... loading ...
وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپنی کابینہ کو ’’کارکردگی‘‘ بہتر بنانے کے لیے چھ ماہ کا’’ الٹی میٹم ‘‘دیا ہے ۔یہاں یہ واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنے وزراء کو اس طرح کے الٹی میٹم پہلے بھی دیے جاتے رہے ہیں جس کی بنیاد پر محض وزراء کے قلمدان تبدیل ہوتے آئے ہیں جبکہ وزراء ، مشیران اور معاون خصوصی کسی نہ کسی صورت میں کابینہ کے ساتھ جڑے رہے ہیں۔بہر کیف اس بار الٹی میٹم کے حوالے سے معاملہ کچھ زیادہ سنگین معلوم ہوتا ہے کیونکہ میڈیا نے یہاں تک رپورٹ کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے اگر وزراء نے اگلے چھ مہینوں میں اپنی کارکردگی کو بہتر نہیں بنایا تو ’’معاملات‘‘ان کی گرفت سے باہر ہوجائینگے جس سے حکومت کمزور اور اپوزیشن مضبوط ہو جائے گی ۔ دوسری جانب کابینہ کے حالیہ اجلاس کی اندر کی کہانی ہے جس نے تبدیلی سرکار کی سیاسی سنجیدگی اور قومی خدمت کے جذبے کی نہ صرف قلعی کھول کر رکھ دی ہے بلکہ وزیر اعظم عمران خان اور اس کی پارٹی کے سیاسی مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔ عام انتخابات 2018کے نتیجے میں قائم ہونے والی پی ٹی آئی کی حکومت اب تک عوام کو کسی بھی شعبے میں ریلیف نہیں دے سکی ہے اور جہاں تک اداروں میں کرپشن کے خاتمے کی بات ہے تو تبدیلی سرکار اب تک کوالٹی اور پرائس کنٹرول جیسے شعبوں پر بھی اپنی گرفت قائم نہیں کرسکی ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تبدیلی سرکار اس وقت کہاں کھڑی ہے۔ لہذا سرکاری اداروں میں کرپشن کے خاتمے یا کمی کی باتیںمحض ہوائی ثابت ہوئی ہیں۔دوسری جانب حکومتی نااہلی اور ناقص کارکردگی پر اپوزیشن کی مجرمانہ چرب زبانی ہے جو حکومت کے خلاف عملی مزاحمت کرنے یا اس سلسلے میں اسکی صحیح سمت میں رہنمائی کرنے کی بجائے تماشہ دیکھ رہی ہے۔
جہاں تک تبدیلی سرکار کی غیر تسلی بخش کاکردگی بلکہ ناقص گورننس کا معاملہ ہے تو یہ پہلے دن سے ہی واضح ہوچلا تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت بغیر کسی ہوم ورک کے محض جنون کی آمیزش کے ساتھ حکومت میں آگئی ہے یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کی تشکیل اور قلمدان کی تقسیم کے معاملے میں میرٹ اور مہارت دونوں کو ہی نظر انداز کیا گیا جیسا کہ وزیر خارجہ کے لیے پارٹی میںا سٹریٹیجک اسٹڈیزاور خارجہ امور میں غیر معمولی مہارت کی حامل شخصیت ڈاکٹر شیریں مزاری کے ہوتے ہوئے ایک ایسے شخص(مخدوم شاہ محمود قریشی) کو وزیر خارجہ بنایا گیا جس کی پوری زندگی کا تجربہ محض خانقاء چلانا رہاہے یہی وجہ ہے کہ آج ملکی خارجہ پالیسی بھارتی خارجہ پالیسی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے اورمسئلہ کشمیر سے لیکر سلامتی کو نسل کی مستقل رکنیت کے تک کے معاملے میں ہمیں پسپائی ہوئی ہے۔اسی طرح اسد عمر کو نہ صرف وزیر خزانہ لگایا گیا بلکہ انتخابات سے پہلے اسے معاشی فلسفی کے طور پر بھی پیش کیا گیا لیکن وہ بھی اس شعبے میں ناکامی سے دوچار ہوئے اور اس کی جگہ بھاڑے پر مشیر خزانہ (ڈاکٹر حفیظ شیخ) لے آئے اگر عالمی اداروں کے تنخواہ داروں سے ہی خزانہ امور چلانا مقصود تھا توپھر کابینہ میں شامل وفاقی وزیر محمد میاں سومرو بہتر ین آپشن ہو سکتے تھے ۔قلمدان کی تقسیم کے معاملے میں عجلت کا یہی مظاہرہ وزارت اطلاعات و نشریات ، ریلوے ،موسمیاتی تبدیلی ،سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ،مواصلات ، تعلیم ،صحت عامہ ،قومی تحفظ خوراک اورصنعت و پیداوار جیسی اہم وزارتوں اور قلمدانوں میں بھی کیا گیا جبکہ ایف بی آر کو ٹھیکے پر دینے کا تجربہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا ۔
بہر کیف وزیر اعظم عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ اور اداروں سے کرپشن کے خاتمے کے دعوے ڈھکوسلے ثابت ہوئے ہیں اور اب یہ ڈھکوسلے ’’ہچکولے ‘‘ لے رہے ہیں کیونکہ ملکی معیشت تیزی سے ابتری کی طرف بڑھ رہی ہے اور رہی سہی کسر کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے مسائل نے پوری کردی ہے ۔اب ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنے وزراء کو کارکردگی بہتر بنانے کے لیے چھ ماہ کا الٹی میٹم دیا جانا اس امر کا اعتراف ہے کہ تبدیلی سرکار کو ناقص کارکردگی کا عارضہ لاحق ہے اور اس کے علاج کے لیے جوں جوں دوا کی جارہی ہے یہ عارضہ مذید بگڑتا جارہا ہے اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ حکومت مصنوئی سانس لے رہی ہے۔ یعنی تبدیلی سرکار وینٹی لیٹر پر ڈالی آچکی ہے لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملک و قوم کی تقدیرسنوارنے کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کو آخری آپشن کے طور پر پیش کرنے والی طاقتور اشرافیہ اس وقت کیا سوچ رہی ہے اور وہ ’’متبادل ‘‘کے طور پر کہاں نظریں جماکر بیٹھی ہیں ۔بہر کیف ایک بار پھرملکی سیاست کو بند گلی کی طرف دھکیلا جارہا ہے بلکہ دھکیل دیا گیا ہے ایسے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو ایک بار پھر ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کو ’’میثاق جمہوریت‘‘جیسے فارمولے کی طرف لانا چاہئے جس میں سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے قوم پرستوں کو خصوصی طور پر شامل کیا جائے جبکہ ملکی سیاست کو ’’جہانگیر ترین‘‘ جیسے سیاسی ایجنٹوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسے کرداروں کو اپنی صفوں میں بٹھانے کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے ۔ بہر کیف وزیر اعظم عمران خان کے چھ ماہ کے الٹی میٹم نے ملکی سیاست میں جہاں ہلچل مچادی ہے وہاں یہ خدشات اور امکانات بھی پھوٹ پڑے ہیں کہ تبدیلی سرکار کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے لیکن ایسے میں کسی صورت جمہوریت کے مستقبل کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے لہذا جمہوریت کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قوتیںکھلی فضاء میںسانس لیں نہ کہ خود کو گھٹن زدہ ماحول کا اسیر بنا لیں۔بہر کیف ملکی معیشت کی صورتحال حوصلہ افزا نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں اس وقت جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لہذا طاقت ور اشرافیہ طاقت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے فی الوقت کسی اور کاندھے پر بوجھ ڈالنے پر مجبور ہوگی۔ا اب دیکھنا یہ ہے کہ نیا سیاسی کاندھا کس کا ہوگا لہذا اس وقت تک پی ٹی آئی کی حکومت کو سیاسی وینٹی لیٹر پر سانسیں دی جاتی رہیں گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔