... loading ...
ایک ہے سنتھیارچی، یادش بخیر ایک تھی جنرل رانی، تھوکوں کے فرقے کی پرنانی!
ناہید مرزا سے قدم بڑھاتے ہوئے بیچ میں ایک دور ایوب خان کا آتا ہے اور ایک قصہ کرسٹن کیلر کا۔ بیگم ناہید مرزا کے سوئمنگ پول میں لڑکیاں نہیں کہانیاں بھی تیرتی تھیں، اسکندرمرزا سے صرف اقتدارکہاں، یہ کہانیاں بھی منتقل ہوئیں۔ ایوب خان بیگم ناہید کے سوئمنگ پول پر الطاف گوہر کی سخت پہرے داری کے باعث بہت سی کہانیوں سے بچنے میں کامیاب ضرور ہوئے، مگر وہ ایک دوسرے سوئمنگ پول کی ڈبکیوں میں اپنی کہانی چھوڑ آئے۔ برطانوی فوجی اکیڈمی سینڈہرسٹ سے وابستگی رکھنے والے جنرل ایوب خان لندن جاتے تو اُنہیں بکنگہم شائرمیں کلیو ڈن کی ایک پرتعیش جاگیر پر ٹہرایا جاتا۔وہیں سوئمنگ پول میں اُن کی برطانوی سیاست کی بلبلِ ہزار داستان کرسٹین کیلر سے نم آلود ملاقات ہوئی۔
خود کرسٹین کیلر اپنی کہانی جن الفاظ میں بیان کرتی ہے، اس میں کسی ”عسکری مداخلت“ کے آثار تو کم ملتے ہیں کہ میلان کنڈیرا کی شونتال ہو، رحمان ملک کی سنتھیارچی یا پھر ایوب خان کی کرسٹن کیلر تعلقِ باہم میں ”جمہوریت“ کی پگڈنڈی پکڑتے ہیں۔اس بابِ لذیذ میں زیادہ درست پیرایہئ اظہار ایوب خان کی کرسٹین کیلر نہیں بلکہ کرسٹین کیلر کا ایوب خان ہے۔ جسے ایک انٹرویو میں خاتون موصوفہ نے ایک جاذب نظر اور وجیہ شخصیت کہا۔ کرسٹین کیلر سنتھیارچی کے مقابلے میں زیادہ رکھ رکھاؤ والی تھی۔ کرسٹین کیلر نے جب اپنی سوانح ”Secrets and Lies“میں اپنی بہکی ہوئی زندگی کو مرتب کیاتو اس میں ایوب خان کے باب میں اپنے قلم کو بہکنے نہیں دیا۔ سنتھیارچی اور کرسٹین کیلر کو متوازی رکھ کر دیکھیں اور پھر ایوب خان اور رحمان ملک کے موازنے کا بار بھی اُٹھا لیں تو اندازا ہوجائے گا کہ بجلیاں کہاں چمکتی اور کہاں گرتی ہیں۔کلیوڈن کے سوئمنگ پول میں اُس روز صرف ایوب خان نہ اُترے تھے، بلکہ برطانیا میں وزارتِ عظمیٰ کا ایک شاندار مستقبل رکھنے والے وزیر برائے حالتِ جنگ جون پروفیومو بھی معرکہ آرا تھے۔ وزیر برائے جنگ نہ جانے کن حالات سے حالتِ جنگ میں رہے ہوں گے کہ سوئمنگ پول کے اُسی پانی میں اُن کا مستقبل بھی ڈوب گیا۔وزارت سے ہاتھ دھوناپڑے۔ کہانی سے وابستہ ایک کردار نے تو خود کشی بھی کی۔ سرد موسم میں سوئمنگ پول کا پانی گرم تھا، مگر پاکستان میں ٹھنڈ پروگرام جاری رہا۔ایوب خان کی سرگرمیاں بیرون ملک نہ تھیں، بلکہ یہ پوشیدہ طوفان کسی شبانہ نامی عورت کی طرف بھی منہ زور رہتا تھا۔ ناہید مرزا کے سوئمنگ پول کی تو خیر تھی، مگر ایوب خان کی کہانیاں سوئمنگ پول میں اس لیے ڈوب گئیں کہ اس کی نگرانی پر ایوب گوہرمامور تھے۔ اُنہوں نے پانی کو کنارے سے چھلکنے نہ دیا اور یوں بقول شاعر آزاد انصاری:۔
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فساد خلق سے نا گفتہ رہ گئے
کردار پر پہرے دارے کا کوئی نظام وضع ہو جاتا۔ برطانوی وزیر برائے حالتِ جنگ جون پروفیوموجس طرح جوابدہ بنائے گئے، کوئی یہاں بھی پُرسانِ حال ہوتاتو جنرل رانی کا کردار ہماری تاریخ میں ایسے نہ اُبھرتا۔تھوکوں کافرقہ اپنی ہی غلاظت میں غرق رہتا۔ اقتدار کی راہداریوں میں عبرت کی داستانیں اس طرح جنم نہ لیتیں جیسے یحییٰ خان کے زمانے میں سامنے آئیں۔
گجرات کے ایک تھانیدار کی بیوی اقلیم اختر کو پہلی بارکس نے ”جنرل رانی“ کہا، یہ تو معلوم نہیں۔ مگر جنرل یحییٰ خان کو سب کے سامنے ”آغاجانی“ کہہ کر مخاطب کرنے والی خاتون اسلام آباد کے طاقت ورحلقوں میں سب سے پہلے ”جنرل رانی“ کے نام سے پکاری گئی۔ سرکاری افسر اور صنعت کار اس عورت کے آگے پیچھے ایسے گھومتے کہ اُن کے اردلی لگتے۔ یہ بیگمات اور بے حیائی کا زمانہ تھا۔ اس دور میں تھوکوں کافرقہ اتنا پھلا پھولا کہ روزِ قیامت کی ساری نشانیاں اس ایک عہد میں جمع ہوگئیں۔ وہ لوگ ہمارے کندھوں پر بیٹھ کر آج اچھل کود کیسے کرسکتے ہیں جن کا سراغ ”اُس بازار“ سے ملتا ہے۔ جن کے نسب ناموں کی سیاہی نے ہمارے قومی تاریخ کو سیاہ کار کیا۔ یہ دور بیگم شمیم این حسین، بیگم جونا گڑھ، نورجہاں، بیگم منصور ہیرجی، نازلی بیگم، زینب، انورہ بیگم، للی خان اور لیلیٰ مزمل کے علاوہ اداکاراؤں میں شبنم، شگفتہ، نغمہ اور ترانہ کا تھا۔ یہ فہرست شیطان کی آنت کی طرح طویل ہے۔ ایک آمرِ مطلق کی جبینِ تکبر ان عورتوں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہتی۔ عزت ذلت کے پیمانے سب بدل گئے، ناخوب بتدریج خوب میں تبدیل ہوا تو اندازا ہوا کہ قوموں کا ضمیر کیسے بدلتا ہے۔ افسوس پاکستانی اخبارات وجرائد کو باندھ کر رکھنے والے تب امریکی جریدے کو لگام نہ دے سکے جس نے ہماری رسوائیوں کی داستانیں دنیا بھر میں طشت از بام کیں۔ نیوز ویک نے”بارہ حکمران عورتوں“ کے نام سے ایک مضمون میں یہ انکشاف کیا: ان عورتوں کے پاس صرف یحییٰ خان کے دل کی ہی نہیں پاکستان کے مستقبل کی بھی کنجی ہے“۔ مختار مسعود کی قبر کو اللہ روشن رکھے، اپنی کتاب ”لوحِ ایام“ میں یحییٰ خان کے دورہئ ایران کی شرمناک کارگزاری میں ہمارے لیے عبرت کا سامان چھوڑ گئے۔ایک سابق آئی جی سردار محمد چودھری کی کتاب بھی تھوکوں کے اس فرقے کی رنگین سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے۔
کوئی قوم اپنی اخلاقی سرگرمیوں کو کسی ضابطے کا پابند نہیں بناتی تو اُس کا ذکر زوال کی کہانیوں میں ملتا ہے۔سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب و محرکات کی تلاش میں نکلیں تو ہمارا واسطہ اسی نوع کے واقعات سے پڑتا ہے۔ ہم نظر اندازکرتے ہیں، جنرل یحییٰ خان کے جنرل رانی سے تعلقات چند ہفتوں مہینوں کا ماجرا نہیں۔ یہ 1964ء سے قائم تھے۔کم لوگ آگاہ ہیں کہ جنرل رانی نے 1965ء کی جنگ کے بعد جنرل یحییٰ خان کی فروری میں آنے والی سالگرہ کی ایک بہت بڑی تقریب کا اہتمام کیا تھا، جس میں جنرل رانی ایک پنجابی گانے کو اونچی لے میں گاتے ہوئے نیم عریاں لباس میں محوِ رقصاں رہی، تب جنرل یحییٰ خان نے اُسے ٹوکا: آہستہ گاؤ مجھے ایوب خان سے ابھی اقتدار بھی لینا ہے“۔ اس سالگرہ میں جو کیک کاٹا گیا، اس پر ایک ٹینک کی تصویر تھی،جس پر لکھا تھا: چھمب اور جوڑیاں مبارک ہو! کوئی قوم اپنی فتح کے تصور کو درست سمجھنے سے قاصر ہوجائے، اُس کا حال جیت میں بھی ہارے ہوئے لشکروں جیسا ہوتا ہے۔ مورخین اب بھی سقوطِ ڈھاکا کے اسباب کا سراغ لگاتے ہوئے جنگ کے دنوں کی کہانیاں جمع کرتے ہیں۔ کاش کوئی بھارت کے خلاف کامیابی کے اسباب کا درست تعین کرنے میں سچی جستجو دکھائے۔ جس طرح ہم زوال کے اسباب سمجھنے میں ناکام رہے، اس طرح ہم اپنی فتح کے اسباب بھی سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ایوب خان نے تو پاکستان کی پوری فوج کی توہین کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا تھا کہ 1965 کی جنگ نور جہاں کے نغموں نے جتوائی۔ وہی نور جہاں جو جنرل یحییٰ خان کی تاریکیوں میں سقوطِ ڈھاکا کے اسباب کا مدہوش سامان جمع کرتی رہی۔ کاش کائنات کا رب ہمارے ناقص تصورات میں لفظ کن سے نئے معنی انڈیلے۔ہمیں سیدھا راستا دکھائے۔ تھوکوں کے فرقے کی پرنانی جنرل رانی سے سنتھیارچی تک ہم ایک ہی گمراہ کن راستے پر بگٹٹ دوڑتے آئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔