔۔
باباجی فرماتے ہیں اس بار ہونے والی مردم شماری میں کراچی میں رہنے والوں کی جو تعداد بتائی گئی ہے اس سے زیادہ تو کراچی والے جانوروں کی قربانی کردیتے ہیں، یقین نہ آئے تو عید کی چھٹیوں کے بعد شائع ہونے والے اخبارات میں لگنے والی خبریں دیکھ لیجئے گا۔۔ اس والی عید پہ تو خواتین جیسے کچن میں نظربند ہوجاتی ہیں۔۔ اس کے لیے وہ یا تو سال بھر کی جمع کی ہوئی ترکیبیں آزماتی ہیں یا پھر انکی اس بوریت کو دور کرنے کے لیے مختلف برانڈز کے تیار مصالحوں سے پرچون کی دکانیں بھر جاتی ہیں۔ اس سے پھوہڑ عورتیں ہی نہیں سگھڑ مرد بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی سلیقہ مندی کی داد پاتے ہیں۔۔ ایک صاحب نے کئی گھنٹے تک منڈی میں گھومنے پھرنے کے بعد ایک بکرا پسند کرہی لیا۔۔پھر بیوپاری سے بکرے کے خاندان، اس کی نسل، شجرہ نسب پر سیرحاصل گفتگو کی،بیوپاری تمام سوالوں کے جواب سکون سے دیتا رہا، صاحب اچانک بولے، وہ تو سب ٹھیک ہے مگر بکرے کے سینگ بہت چھوٹے ہیں، جس پر بیوپاری نے تپ کر کہا، آپ نے کیا اس کے سینگ پر کپڑے لٹکانے ہیں۔۔مشتاق یوسفی فرماتے ہیں عاشق اور بکرے طبعی موت نہیں مرتے،دونوں کی قربانی ہوتی ہے۔۔کچھ بکرے بظاہر تو بہت صحت مند دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ’’ سیریلیک‘‘ بکرے ہوتے ہیں، ان کے گوشت کا کوئی فائدہ نہیں، بکرا جتنا اونچالمبا ہو، گوشت اتنا ہی ڈھیٹ اور بدمزہ ہوتا ہے۔۔عطاالحق قاسمی فرماتے ہیں۔۔ میں ایک دنبے کے پاس گیا تو پتا چلا اسے مار مار کر دنبہ بنایا گیا ہے۔۔اونٹ کو اکبرالہ آبادی مسلمان سے تشبیہہ دیتے تھے کیونکہ مسلمان کی طرح اس کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی اور مسلمان کی طرح یہ بھی صحرا کا جانور ہے۔۔ جس طرح ہر مسلمان کی پیٹھ پر عظمتِ رفتہ کا کوہان ہوتا ہے اس کی پیٹھ پر بھی ہوتا ہے۔۔اگرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی، لیکن دودھ یہ بھی دیتی ہے۔ عام طور پرصرف دودھ دیتی ہے لیکن مجبور کریں تو کچھ منگنیاں بھی ڈال دیتی ہے،جن ملکوں میں بہت انصاف ہو ان میں شیر اور بکریاں ایک گھاٹ پر پانی پینے لگتی ہیں، اس میں فائدہ یہ ہے کہ شیر پانی پینے کے بعد وہیں بکری کو دبوچ لیتا ہے، اْسے ناشتے کے لیے زیادہ دور نہیں جانا پڑتا۔
جنت میں قربانی کے بکروں کا فٹبال میچ ہورہا تھا،ایک جنتی نے اس میں اپنا بکرا تلاش کرنے کی کوشش کی تو دیکھا وہ گراؤنڈ سے باہر ایک اسٹول پہ بیٹھا ہے ، جنتی اس کے قریب گیا اور کہا ، تم میچ کیوں نہیں کھیل رہے، بکرے نے اسے گھورا اور پھر کہنے لگا۔۔ حضرت پہلے آپ کے گھر کے امریکن کچن میں موجود فریج کے اندر رکھی میری ران تو ختم کرنے کا کہہ دوپھر ہی کھیل سکتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے جنتی کو اپنی تین ٹانگیں دکھائیں۔۔اس لیے پلیز قربانی کاگوشت ذخیرہ نہ کیجئے،اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کریں۔۔ پاکستان غذائی قلت کے شکار سولہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ مشیر عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں غربت، مہنگائی کی وجہ سے عوام کو بنیادی خوراک تک رسائی نہیں۔اسی وجہ سے پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر پینتالیس فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔اس لیے بحیثیت ایک مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ کھانے کی ناقدری سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیںتا کہ اضافی خوراک اس انسان کے پیٹ میں چلی جائے جو خالی ہے۔۔اور یہی عیدقرباں کا فلسفہ بھی ہے۔۔
اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔کعبے کے چکر لگانے سے لوگوں کو دیئے گئے چکر معاف نہیں کیے جائیں گے،سوچئے گا ضرور۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مہذب دنیا کا بد صورت اور مکروہ چہرہ وجود پیر 23 دسمبر 2024
مہذب دنیا کا بد صورت اور مکروہ چہرہ

کشمیری حریت پسند جماعتوں پر پابندی وجود پیر 23 دسمبر 2024
کشمیری حریت پسند جماعتوں پر پابندی

عبادتگاہوں کا قانون اورچیف جسٹس سے توقعات وجود پیر 23 دسمبر 2024
عبادتگاہوں کا قانون اورچیف جسٹس سے توقعات

خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں! وجود اتوار 22 دسمبر 2024
خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں!

عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق وجود اتوار 22 دسمبر 2024
عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر