... loading ...
سنتھیارچی ایسی عورتیں خود میں سمائی نہیں دیتیں۔
میلان کنڈیرا کے ناول ”IDENTITY“ کا کردار”شونتال“ ذہن میں اُبھرتا ہے۔لطیف سبھاؤ، شعلوں کی طرح رقص کرتا لبھاؤ اور آنکھوں میں باہمی ساز باز کا سجھاؤ۔پھر زندگی پر پژمردگی کا کوئی لمحہ اُترتا ہے، کوئی احساس دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جیسے کمرے میں کوئی چیز غلط رکھ دی گئی ہو۔ شونتال کے اسی احساس نے اُس کی ایک فقرے سے جنگ کرائی، جب وہ بولتی ہے:مرد اب مڑکے مجھے نہیں دیکھتے“۔ یہ احساس ہر ”شونتال“ کے اندر ایک آپا دھاپی پیدا کرتا ہے۔ یہی آپادھاپی اندر سے باہر شروع ہوتی ہے۔یہ کہانی کبھی نہیں مرتی۔ اس کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ بس یہ تعاقب کرتی رہتی ہے۔
شونتال ہو یا سنتھیارچی!یقین مانیں،ان کا بھی ایک فرقہ ہوتاہے۔
اس فرقے کا ایک عقیدہ ہوتا ہے، مایوسیوں کو شدید کیے بغیر باہمی کشش جاری رکھیں۔ اس میں تخیل کو تسکین کی حد تک گدگدائے رکھنا ہوتا ہے۔ شخصی رازداری کے اہتمام کے ساتھ لعاب ِ دہن کا اختلاط ایک عبادت کی طرح جاری رہتا ہے۔ میلان کنڈیرا ہمیں دکھاتا ہے کہ کس طرح لعاب ایک مخلوق سے عاشق کے منہ کی طرف حرکت کرتا ہے۔ اور پھر یہ مختلف منہوں سے لگ کر ہر ایک کوتھوکوں کے سمندر میں غرق کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
“So that every one of us is immersed in a sea of salivas that blend
and make us into one single community of salivas, one humankind
wet and bound together.”
اس فرقے پر حیا کا دیوتا ایک عذابِ دائم مسلط کیے رکھتا ہے۔ ناستلجیا کا عذاب! آدمی اُسی کی غیر موجودگی محسوس کرتا ہے، جب وہ عین اُس کے سامنے موجود ہوتاہے۔ تب یہ ایک دوسرے پر لات مارنے کاوقت ہوتا ہے۔ اس فرقے کا عقیدہئ شخصی رازداری، اچانک متزلزل ہونے لگتا ہے۔ پھر لعابِ دہن کا اختلاط ایک کہانی کی طرح بن جاتا ہے۔ پھر منہ سے صرف تھوک ہی نہیں نکلتا، بات بھی نکلتی ہے۔ اردو محاورہ ہے:منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی!سنتھیارچی کے لیے تھوک نگلنے اور باتیں اُگلنے کا وقت ہے۔ یاد رکھیں!نم آلود اور باہم دگر تھوکوں کے فرقے کی”زاہدہ“ خواتین کی”احتیاط“ آئندہ ”مہم“ کی حفاظت کے پیشِ نظر ہوتی ہے۔ اگر آئندہ کی مہم محفوظ نہیں تو احتیاط کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔سنتھیارچی پر سوال یہ اُٹھایا جارہا ہے کہ اتنے عرصے کے بعد وہ یہ انکشافات کیوں کررہی ہے؟ اس سوال پر پھیلی دانش کی روشنی سے آنکھیں چندھیائے جاتی ہے مگر ان چندھیائی آنکھوں سے بھی وہ تاریخ نظر آجاتی ہے جو اس مخلوق کے بروئے کار آنے کا تعین کردیتی ہے۔ تھوکو ں کا فرقہ آئندہ کی مہمات سے انکشافات کے زمانے کا تعین کرتا ہے۔ یوسف رضاگیلانی، رحمن ملک اور مخدوم شہاب الدین کے متعلق ہم جو کچھ جانتے ہیں وہ اگلی تحریروں میں زیر بحث لائیں گے۔ ابھی سنتھیارچی کے انکشافات کو کیلنڈر کی تاریخ سے نہیں، اپنی تاریخ سے ٹٹولنے کا وقت ہے۔ یہ تھوکوں کے فرقے کو پوری طرح پہچاننے کی ایک کوشش ہے۔
اگر وطنِ عزیز میں تعمیر کی کوئی بنیاد ڈالنی ہے تو”کردار“کے پہرے داری کی طرح بھی ڈالنی ہوگی۔ پاکستانی سیاست کا ایک بہتر نسب نامہ بنانا ہوگا۔ ہمارے حصے میں جاگیرداروں کی جو سیاسی فصل آئی، اس کاخمیر اسی مخلوق سے گندھا ہوا ہے۔ تقسیم سے پہلے ہندوستان جن 562ریاستوں میں منقسم تھا، اس میں جاگیرداروں کی ذہنی وجذباتی اُفتاد کا اندازا ایک انگریز افسر کے برطانوی حکومت کے نام مراسلے سے لگالیجیے:ریاستی افسروں کا صرف ایک ہی کام ہے کہ وہ حکمرانوں کے لیے عورتیں اغوا کرتے ہیں“۔ شورش کاشمیری کی کتاب”اُس بازار میں“ ہماری مجروح تاریخ کی شب گزاریوں کی ورق درورق جو کہانی سناتی ہے، اس کا یہ حصہ شرمناک طور پر متوجہ کرتا ہے کہ ”ایک طوائف نے عندالملاقات بتایاکہ ریاستوں میں گورا رنگ اور سرمئی آنکھیں ہمیشہ راجواڑوں کی ملکیت سمجھی گئی۔مشہور کہاوت ہے کہ:۔
”ریاستوں میں خوب صورت لڑکیاں ترقی حاصل کرنے کے لیے جنی جاتی ہیں“۔
پاکستان کے حصے میں بھی سیاست دانوں کا ایک ایسا انگڑ کھنگڑ آیا جن کا ماضی سیاسی طور پر انگریزوں کی وفاداری اور اور جذباتی طور پر کسبیوں کی ہیراپھیری میں بسر ہوا تھا۔ قلم کے لقندرے، زبان کے لُقے،سیاسی اُٹھائی گیرے اور صحافتی حرافے سب اس حمام میں ننگے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں بدعنوانیو ں کی لن ترانیاں بعد میں اور”تھوکوں کے فرقے“ کی کارگزاریاں پہلے شروع ہوئیں۔ ترتیب بھی یہی ہے۔ جذباتی اُچھال اور کرپشن میں ایک نامیاتی رشتہ ہے۔ جب شب وروز جذباتی طور پر اغوا ہوتے ہیں تو دولت کی بھوک بھی ساتھ ہی بڑھتی ہے۔ دل کشی کے کوچے دراصل نیلام گھر بھی ہوتے ہیں۔ کھوکھلی رنگ رلیاں بکاؤ ہوتی ہیں، جو پہلے جیبوں کو تھپتھپاتی ہے۔ سیاست سے رشتہ ہوتو بدعنوانیوں کا در کھولتی ہے۔ سکوں سے ان بن ہو تو پائل کی چھن چھن اور طبلے کی دھن دھن سنائی نہیں دیتی۔ ہماری سیاسی تاریخ کے تمام تر انحرافات میں اس کا ایک پورا سیاق وسباق موجود ہے۔ سنتھیارچی کا معاملہ نیا نہیں۔ اُسی پرانی کتابِ تسلسل کا ایک باب ہے جو ورق در ورق کھلتا ہے۔
یہ سوال دلچسپی کے ساتھ قابل احتساب ہے کہ تھوکوں کے فرقے نے اقتدار کے ایوان میں کب رسائی حاصل کی؟اس سے جڑا ایک دوسرا سوال بھی ہے کہ غیر ملکی خواتین کا عمل دخل کب سے شروع ہوا؟ داغدار قومی سیاست سے اُس بازار کا آنکھ مٹکا تو اول روز سے تھا، مگر قومی سیاست میں یہ آلودگی ابتدا میں ہی نظر آتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ ابتدا سے ہی انہونیوں کے دھڑے پر چلنے لگی۔ کون جانتا تھا کہ لیاقت علی خان جس وزیر خزانہ کو اُن کی خرابی ئ صحت پر سبکدوش کرنا چاہتے ہیں، وہ اچانک گورنر جنرل بن جائیں گے۔ لیاقت علی خان کی غیر متوقع شہادت نے جیسے اُن کا مقدر ہی بدل دیا۔ خواجہ ناظم الدین وزارت عظمیٰ کے منصب پر جلوہ افروز ہوگئے اور ککے زئی ملک، غلام محمد کو گورنر جنرل کا تاج پہنا دیا گیا۔ ان کی اخلاقی قدریں متزلزل تھیں، بلڈ پریشر، لقوہ اور فالج کا مریض گورنر جنرل ایک غیر ملکی نرس پر رالیں ٹپکانے لگا۔ اقتدار کے ایوان میں یہ تماشا خاموشی سے دیکھا گیا۔ آگے حالات کا دریا اسی بہاؤ میں بہنا تھا۔ پاکستان کی سیاست میں غیر ملکی خاتون کے عمل دخل کا یہ پہلا واقعہ ملتا ہے۔قدرت اللہ شہاب کی کتاب ”شہاب نامہ“ اس کا مدہم مدہم اور نرم نرم تذکرہ کرتی ہے۔ دلچسپ پیرائے میں لکھی گئی یہ کہانی ظاہرکرتی ہے کہ لقوے اور فالج کے مریض میں ہوس آنکھوں سے حکمرانی کرتی ہوگی، اپاہج سیاست کی طرح اعضاء لاچار رہے ہوں گے۔ تھوکوں کا فرقہ اقتدار کی راہداریوں میں قدم قدم آگے بڑھ رہا تھا۔اسکندر مرزا نے کہنی ماری اور گورنر جنرل غلام محمد کی جگہ اس عہدے پر جابراجے۔ محلاتی سازشوں اور سیاست کو تباہ کرنے کی بنیاد غلام محمد ڈال چکے تھے، اب سیاست میں ایک نئے عنصر کا اضافہ ہونا تھا۔ اسکندر مرزا کے دور میں اقتدار کی راہداریوں میں غیر ملکی عورتوں کا عمل دخل سب سے زیادہ بڑھا۔ اسکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر بنے اور ناہید مرزا اُن کی دوسری بیگم تھی۔ ناہید مرزا ایرانی کرد تھی، پاکستان میں ایران نے اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کا جال خواتین کے ذریعے پھیلایا۔ یہ اس کاآغاز تھا۔ تھوکوں کے فرقے کو فروغ ملنے لگا۔ ناہید مرزا کی قریبی عزیزہ نصرت بھٹو بھی ایرانی کرد تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے حصے میں وہ کیسے آئی؟ اس کی ایک تاریخ ہے۔ کبھی ارد شیر کاؤس جی اور اکبر بگٹی سنایا کرتے تھے۔اس پوری کہانی سے آگاہ الہی بخش سومرو کم زبان کھولتے ہیں۔ اسٹینلے والپرٹ نے اپنی کتاب ”زلفی بھٹو“ میں کچھ اشارے کیے ہیں۔ کالم کا ورق تمام ہوتا ہے، اگلا تذکرہ آگے کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ تھوکوں کے فرقے کے فروغ کی کہانی بس یہاں سے شروع ہوتی ہے۔سنتھیارچی اس فرقے کی پہلی خاتون نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔