... loading ...
دربار شاہی اپنے بھرپور جاہ و جلال کے ساتھ سجا ہوا تھا۔ کاروبار سلطنت کو چلانے کے لیے فرامین جاری ہورہے تھے۔ بادشاہ اپنی شان و شوکت کے ساتھ تخت پر جلوہ افروز تھا جبکہ دیگر وزراء و درباری بادشاہ کے دیگر اپنے اپنے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے زرق برق لباس میں ملبوس کرسی نشین تھے۔ رعایا میں سے اجازت یافتہ اپنے مسائل بادشاہ کے سامنے بیان کرکے ان کے حل کے فرمان حاصل کررہے تھے۔ اس دربار کو اس طرح سجایا گیا تھا کہ بیرونِ ملک سے آنے والے سفراء اور قاصدوں پر سلطنت کی دھاک اور ان کے دلوں میں بادشاہ کا رعب سرایت کرجائے۔ اسی اثناء میں ایک قیدی کو بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ وہ غیر ملکی ہے اور اس کی زبان کوتوال کو سمجھ نہیں آرہی۔ غیر ملکی کا سن کر بادشاہ کے تیور بدل گئے اور فوراً اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنا دیا ،نہ مقدمہ نہ الزام نہ گواہ نہ ثبوت بس سزا۔ لیکن بادشاہ تو بادشاہ ہے کسی کی اتنی مجال کہ بادشاہ کے سامنے زبان کھولے۔ ایسے ہی موقع کے لیے حضرت علی ؓ نے فرمایا ہے کہ بادشاہ کا مصاحب شیر کا سوار ہے، لوگ تو اس کی حالت پر رشک کرتے ہیں لیکن اپنی حالت سے وہ خود واقف ہوتا ہے یعنی جو افراد بادشاہ یا صاحب اقتدار کے درباری و دوست ہوتے ہیں تو لوگ ان کورشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن ان درباریوں اور دوستوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہماری کوئی بات بادشاہ کو ناگوار گزری تو بس پھر خیر نہیں اور پھر مقدر میں کم از کم سزا عمر قید یا سزا ئے موت ہے۔
بہرحال واپس اسی دربار میں چلتے ہیں، جہاں بادشاہ نے بغیر الزام،گواہ و ثبوت کے سزا ئے موت سنائی تھی۔ دربار سکوت میں تھا ، بادشاہ کی آواز کی گونج نے دربار میں موجود افراد کی رگوں میں خون کی روانی کو منجمد دیا تھا۔ اسی سناٹے میں سزا یافتہ قیدی کی آواز سنائی دی اور اس نے اپنی زبان میں بادشاہ کو مغلظات بکنا شروع کردیں۔ درباری جو پہلے ہی سکتے میں آچکے تھے، قیدی کی زبان درازی پر حواس باختہ ہوگئے کیونکہ قیدی کا بے باک لہجہ اور انداز بتا رہا تھا کہ وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر کسی طرح کی التجا کے بجائے بادشاہ کی شان میں گستاخی کررہا تھا۔ بادشاہ نے اپنے وزراء کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تو ان میں سے ایک زیرک وزیر نے کھڑے ہوکر عرض کی بادشاہ سلامت میں اس کی زبان جانتا ہوں یہ قیدی آپ کی تعریف کررہا ہے، آپ کا اقبال بلندہو، آپ کو دعائیں دے رہا ہے۔ یہ سن کر بادشاہ کا رویہ بدلا اور فوراً اس قیدی کی رہائی کے حکم کے ساتھ انعام و اکرام کا حکم صادر کیا۔ آپ یقینا سوچ رہے ہونگے کہ اس واقعہ کا فطری انصاف یا نصفت کے اصولوں سے کیا واسطہ ہے تو عرض یہ ہے فطری انصاف کے اصولوں نے اسی طرح کی عدالت کارد کیا۔ اس طرح کے رویوں کی حامل عدالتوں کو کبھی چوپٹ راج کا نام دیا گیا تو کبھی جنگل کا قانون کہا گیا ،جہاں طاقتور جو چاہے فیصلہ کردے۔ اس طرح کے فیصلے کسی ایسے شخص کے سامنے رکھیں جو اصول قانون سے واقف نہ ہو تو وہ بھی جواب دے گا کہ یہ غلط ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ہے جس نے اس شخص کو بتایا کہ ایسا فیصلہ انصاف نہیں، یقینا اس کا جواب وہی انسان کی جبلت میں بیٹھا ضمیر نامی جج ہے جسے فطرت نے مقرر کیا ہے جب قانون باقاعدہ طور پر مرتب نہیں ہوا تھا، اس وقت بھی فریقین کے درمیان فیصلے کیے جاتے تھے، اس وقت فیصلہ کرنے والوں کے پاس نہ تو کوئی تحریری قانون ہوا کرتا تھا اور نہ ہی فیصلہ کرنے کا کوئی ضابطہ لیکن فیصلے ایسے منطقی اور عقلی دلیل کے ساتھ ہوتے کہ آج تک قانون اور قانون کی تعبیر و تشریح کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔
انگلستان میں اینگلو سیکسن حکمرانوں کے عہد میں نصفت کی اصطلاح و ضع کی گئی اور فطری انصاف کے اصولوں پر باقاعدہ عدالتی نظام رائج کیا گیا۔ اس نظام میں فیصلے کرنے والے منصف کے لیے قانون سے واقفیت ضروری نہیں تھی بس گزشتہ فیصلوں (نظائر) کی روشنی میں یا تھوڑا بہت رومن لاء کی مدد سے فیصلے کیے جاتے تھے، اینگلو سیکسن کے بعد نارمن عہد کا آغاز ہوا اور رواجی اصولوں پر مبنی کامن لاء وجود میں آیا۔ تیرہویں صدی عیسوی کے اختتام پر کامن لاء کا باقاعدہ نفاذ ہوا اور اس قانون یا رواجی اصولوں پر فیصلوں کے لیے تین الگ الگ حیثیت کی حامل عدالتوں کا قیام عمل میں آیا۔ یہ عدالتیں (1) عدالت برائے امور مملکت The Court of Exchequer (2 ) عام معاملات کی عدالت The Court of Common Pleas اور (3 ) شاہی بینچ کی عدالت The King’s Bench کہلائیں۔ بادشاہ نے دیگر مصروفیات کی وجہ سے انصاف کا فریضہ ایک نئے عہدے کے سپرد کیا جو کہ چانسلر Chansller کہلایا چونکہ بادشاہ مجسم قانون و انصاف اور اقتدار کا سرچشمہ تھا اس لیے وہ ہر طرح کے فیصلے کرسکتا تھا لیکن چانسلر کے لیے رہنما اصول Guide Line کے طور پر نصفت کے اصولوں کو ترتیب دیا گیا جو نصفت کے اصول Maxims of Equity کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یوں تو فطری انصاف کے بے شمار اصول ہیں لیکن ان میں سے بارہ (12 ) اصول زیادہ مقبول ہیں اور عموماً یہی بارہ اصول ہی روزمرہ کی زندگی میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مثلاً (1 ) نصفت ہر نقصان کا چارہ کار فراہم کرتی ہے یعنی دنیا کا کوئی نقصان ایسا نہیں ہے جس کا مداوا فطری انصاف کے اصول نہ کرتے ہوں۔ جہاں عام قانون انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہو نصفت حق دار کو اس کا حق دلواتی ہے (2) جو نصفت کا طالب ہو اسے خود بھی نصفت فراہم کرنا چاہئے یعنی جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے فطرت کے تحت حاصل ہونے والے حقوق فراہم کیے جائیں تو اسے چاہئے کہ فطرت کے تحت اپنے فرائض بھی ادا کرے کیونکہ جو ایک شخص کا حق ہے وہ یقنی طور پر دوسرے کا فرض ہے اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اسے صرف اس کے حقوق ہی ملتے رہیں لیکن وہ اپنے فرائض ادا نہ کرے تو فطری انصاف ایسے افراد کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ یہ امر ایک واضح حقیقت ہے کہ اللہ ذوالجلال نے انسان کو تخلیق کیا تو حقوق کو دو مستقل حصوں میں تقسیم کردیا کچھ حقوق اپنی ذات سے منسلک کرکے ان کو حقوق اللہ کا نام دیا اور کچھ کو اپنے بندوں کے ساتھ جوڑ کر حقوق العباد قرار دیا۔ فطرت کے ان حقوق کی ادائیگی ہر شخص پر لازم قرار دی اور ان کی حفاظت اپنے ان الفاظ میں کی کہ وہ اپنے حقوق تو معاف کردے گا لیکن اپنے بندوں کے حقوق معاف نہیں کرے گا۔ اس اعلان نے انسان کو اتنا بے باک بنا دیا کہ وہ ہر جگہ میرا حق میرا حق کا نعرہ بلند کرنے لگا اور یہ بھول گیا کہ اس نے فرض بھی ادا کرنا ہے۔ عمل کے بغیر آخرت کی امید رکھتا ہے اور لوگوں کو جس کام سے منع کرتا ہے اس سے خود باز نہیں آتا۔ نیک کرداروں سے محبت کرتا ان کی مثالیں بیان کرتا ہے لیکن ان کے اسوہ پر عمل نہیں کرتا۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت اور المیہ ہے کہ دوسروں کے بارے میں اپنے سے چھوٹے گناہ سے بھی خوف زدہ رہتے ہیں اور اپنے لیے عمل سے زیادہ جزا کے امیدوار رہتے ہیں۔ فطرت کے اصول ان امور کی سختی سے نفی کرتے ہیں۔فطرت فرائض ادا کرنے والے کو ہی حق کا مستحق قرار دیتی ہے (3) فطرت کا اگلا اصول اور بھی دلچسپ ہے جو یہ کہتا ہے کہ جو نصفت کے تحت دعویٰ کرے اس کا اپنا دامن پاک ہونا چاہئے، یعنی جو شخص یہ چاہتا ہے کہ فطرت کے اصولوں کے تحت اسے انصاف فراہم کیا جائے تو اسے چاہئے کہ اس کا دامن داغدار نہ ہو اگر سادہ الفاظ میں اس مقولہ کو سمجھیں تو کراچی میں کے۔ الیکٹرک کی مثال لے لیں جو سرچارج، فیول ایڈجسٹمنٹ، الیکٹرک ڈیوٹی، انکم ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، جی ایس ٹی، مزید جی ایس ٹی۔ نیز بجلی کی دُگنی قیمت وصول کرنے کے بعد فرنس آئل کی کمی کے بہانے، بجلی چوری کے بہانے، تکنیکی خرابی و دیگر مختلف بہانوں کے سہارے سولہ سولہ گھنٹے بجلی کی سپلائی معطل کرنے کے بعد بھی اچھی اور خدمت گزار کمپنی کی دعوے دار ہے۔ نصفت کے اس اصول کے تحت کوئی بددیانت شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کے ساتھ دیانت داری کی جائے۔ (4 ) نصفت مساوات ہے۔ فطرت کی نظر میں سب برابر ہیں۔ فطرت بلا تفریق حقوق کا تحفظ کرتی ہے فطرت میں رنگ و نسل اور زبان کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ (5) نصفت قانون کی پیروی کرتی ہے۔ فطری انصاف کے اصول عام قانون کی مدد کرتے ہیں اور قانون کے پیچھے چلتے ہیں۔ (6 ) نصفت فرائض کی تکمیل کے لیے منشاء کو دیکھتی ہے اس مقولے کی سادہ مثال یہ ہے کہ ایک مسافر جو کہ اپنے گھوڑے پر سوار کہیں جارہا تھا ،راستہ میں آرام کی غرض سے رکا تو اپنے قریب اپنے گھوڑے کو باندھنے کے لیے کھونٹا لگا دیا جب جانے لگا تو وہ کھونٹا اس نیت سے چھوڑ دیا کہ کسی اور کے کام آئے گا لیکن پیچھے آنے والے کو اس کھونٹے سے ٹھوکر لگی تو اسے اس نیت سے نکال کر پھینک دیا کہ کسی اور کو ٹھوکر نہ لگے فطری انصاف کے تحت دونوں نے درست امور سرانجام دیے۔ (7) نصفت وہ کراتی ہے جو ہونا چاہئے۔ (8) نصفت شخصی عمل ہے۔ (9 ) نصفت ظاہر سے زیادہ باطن کو دیکھتی ہے۔ (10) تاخیر نصفت کو ختم کردیتی ہے۔ (11) جہاں نصفتیں مساوی ہوں وہاں قانون غالب آئے گا۔
یہ وہ اصول ہیں جو کسی تشریح کے محتاج نہیں اب آتے ہیں اس اصول کی جانب جو درحقیقت موضوعِ بحث ہے یعنی قانون قطار یہ بھی فطرت کا اہم اصول ہے کہ جہاں نصفتیں مساوی ہوں تو جو پہلے آئے اس کا حق غالب ہوگا۔ حق تعالیٰ کی بظاہر ایک ادنیٰ مخلوق چیونٹی بھی فطرت کے اس اصول کے تابع ہے اور ہمیشہ قطار میں ہی چلتی ہے اور انسانی فطرت کو سبق کے ساتھ دعوت فکر دیتی ہے۔ جب چیونٹی میں قطار کاشعور ہے تو انسان کیوں نہ اس طریقۂ کار سے اپنی جارحانہ طبیعت پر قابو حاصل کرے۔ ’’پہلے آئیں پہلے پائیں‘‘ ایک معزز اور منظم فطرت ہے۔ اگر یہ قطار کا اصول نہ ہوتا تو محسن نقوی کے بمصداق
’’سوچو کتنے فساد ہوتے‘‘