... loading ...
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلائو اور اس کے روک تھام کے لیے اختیار کی گئی احتیاطی تدابیر کے نتیجے میں غیر معمولی سماجی مسائل جنم لینا شروع ہوگئے ہیں جن میں معاشی اور نفسیاتی مسائل سر فہرست ہیں ۔جہاں تک معاشی مسئلے کا معاملہ ہے تو اسے فوری حل کیا جانا ممکن ہے لیکن جہاں تک نفسیاتی مسئلے کا تعلق ہے تو اس کا فوری حل ممکن نہیں تاہم اس کے حل کے لیے فوری اقدامات کا اٹھائے جانا ضروری ہے بصورت دیگر معاشرہ تیزی سے سماجی بگاڑ کی طرف بڑھ سکتا ہے ۔دنیا بھر میں نفسیاتی امراض اور اسکے علاج کی صورتحال کو فی الوقت کسی صورت مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا جبکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں تو نفسیاتی مسائل یا ذہنی امراض کو صحت عامہ کا مسئلہ ہی تصور نہیں کیا جاتا ۔ اس تصور کی ایک بڑی وجہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں نفسیاتی امراض کو صحت عامہ کے عام فہرست میں نہیں رکھا جاتا یہی وجہ ہے کہ ہمارے سماج میں ذہنی امراض کے علاج میں ہچکچاہٹ محسوس کی جاتی ہے یا پھر اسے خفت کا باعث سمجھا جاتا ہے یعنی نفسیاتی امراض کے معاملے میں ہمارا ’’قومی رویہ ‘‘غیر سنجیدہ ہے ۔بہر کیف بات ہورہی تھی کورونا وائرس اور اس سے تحفظ کے لیے اختیار کی جانے والی احتیاطی تدابیر کی تو ایسے میں مجھے ایک ایسے نفسیاتی مرض کے بارے میں علم ہوا جس میں’’ سماجی فاصلہ اور تنہائی اختیار کرنا ‘‘ متعلقہ مرض میں مبتلا فرد کا ایک فطری عمل ہے جبکہ کورونا وائرس سے تحفظ کے لیے یہ عمل احتیاطی تدابیر کے طور پر اختیار کیا جارہا ہے ۔نفسیاتی علوم میں اس ذہنی مرض کو آٹزم ( AUTISM)کہا جاتا ہے جسے ہم اردو زبان میں خود فکری کہہ سکتے ہیں جبکہ عربی میں اسے ’’توحد‘‘اور فارسی میں اسے ’’اوتیسم‘‘یعنی درخودماندگی کہتے ہیں ۔بہر کیف یہ ایک یونانی لفظ ہے Autoسے ماخوذ ہے۔جیسا کہ بیماری کے نام آٹزم کی معنوی تشریح یہی بیان کرتی ہے کہ یہ ایک ایسانفسیاتی فلسفہ جس کے پیروکار خود فکری ، خیال پرستی ،تنہائی اوراپنے ہی تصورات میں ڈوبے رہنا پسند کرتے ہیں لہذا میرے نزدیک اسے بیماری جیسے لفظ سے تعبیر کیا جانا مناسب ہی نہیں بلکہ معیوب بھی ہے ۔
جہاں تک اس کے نفسیاتی مرض ہونے کا تعلق ہے تو یہ مرض بچوں میں پایا جاتا ہے جبکہ اسے ایک پیدائشی یا موروثی بیماری کے طور پر بھی لیا جاتا ہے جس کی علامات میں سماجی رابطے قائم کرنے میں مشکلات ،زبان او رالفاظ کو یاد نہ رکھ پانا ،سماج میں عام افراد کی طرح گھلنے ملنے سے گریز کرنا ،تنہائی میں رہنے کو ترجیع دینا اور کچھ مخصوص حرکات کو بار بار دہرانا وغیرہ شامل ہیں ۔لیکن یہاں یہ واضح رہے کہ آٹزم کی تشخیص کے لیے کوئی مخصوص ٹیسٹ موجود نہیں ہے لہذا اس مرض کو اس کی ظاہری علامات سے پرکھا جاتا ہے ۔ماہرین نفسیات کے نزدیک اس مرض کی 12علامات ہیں جس میں سے اگر 6علامات بھی کسی میں پائی جاتی ہے تو اسے آٹزم کا شکار کہا جائے گا ۔آٹزم پر ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق آٹزم کے شکار بچے میں پہلی علامت اس کی پیدائش کے پہلے 12مہینوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہے جب وہ بولنے کی کوشش میں غوں، غاں ،با، پا اور ٹا جیسی آوازیں نکالتا ہے لیکن آٹزم میں مبتلا بچے ایسی آوازیں نکالنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔بہر کیف دنیا بھر میں 6کروڑ20لاکھ افرادآٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر کا شکار ہیں یہ بیماری ڈیرھ سے تین سال کی عمر میں ظاہر ہونا شروع ہوتی ہے جس میں بار بار مٹھی کھولنا اور بند کرنے جیسا انقلابی عمل بھی آٹزم کی واضح نشانی ہے جبکہ اس نفسیاتی مرض میں مبتلا بچے اپنے سر کو ایک ہی چیز سے بار بار ٹکراتے ہیں ، پنجوں کے بل چلتے ہیں ،مستقل روتے ہیں اور نظریں ملانے اور گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔بہر کیف دنیا بھر کے صحت مند، سمجھ دار اور پختہ ذہن اس نفسیاتی مرض کا علاج دریافت نہیں کرسکے ہیں جبکہ دنیا ہر سال اپریل کے دوسرے روز کو آٹزم کے عالمی دن کے طور پر مناکر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتی ہے حالانکہ گزشتہ 20برسوں کے دوران اس مرض میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔جہاں تک اس کے علاج کے دریافت نہ ہونے کا معاملہ ہے تو اس پر کسی اور موقع پر بحث کی جائے گی لیکن اس مرض کے شکار بچوں کے لیے فی الوقت جو علاج رائج ہے اس میں ’’اسپیچ تھراپی ‘‘ کو خاصی اہمیت حاصل ہے جبکہ ایسے بچوں کو ماہر نفسیات ،اساتذہ اور والدین کی خصوصی توجہ سے عام سماجی زندگی فراہم کی جاسکتی ہے لیکن جہاں تک اسپیچ تھراپی کا معاملہ ہے تو اس ضمن میں میری ایک خاتون دوست جو کہ ماہر نفسیات بھی ہیں کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں ایسے لوگ بھی آگئے ہیں جو اسپیچ تھراپی کی مشق کرانے میں قطعی مہارت نہیں رکھتے بلکہ ایسے غیر تجربہ کار لوگ ہی اسپیچ تھراپی کے نام پر مجبور والدین کی جیبوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں جس کی روک تھام کے لیے حکومتی اداروں کو اپنی زمہ داریاں پوری کرنے کی ضرورت ہے ۔
بات کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل کے حوالے ہورہی تھی کہ اس کے تدارک کے لیے حکومت کو بر وقت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر ہم سماجی بگاڑ کی طرف بڑھ سکتے ہیں جس کا نتیجہ’’ انارکی ‘‘ کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے ۔جہاں تک پاکستان میں نفسیاتی صحت کی سہولیات کا معاملہ ہے تو اسے کسی صورت تسلی بخش قرار نہیں دیا جاسکتا اس ضمن میں برطانوی جریدے ’’لین سیٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کو لیا جاسکتا ہے جس کے مطابق پاکستان کی 20کروڑ کی آبادی میں 2کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہیں جن میں ایسے بچوں اور نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہیں جن کی عمریں 13برس سے 30برس کے درمیان ہیں ۔تو ایسے میں یہ اندازہ لگانا کتنا آسان ہے کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی مسائل بالخصوص معاشی مسائل کس قدر نفسیاتی مسائل پیدا کرسکتے ہیں ۔یہاں یہ بھی واضح رہے کہ عالمی معیار کے مطابق ہر 10ہزار کی آبادی کے لیے ایک نفسیاتی ماہر کا ہونا ضرور ہے جبکہ پاکستان میں یہی تناسب ہر 5لاکھ کی آبادی پر ایک ماہر نفسیات کا ہے ۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کورونا وائرس اور اس کے پھیلائو کی روک تھام کے لیے لگائے گئے لاک ڈائون کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ممکنہ نفسیاتی مسائل کی جانب غیر معمولی توجہ دے جبکہ نفسیاتی مسائل کو صحت عامہ کی عام فہرست میں شامل کیا جانا بھی ضروری ہے جس کے لیے بڑے بڑے شہروں کے ساتھ گائوں اور دیہاتوں میں بھی یعنی ضلعی ،تحصیلوں اور یونین کونسلوں کی سطح پر ایک ایک ماہر نفسیات کی تعیناتی عمل میں لائی جائے اور نفسیاتی علوم کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی انقلابی اقدامات اٹھائے جائیں ۔بصورت دیگر ہم ایک ایسے سماج کی بنیاد رکھ رہے ہیں جومستقبل میں اپنے اندر آٹزم سماج کی شکل اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جسے دوسرے لفظوں میں ہم تخیلاتی سماج کہہ سکتے ہیں کیونکہ آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو نہ صرف زندگی بھر نشونما پاتی ہے بلکہ دنیا کو دیکھنے کے رنگ ڈھنگ میں تبد یلی پیدا کرتی ہے جو بالاخر افراد کے درمیان باہمی روابط کو متاثر کرتی ہے ۔ جہاں تک سیاسی فلسفے کا تعلق ہے تو اس میں ایسی شکل یا اس سے ملتی جلتی صورت کے حامل سماج کو’’ نراجی یا فوضوی‘‘سماج کہا جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔