وجود

... loading ...

وجود

یہ آخری حملہ نہیں، جاگتے رہیں!!

بدھ 01 جولائی 2020 یہ آخری حملہ نہیں، جاگتے رہیں!!

یہ جاگنے کاوقت ہے۔ جاگو اور جگاؤ!!!
بھارتی اہداف بالکل واضح ہیں، اور اب بے چینی بھی! پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملہ اس کی نشاندہی کرتا ہے۔ دشمن یہاں نامراد ہوا، مگر اُس کی خواہشات اُسے پاگل بنائے دیتی ہے، یہ آخری حملہ نہیں، جاگتے رہیں!!
پاکستان کے ساتھ کچھ عجیب مسئلے ہیں۔ بھارت اس کا ازلی دشمن ہے، مگر پاکستان کے سیاسی حالات وحادثات قومی ترجیحات کو اُتھل پتھل کر دیتے ہیں۔ جس کا مکمل فائدہ دائم بھارت اُٹھاتا ہے۔ قومی سیاست میں جماعتی ذہن نے ملکی مفادات کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ سانٹھ گانٹھ کی سیاسی ذہنیت نے ملکی تو کیا غیر ملکی طاقتوں سے بھی ساز باز کی ایسی قبیح عادت پیدا کردی ہے کہ ٹالے نہیں ٹلتی۔ زیادہ وقت نہیں گزرا، کلبھوشن رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ دشمن مالک کی ثابت شدہ شہریت کے باوجود معاملہ سیاسی مفادات کے تحت حاشیے میں ڈالنے کے جتن کیے جاتے رہے۔ یہ نرم سے نرم لفظوں میں بھی غداری تھی۔ مگر قومی سیاست میں ٹھنڈے پیٹوں برداشت ہوئی۔ سیاسی تعصبات نے قومی مفادات کو پرے دھکیل دیا۔ سیاسی اور صحافتی اُفق پر اس سنگینی کو اجاگر کرنے والا کوئی نہ تھا۔ سب کے سب اپنے مفادات کے تحت اس معاملے کو نظرانداز کرنے پر تُلے تھے۔ نئی حکومت میں اس معاملے کو عالمی عدالت میں درست طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی، وگرنہ عالمی عدالت میں بھی یہ معاملہ ابتدا میں اس طرح پیش کیا گیا تھا کہ شکست کا اندیشہ تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟
پاکستان کو اندازا ہونا چاہئے تھا کہ بھارت کی قومی سلامتی کا مشیراجیت دووال کس ذہنیت کا مالک ہے؟ وہ سات برس پاکستان میں مقیم رہا۔ بی جے پی کی انتہا پسند ہندو حکومت نے اُسے صرف اس لیے گلے رکھا ہے کہ وہ پاکستان دشمنی میں پاگل ہوچکا ہے۔ بھار ت نے پاکستان کے کمزور سیاسی حالات اور بھارت کے خلاف عالمی سطح پر مقدمہ پیش نہ کرنے کی کمزور پاکستانی روایت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دو مقاصد حاصل کررکھے ہیں۔ اولاً:بھارت اپنے ملک میں مسلمانوں کے خلاف کسی بھی جبر کے ردِعمل کو پاکستان سے جوڑتا ہے، کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد اور مزاحمت کو پاکستان کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ اس مقدمے کو وہ دنیا میں ہر سطح پر اُٹھاتا ہے، بدقسمتی سے مسلمانوں کے خلاف عالمی ماحول کا فائدہ اُسے پاکستان کے خلاف موقف کی پزیرائی کی صورت میں ملتا ہے۔ ثانیاً: ایک طویل عرصے سے بھارت پاکستان کے ناراض عناصر کو دنیا بھر میں کھوج کھوج کر اپنی نیابت (پراکسیز) کے طور پر اکٹھا کررہا ہے۔ کراچی میں الطاف حسین، اندرون سندھ کچھ سندھی قوم پرست اور بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند براہِ راست اور بالواسطہ طور پر اس ہدف سے جڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی اب اُسے کچھ ناراض عناصر میسر آگئے ہیں۔ نوگیارہ کے حالات کے بعد پاکستان میں جس طرح کی عاقبت نااندیشانہ حکمت عملی اختیار کی گئی اور پرویز مشرف نے جس طرح مسلم جذبات کو نظرانداز اور لسانی اکائیوں کی اہمیت کے زمینی حقائق کو فراموش کیا، اس سے قومی سطح پر انحراف اور پھر غداری کی روش بھی گوارا ہونے لگی۔ اس کا درست تجزیہ تاحال کسی بھی سطح پر نہیں کیا جارہا۔ اب یہ سارے عناصر پاکستان کے خلاف ملک کے چاروں صوبوں میں الگ الگ لسانی شناختوں کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ بھارت ان تمام عناصر کی کسی نہ کسی طرح سرپرستی کررہا ہے۔ اجیت ڈوول ان سارے عناصر کو استعمال کرنے کے زمینی ذرائع پر گرفت رکھتا ہے۔
بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کا ذہن سمجھنے کے لیے اس کی 2014 ء کی تقریر باربار سننی چاہئے۔ جس میں وہ یوں تو سرحد پارسے ہونے والی نام نہاد دہشت گردی کی آڑ لیتا ہے،مگر عملاً وہ یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان کو کس طرح دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلا جاسکتا ہے؟اسی حکمت عملی کے تحت وہ اپنی نیابتی جنگ (پراکسی وار) کی پوری تشریح کرتا ہے۔بھارت کے ذہن میں پاکستان کے حوالے سے یہ حقائق ہمیشہ رہتے ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اورپاکستان چین کے ساتھ تزیرواتی تعلقات رکھتا ہے۔ اس تناظر میں اجیت ڈوول یہ واضح کرتا ہے کہ پھر پاکستان کے ساتھ کیسے لڑنا چاہئے؟ وہ اپنی تقریر میں صاف صاف کہتا ہے کہ پاکستان کو اس کی اپنی سرزمین پر مختلف محاذوں سے نشانا بنانا چاہئے۔ وہ انتہائی تیزی سے ان محاذوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ اجیت ڈوول کے خیال میں پاکستان کو معاشی و سیاسی محاذوں پر مستقل پریشان رکھنا چاہئے جبکہ اندرونی سلامتی کے محاذپر اُسے مسلسل نقصان پہنچاتے رہنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی میں دھکیلنے کا بھی اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پاکستان کی دہشت گردی کی کارروائیوں کو مسلسل بے نقاب کرتے رہنا چاہئے۔ اجیت ڈوول اس سارے عمل کو جارحانہ دفاعی موڈ سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ اتنی سادہ بات نہیں۔
بھارت نے گزشتہ کچھ عرصے میں ایسی کارروائیاں منظم کی ہیں جس کی بُنت کو ایسے رکھا گیا کہ یہ پاکستان ساختہ لگے۔ وہ ایسی کارروائیوں کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر اسے عالمی سطح پرپاکستان ساختہ باور کراتا ہے۔ بدقسمتی سے ان کارروائیوں کو پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں اجاگر کیا جاتا ہے، اور اسے عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان باربار اس پورے عمل کو فالس فلیگ حملے کے عنوان سے دنیا پر واضح کررہے ہیں۔ بھارت ان دنوں یہ کوشش ضرور کرے گا کہ اپنی سرزمین پرکسی بھی حملے کو پاکستان کی چھاپ کے ساتھ ممکن العمل ہونے دے۔ نوگیارہ کے بعد اس نوع کی دہشت گردی کے واقعات مختلف جگہوں پر ہوتے رہے ہیں۔ بھارت کو ایسے حملوں کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیونکہ وہ مسلسل پاکستان میں ایسی دہشت گردی کی سرپرستی کررہا ہے جو اعلانیہ بھارتی حمایت اور چھاپ کے باعث مسلسل بے نقاب ہوتی جارہی ہے۔ کلبھوشن کی گرفتاری نے اس کھیل کو مکمل عریاں کردیا تھا۔ ا س کے باوجود بھارت کی جانب سے مسلسل پاکستان کی سرزمین پر ایسے حملے کیے جارہے ہیں جو واضح طور پر بھارتی مقاصد سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس میں بھارت کی بدقسمتی یہ ہے کہ اُسے اپنی نیابتی جنگ کے لیے جو عناصر میسر آئے، وہ پاکستان میں مکمل بے نقاب ہیں، اُن کی بھارتی حمایت پوری طرح عیاں ہے۔ اُن کی پاکستان دشمنی بھی پوری طرح ننگی ہے۔ چنانچہ ایسے عناصر کی کارروائیاں کسی گمنام کھاتے میں رہ کر پاکستانیوں کو زیادہ پریشان نہیں کرتیں۔ دشمن واضح ہوتو یہ اُس پر آدھی فتح حاصل کرنے کے مترادف ہے۔
اس تناظر میں بی ایل اے اور دیگر علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں پر غور کیا جائے تو بھارت کا بہیمانہ کھیل پردے میں نہیں رہتا۔ بھارت لداخ میں چین سے مسلسل مار کھارہا ہے۔ کشمیر میں اُس کے اقدامات تاحال ناکامی کا منہ دیکھ رہے ہیں۔اور بھارت کے اندرونی حالات مسلسل اقلیتوں کی زندگی اجیرن کررہے ہیں۔ ان حالات میں وہ پاکستان کے اندر ایسے اہداف منتخب کررہا ہے جس میں چینی مفادات کو نقصان پہنچایا جاسکے۔ بی ایل اے کی پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملے سے پہلے کی دوکارروائیاں بالکل واضح ہے۔ بی ایل اے نے 23/ نومبر 2018ء کو کراچی میں ہی چینی قونصل خانے کو نشانا بنایا۔ بعدازاں گوادر میں ”کوہِ باطل“ پر واقع پرل کانٹیننٹل کو 12/مئی 2019ء میں ہدف بنایا۔ دونوں ہی اہداف میں چینی مفادات نشانا تھے۔ اب تازہ ترین کارروائی پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی سامنے آئی ہے۔ اس ہدف کو چننے کے مقاصد کو اچھی طرح ٹٹولنا چاہئے۔ لیکن یہاں بھی ایک دور کا پہلو بالکل واضح ہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں گزشتہ کچھ عرصے سے چینی کردار اُبھر کر سامنے آرہا ہے۔ اجیت ڈوول نے 2014ء کے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ”پاکستان کو یہ باور کرادینا چاہئے کہ وہ ممبئی طرز کا ایک بھی حملہ کرتا ہے تو بلوچستان اُس کے پاس نہیں رہے گا“۔ اگر اس مکروہ حکمت عملی کو اچھی طرح کھنگالا جائے تو اس میں کوئی ابہام نہیں کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کاررائیوں کے جواز کی تخلیق میں بھی مگن ہے۔ وہ خود اپنی سرزمین میں ایک جعلی حملے کو کبھی بھی رچا سکتا ہے۔ پاکستان میں ایسے سیاسی و معاشی حالات ہیں جو ان حملوں کے بعد یہاں جھوٹی کہانیوں کو پرورش دے سکتے ہیں۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملہ ناکام ہوا، مگربھارتی عزائم بالکل عیاں ہیں، یہ جاگنے کا وقت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر