... loading ...
ہر تجربہ ایک قیمت چاہتا ہے، اور یہ قیمت ہر اس شخص کو ادا کرنی ہوتی ہے، جو کچھ پانا چاہتا ہے،پانے کی جستجو اور کھو جانے کا افسوس ، احساس زیاں کازخم مندمل ہوجاتا ہے۔ پھر وہ ایک یاد ہی رہ جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن اس وقت قرنطینہ میں ہے، اور اکھڑی اکھڑی سانس لے رہی ہے۔ ہم اپنے حکمرانوں اور استحصالی طبقے کے چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں، جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے درپے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عوام کو کورونا کے خوں آشام عفریت کے سامنے یوں نہ چھوڑ دیا جاتا۔ پاکستان کے ادیبوں، صحافیوں، دانشوروں اور میڈیا نے وہ ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کیا جو اس کڑے اور آزمائش کے لمحات میں انھیں ادا کرنا چاہیئے تھا، ہر ایک نے اپنی راہ اور اپنا چلن جدا گانہ ہی رکھا، اوپر سے علما اور دین دار طبقہ جسے اس وقت عوام کو صحیح راہ دکھانا تھا وہ بھی بدقسمتی سے اپنی راہ کھو بیٹھا ہے۔
لوگ اس وقت ایک گہری صدماتی کیفیت میں ہیں۔ پے در پے ایسی اطلاعات جن میں زندگی روٹھ رہی ہو۔ عوام کو شدید بے چین کر رہی ہیں، بالخصوص جب امید کی کوئی کرن بھی نظر نہ آرہی ہو۔ ایسی روشنی کی کرن اور امید افزاء اور مثبت باتیں ہیں، انھیں یا تو اس طرح ہائی لائٹ اور اجاگر نہیں کیا جارہا یا دانستہ انھیں چھپایا جا رہا ہے،ملک میں سیاسی عنصر اپنا ایجنڈا لے کر چل رہا ہے، انھیں حکومت ، حزب اختلاف، اپنے لیڈر، اپنا موقف، اپنی رائے ، ایک دوسرے پر الزامات سے فرصت نہیں ہے، وہ لوگوں کی قسمتوں پر سیاہی پھیر رہے ہیں۔ ایسے تبصرے ، رائے، تجزیئے پیش کیے جارہے ہیں ، جو عوام میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ احتیاط اور احتیاط سماجی دوری فاصلہ رکھنے اور تنہائی اختیار کرنے کے پیغامات کی برسات ہے۔ لیکن کیا ملک کی نوے فیصد سے زائد آبادی کو وہ مادی وسائل ، ضروریات، تحفظ اور صحت اور دوا کی سہولیات دستیاب ہیں، جن کے ذریعے یہ احتیاط اور سماجی دوری اختیار کی جاسکے۔
سب سے زیادہ ناگفتہ پا صورت حال اسپتالوں کی ہے، لوگ معمولی بیماریوں کے علاج کے لیے ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ لیکن اسپتالوں کلینک اور دوا خانے بند پڑے ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں رات کو اگر کسی پرائیوٹ اسپتال کے ایمرجینسی میں بھی جانا پڑے تو وہاں بارہ بجے کے بعد تالے لگا دیئے جاتے ہیں۔ میڈیکل اسٹور شر شام ہی سے بند ہوجاتے ہیں، اگر کسی کو ہنگامی صورت حال میں دوا کی ضرورت ہو تو اسے دوا بھی نہیں مل سکتی، کھانے پینے کی اشیاء والی دکانوں کو رات گئے تک اجازت ہے تو میڈیکل اسٹور کو بند کرنے کا کیا جواز ہے۔ او پی ڈی جہاں جہاں ممکن ہے، وہاں انھیں معمول کے مطابق کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے، جو اسپتال ایسا نہیں کر رہے ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیئے۔ عام مریضوں کو اچھوت نہ بنائیں، ہر بخار اور کھانسی یا اور کسی مرض والے کو کورونا سے نہ ڈرائیں، اس کی تسلی، حوصلہ افزائی، دوا دارو کا بندوبست کریں۔
سندھ میں اس وقت موسم بہت شدید ہے، لوگ گرمی سے بے حال ہیں، بجلی کی صورت حال بہت اچھی نہیں ہے، لوڈ شیڈینگ، منٹینینس کے نام پر گھنٹوں بجلی غائب ہوجاتی ہے، کیا حکومت، میڈیا، حکام نے اس پر کوئی توجہ دی، اس پر کوئی ہنگامی لائحہ عمل مرتب کیا۔ پانی کی فراہمی بہت سے علاقوں میں پوری طرح نہیں ہے، بہت سی جگہ پر سرے سے پانی نہیں ہے، اس پر کوئی لائحہ عمل ، اس پر قابو پانے کی کوئی تدبیر، میڈیا ایک قوال پارٹی کی طرح مصرعہ اٹھاتا ہے اور پھر سب اس لے کو اونچا کرتے رہتے ہیں، کبھی وینٹی لیٹرز اور کبھی بیڈ کی کمی کا رونا، سوال یہ ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کی نوبت نہ آنے کے لیے ہم نے کیا کیا ہے۔اربوں روپے کے فنڈز کہاں گئے، کیا سہولیات دی گئی، کیا انتظامات کیے گئے۔
ملک کے ادیب ، دانشور، لکھاری، صحافی، عالم ، مساجد کے امام، اخبارات کے کالم نگار، ٹی وی پر تبصرہ کرنے والے، اوپینین لیڈر، سوشل میڈیا کے بلاگر، ایکٹیویسٹ، اسٹیٹس اور پوسٹ ڈالنے والے سب سے بڑے مجرم ہیں۔ جو مایوسی کو بہت تیزی سے پھیلا رہے ہیں، لوگوں کی صحت خراب کر رہے ہیں، ذہن پراگندہ کررہے ہیں، ایک موت کی اطلاع جب سینکڑوں پوسٹ اور تصاویر کے ساتھ سوشل میڈیا پر آتی ہے توآٓپ کیا محسوس کرتے ہیں۔ موت اور زندگی اللہ کی جانب سے ہے۔ اس بات پر مسلمان کا ایمان ہے۔ تو پھر اتنا اظہار افسوس، اتنے رنج و غم، اس قدر شور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ سے رحم اور عاجزی کی درخواست کریں، مرنے والے کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ ایسے صدموں سے ہر ایک گزر رہا ہے۔ ایک دوسرے کی دلگیری کریں، اللہ کی رحمت کا اشارہ دیں۔ گذشتہ ایک ماہ سے میں نے اس بارے میں کوئی پوسٹ نہیں ڈالی۔ لیکن اگر یہ تمام لوگ جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، اپنی گفتگو، اپنی تحریر، اپنے تجزیئے، اپنے تبصرے، میں امید کی کرن دکھائیں، مثبت خبروں کو اجاگر کریں، زندگی کا خوب صورت پہلو دکھائیں، سیاہی اور اندھیرے کا نقشہ دکھانا بند کردیں تو حالات میں بڑی حد تک بہتری آسکتی ہے۔جو ہونا ہے وہ تو اب بھی ہورہا ہے، لیکن خوف اور ڈر کے ساتھ، لیکن اگر امید دلائی جائے، راستے سجھائے جائیں، کامیابی کی کہانیاں سنائی جائیں، جو کورونا کے تجربے سے گذرے ہیں، اور الحمد للہ صحت یاب ہوئے ہیں، ان کی اسٹوری شیئر کی جائیں، جن لوگوں نے ہمت اور جرات اور بہادری سے اس وبا کا سامنا کیا ہے، جنہوں نے لوگوں کو اپنا پلازما دے کر زندگی اور صحت کا عظیم تحفہ دیا ہے، ان کی کہانی، ان کے تجربات، ان کی مثالیں سوشل میڈیا، ٹی وی اخبارات پر اجاگر ہوں تو حالات پر بہت فرق پڑے گا۔ اخبارات میں ہر روز مرنے والوں کی تعداد کو نمایاں سرخیوں میں بیان کیا جاتا ہے، کیوں نے سرخیوں میں ہر روز صحت یاب ہونے والوں کے اعداد پہلے اور متاثرین اور جان بحق ہونے والوں کے اعداد غیر نمایاں شائع کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اگر میڈیا اور اخبارات نے یہ رویہ نہ بدلا تو وہ دن دور نہیں جب لوگ اخبار کو ہاتھ بھی نہ لگائیں گے، اور ٹی وی سے دور ہوجائیں گے، اور سوشل میڈیا کا بائیکاٹ کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔