... loading ...
آج صبح سویرے پرندوں کی چہچاہٹ سے آنکھ کھلی، نماز فجر کی ادائیگی کے بعد سانس لیتی ہوئی صبح میں خود کو تازہ دم کرنے کیلئے چھت پر گیا تو دیکھا کہ پرندے اپنے حق کی تلاش میں اپنے گھونسلوں سے پرواز کرچکے ہیں ، گملوں میںلگے پودوں کے پتے زمین کی جانب جھک کر پانی کی صورت میں اپنے حق کا تقاضا کررہے تھے، پودوں کو پانی دے کر دفتر جانے کی تیاری میں مصروف ہوگیا، کپڑے تبدیل کرنے پر جیب کا وزن کم محسوس ہونے پر بیگم کی طرف سوالیہ نظروں سے تو دیکھا جو جواباً بیگم نے کر خت لہجہ میں کہااب میرا اتنا بھی حق نہیں؟ مجبوراًخاموشی اختیار کرنے میں عافیت جانی۔ گھر سے باہر نکلنے لگا تو بچوں نے گھیر لیا جو اسکولوں کی بندش کے باعث گھر میں قید ہیں اور یوں بچوں کا گھر سے باہر جانے اور ٹافی وچاکلیٹ کا مطالبہ شروع ہوگیا،بچوں کو بہلا کر فرار کی کوشش کررہاتھا کہ والد نے ڈانت کر کہاان کا اتنا تو حق ہے کہ ٹافی وچاکلیٹ لے کر دیتے جاؤ، اس کام سے فراغت کے بعد ایک سپر اسٹور سے گھر کیلئے ضرورت کی اشیاء خریدیں کیونکہ واپس آنے تک سب بند ہوچکا ہوتا ہے، سامان لے کر کھڑا تھاکہ ایک شخص میرے قریب آیا ااور سامان گاڑی تک لے جانے کی پیش کش کی میرے اقرار پر اس نے سامان گاڑی میں رکھوایا اور اس کے عوض اپنے حق کا مطالبہ کیا، وہاں سے ایک آفیسر سے ،ملاقات کیلئے روانہ ہواتو ان صاحب کے چپڑاسی نے فوراًملاقات کروادی میرے کام کا سن کر صاحب نے میر ی فائل نکلوائی اور لغور معائنہ کرنے کے بعد اپنے انگوٹھے کو شہادت کی انگلی پر رگڑتے ہوئے کہا کہ آپ کا کام فوراًکرنے پر ہمارا بھی کچھ حق ہے ، ہمارا حق ہمیں دے دیں آپ کا حق آپ کو مل جائے گا، باہر آنے پر چیڑاسی نے کہا جناب کچھ چائے پانی میرا بھی حق بنتا ہے، اس مسلسل مطالبۂ حق نے حق کو جاننے کی طلب اور جستجو کو جنم دیا۔
حق کیا ہے کہاں سے آیا اور کیسے اپنی صورتیں بدل بدل کر سامنے آتا ہے کبھی اولاد بن کر، بہترین تربیت وتعلیم کی صورت میں والدین پر عائدہوتا ہے تو کبھی ماں وباپ بن کر تحفظ وتیماداری کی صورت میں اولاد کو پابند کرتا ہے، کبھی بیو ی کے بھیس میں نان ونفقہ اورحسن سلوک کا مطالبہ کرتا ہے تو کبھی شوہر بن کر وظیفہ زوجیت مانگنے لگتا ہے، ایک ملازم مہینہ بھر خدمت کرنے کے بعد بھی تنخواہ کی صورت میں اپنا حق طلب کرتا ہے تو کبھی مزدور اجرت کی صورت میں ۔ہمسایہ، ہوا، پانی ، راستے اور پردہ کو اپنا حق سمجھتا ہے تو کوئی کاشت کاری کے بعد فصل کی اچھی قیمت کو اپنا حق جانتا ہے اورتو اور ایک راشی آفیسر میز کے نیچے سے بھی اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے، الغرض ہر ذی رو ح اور یہاں تک کہ غیر ذی روح بھی حق کا طلب گار ہے، مشاہد ے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ اکثریت نالاں ہے کہ ان کو اُن کاحق نہیں ملا تو آخرکیا ہے یہ ’’حق‘‘؟انسان نے جب سے شعور کی دنیا میں قدم رکھا ہے، حق کی تلاش اور طلب میں سرگرداں ہے۔
’’حق ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی‘’’سچ‘‘لائق ’’ واجب ‘‘ درست ‘‘بجا’’جائز‘‘اور انصاف کے ہیں ۔ لفظ حق ایک اسم ہے جو کہ مذکر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، اس کے اصطلاحی معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں۔حق کی جمع حقوق اور متضاد ’’باطل‘‘ ہے۔ حق فطرت کے عین مطابق ہوتا ہے جس کا انکار قطعی طور پر ناممکن ہے۔ قرآن پاک میں حق کا لفظ 227 بار استعمال ہوا اور حق کی اہمیت اور ادائیگی پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ تسلیم شدہ حقوق کے لئے ’’ حق الامر‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ حق کی تاریخ انسانی تاریخ کے ساتھ شروع ہوئی ہے۔ اللہ نے جب آدم کو تخلیق کیا تو ان کے لیے کچھ امور کو طے کیا کچھ اشیاء کو ان کے زیر حکم کردیا اور ان کو بنی آدم کے لیے مسخر کیا ۔یہ سب اشیاء اور امور حقوق فطری NATURAL RIGHTS کہلائے ۔یہی فطری حقوق ارتقا کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے حق انسانی کہلائے۔ دنیا میں آج تک جتنی بھی جنگیں، معرکے، معاہدات، فسادات اور بغاوتیں ہوئیں ان کی وجہ یہی انسانی حقوق ہی ہیں بقول مفکر زینو ’’انسانی حقوق کا دوسرا نام فطری حقوق ہے‘‘
انسان کا احترام ہی انسانی حق ہے اور اس کی ادائیگی فرض کہلاتی ہے اگر معاشرے کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو ایک فرد کا حق ہے وہی امر کسی دوسرے کا فرض ہے۔ ہر فرد اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہوا نظر آتا ہے لیکن اپنے فرض کی ادائیگی کی طرف نظر نہیں کرتا اگر ہر فرد صرف اپنا اپنا فرض ادا کرنا شروع کردے تو یقینا ہر کسی کو اس کے حقوق خود بخود ملنے لگیں گے۔
حق یا RIGHT کی ادائیگی اس وقت تک رضا کارانہ ہوتی ہے جب تک اسے قانون کی طاقت حاصل نہ ہوجائے۔ حق کی ادائیگی کو اس وقت تک نیکی سمجھا جاتا ہے جب تک قانون اسے تسلیم نہ کرلے قانون کی تسلیم کے ساتھ ہی ہم باضابطہ طور پر اس حق کو اپنا سمجھتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کے لیے قانون کی طاقت کاسہارا لیتے ہیں۔
ارسطو حق کو سیاسی معاشرے کی بنیاد قرار دیتا ہے کیونکہ عدل و انصاف کا معیار حق ہی ہے۔ جب کوئی شخص عدالت سے رجوع کرتا ہے تو وہ کسی نا کسی حق کا دعویٰ دار ہوتا ہے اور قانون کے تحفظ یافتہ حق کو تسلیم کروانے کے لیے قانون کی طاقت استعمال کرنے کی درخواست کرتا ہے۔
حق کو قانون کا بنیادی جز ومانا جاتا ہے اور فطری حق قانون کی ابتدائی شکل ہے۔ جہاں کوئی قانون نہیں ہوتا وہاں طاقت کو قانون سمجھا جاتا ہے۔ تہذیب کی ابتداء میں فطری حق اور اصولوں کو بنیاد بنا کر طاقتور نے اپنے حق کو حاصل کیا لیکن کمزور صرف حق کی فریاد ہی کرتا رہا۔ حق کے حصول میں طاقت کا استعمال اہم امر ہے، اس بات کو علامہ اقبال نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضیفی کی سزا مرگ مفاجات
طاقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کمزوروں نے طاقتور کو اپنے اپنے حق کا پاسبان بنانے کا معاہدہ کیا اور حق نے قانون کی شکل اختیار کرلی۔ ماہرین کے مطابق انسانی حقوق کو پہلی بار دستاویزی شکل 2050 قبل مسیح میں سمیرین ریاست ’’ار‘‘ (UR ) میں بادشاہ ’’ارنام‘‘ (URNAMMU ) نے دی۔ اس کے بعد 1780 قبل مسیح میں مسوپوٹامیہ (MESOPOTAMIA ) کے بادشاہ حمورابی نے انسانی فطری حقوق کو تحریری شکل میں پتھر کی ایک سِل پر کندہ کروا کر اپنے دارالحکومت کے مرکزی چوک پر آویزاں کروادیا۔ یہ حقوق حمورابی کا قانون (CODE OF HAMMURABI ) کے نام سے مشہور ہوئے۔ اس قانون میں اصول وضع کیے گئے اور قانون توڑنے پر سزائوں کا تعین کیا گیا۔ حمورابی نے پہلی بار عورتوں ، بچوں اور غلاموں کے حقوق اپنے قانون میں متعارف کروائے۔ قدیم ایران نے بھی انسانی حقوق مرتب کرنے میں بے مثال قدم اٹھایا۔ 600 قبل مسیح میں دنیامیں ظاہر ہونے والے ایک عظیم بادشاہ کوروش اعظم جو CYRUS THE GREAT کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے بابل شہر فتح کرنے کے بعد انسانی حقوق ایسے جامع انداز میں مرتب کروائے جو آج ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود بھی انسانیت کے علمبرداروں کے لیے مشعل راہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ حقوق ایک سیلنڈر نما پتھر پر کندہ تھے جو کہ آگے چل کر CYRUS CYLINDER کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ سیلنڈر نما پتھر 1879 میں دریافت ہوا اور آج انسانی حقوق کی پہلی دستاویز کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس سیلنڈر میں مذہبی آزادی اور غلامی کے خاتمے جسے اصول شامل تھے۔ دو اہم اصلاحات کا ذکر بائبل اور دیگر تواریخ میں اس واقعہ کے ساتھ ملتا ہے کہ سائرس اعظم نے یہودیوں کی مذہبی آزادی کا احترام کرتے ہوئے انہیں اپنے ملک واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہ سیلنڈر آج بھی لندن کے برٹش میوزیم میں محفوظ ہے جبکہ اس کی ایک ہو بہو شبیہ REPLICA اقوام متحدہ کے ہیڈ آفس میں رکھی گئی ہے۔
انسانی حقوق وضع کرنے کی اس دوڑ میں برصغیر پاک و ہند بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ 300 قبل مسیح میں فوریہ سلطنت کے بادشاہ اشوکا اعظم نے بھی انسانی حقوق کی تحریر میں تاریخ کا ایک منفرد باب رقم کیا۔
265 قبل مسیح میں کالنگا (KALINGA ) کی فتح کے بعد اشوکا اپنے کشت و خون کے رویے پر پشیمان ہوا اور ضمیر کے ملامت کرنے پر وہ بالکل بدل گیا۔ وہ اشوکا جو کبھی اشوکا ظالم کے نام سے جانا جاتا تھا اپنے احکامات، قوانین اور اصلاحات کی وجہ سے اشوکا رحم دل کے نام سے مشہور ہوا۔اشوکا نے اپنے حکم نامے EDICT OF ASHOKA میں سرکاری اداروں اور حکومتی اہلکاروں کو تحمل مزاجی اور نرمی کا رویہ اپنانے کا حکم دیا۔ قیدیوں کو ایک سال میں ایک دن جیل سے باہر سیر کرنے کی اجازت دی۔ تعلیم کو مفت کیا اور مساوات پر زور دیتے ہوئے ذات پات ، رنگ و نسل، مذہبی و سیاسی تفریق کو بالکل ختم کردیا۔
اشوکا نے والدین، اساتذہ اور پنڈیوں کے احترام کو لازمی قرار دیا اور ملازموں کے حقوق کا تعین کیا۔ اشوکا اعظم تاریخ کا وہ پہلا بادشاہ ہے جس نے انسان کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق بھی وضع کیے۔ جانوروں پر تشدد اور غیر ضروری ذبیج پر پابندی لگائی۔ شوقیہ شکارSPORT HUNTING اور جانوروں کو گرم لوہے سے داغنے کو قابل سزا جرم قرار دیا۔ اس کے بعد بادشاہوں نے حقوق اور قانون وضع کرنا اپنی طاقت کی تسلیم کے لیے ضروری سمجھا جس نے قانون کو تسلیم کیا گویا متعلقہ بادشاہ کے اقتدار کو تسلیم کیا۔ دوسری جانب مذاہیب نے بھی حقوق کا ہی احاطہ کیا۔ جو انسان کے معاشرے میں زندگی گزرنے کے طریقہ کار کا تعین کرتے ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیان کردہ آفیسر کا حق کے نام پر رشوت کا مطالبہ اور چپڑاسی کا چائے پانی کا حق درست ہے کیا؟کیا کوئی قانون کوئی مذہب ایسے مطالبے کو کوئی تحفظ دیتا ہے ؟قانون و انصاف کا مستقل مطالعہ ہی اس کا جواب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔