... loading ...
دوستو، اس دنیا میں بے وقوفوں کی کوئی کمی نہیں۔۔ بے وقوف اور معصوم میں باریک سا فرق ہوتا ہے۔۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ۔۔جب تک دنیا میں بے وقوف موجود ہیں عقل مند بھوکے نہیں مرسکتے۔۔ اگر ہم سے کوئی سوال کرے کہ دو آپشن ہیں، معصوم بننا چاہوگے یا سیانا۔۔ تو ہم معصومیت کو پسند کریں گے۔۔ معصوم لوگ ہمارے فیوریٹ ہوتے ہیں۔۔ان کی باتیں دل سے نکلی ہوئی باتیں ہوتی ہیں۔۔ یہ لوگ ہر کام بڑے دل سے کرتے ہیں ، ان میں عیاری،مکاری تو نہیں ہوتی بلکہ وفاداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔۔ چلیں پھر آج معصوم لوگوں کے حوالے سے کچھ اوٹ پٹانگ باتیں ہوجائیں۔۔
اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ معصوم لوگ صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں، دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔۔ گزشتہ دنوں برطانوی اخبار میں ایک دلچسپ خبر نظر سے گزری، خبر کچھ یوں ہے کہ میاں بیوی میں ناچاقی ہوگئی تو انہوں نے طلاق کے لیے عدالت سے رجوع کرلیا، دونوں کے پاس چھ لاکھ پونڈ کی دولت تھی، جس کے تصفیہ کے لیے دونوں نے دوسال طویل قانونی جنگ لڑی، اور اس جنگ کے اختتام پر دونوں کے ہاتھ کیا آیا؟۔۔ سننے والے بھی اس میاں بیوی کی حماقت یا یوں کہہ لیں کہ معصومیت پر سر پیٹ کر رہ گئے۔خبر کے مطابق شوہر کی عمر 53اور بیوی کی 50سال تھی جن کی شادی کو 22سال ہو گئے تھے اور ان کے تین بچے تھے۔لندن کے رہائشی اس جوڑے کا ایک کیئر ہوم بزنس میں شیئر تھا۔ شوہر نے 6لاکھ پونڈ کی جمع پونجی میں سے 5لاکھ 90ہزار روپے (تقریباً12کروڑ روپے)دو سالہ قانونی جنگ میں وکلاکی فیس اور دیگر قانونی کارروائیوں پر خرچ کر ڈالے۔ گزشتہ دنوں جب عدالت نے دونوں میں رقم آدھی آدھی بانٹنے کا فیصلہ سنایا تو صرف 10ہزار پونڈ باقی بچے تھے جن میں سے 5ہزار شوہر اور 5ہزار بیوی کے حصے میں آئے اور وہ 6لاکھ پونڈ کی خطیر رقم میں سے پانچ پانچ ہزار پونڈ لے کر گھروں کو چلتے بنے۔کیئر ہوم بزنس سے شیئر ختم ہونے پر اس شخص کو وہاں سے نوکری سے بھی نکال دیا گیا اور اب وہ بطور پلمبر ایک کمپنی کے ساتھ کام کر رہا ہے اور 32ہزار پونڈ سالانہ کما رہا ہے۔ ان کا لندن میں واقع گھر اور دو گاڑیاں بھی اسی قانونی جنگ کی نذر ہو گئیں۔اب میاں الگ اور بیوی اپنے تین بچوں کے ساتھ الگ کرائے کے گھروں میں رہ رہے ہیں اور دونوں پر بھاری قرض چڑھ چکا ہے۔ اس وقت بیوی 2لاکھ 14ہزار 830پونڈ اور شوہر 2لاکھ 51ہزار 51پونڈ کا مقروض ہے۔۔آپ نے معصومیت ملاحظہ کی ؟
ہمیں یاد ہے جب ہم انٹرکے طالب علم تھے تو ایک بار ہمارے ٹیچر نے کلاس میں سوال کیا، بیویاں زیادہ تر کس کام آتی ہیں۔۔ہم نے فوری جواب دیا، سر لطیفوں کے۔۔ جی ہاں بیویاں زیادہ تر لطیفوں ہی کے کام آتی ہیں۔۔ویسے زبان کا فرق بھی بہت بڑا فرق اس وقت بن جاتا ہے جب اگر بیوی کو ہندی میں کہا جائے کہ وہ ’’ہتھیارن‘‘ لگ رہی ہے تو شاید رات کا کھانا بھی نہ ملے۔۔لیکن اگر آپ اسی کو اردو میں بولیں گے کہ ’’قاتلہ‘‘ لگ رہی ہو تو پھر شاید رات کے کھانے کے بعد آپ کو ’’سوئیٹ ڈش‘‘ بھی مل جائے۔۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں۔۔محبت بھی عجیب چیز ہے، ماں سے ہوتو عبادت، باپ سے ہوتو مقدس ،بھائی سے ہوتو عقیدت ، بہن سے ہو تو فرض ،اور بیوی سے ہوتو لوگ کہتے ہیں’’ جورو کا غلام ‘‘۔۔۔انہوں نے ہی یعنی ہمارے پیارے دوست نے ہمیں بتایا تھا کہ ۔۔ مستانی ، باجی راؤ کی دوسری بیوی تھی جسے وہ بے تحاشا چاہتا تھا۔۔پدماوتی ، راول رتن سنگھ کی دوسری بیوی تھی،جس پہ وہ دل و جان سے نثار تھا۔۔جودھا، اکبر کی تیسری بیوی تھی،جس سے اس کی محبت کے چرچے زبان زدعام تھے۔۔ممتاز، شاہ جہاں کی آٹھویں بیوی تھی جس کی محبت میں اس نے تاج محل بنوایا۔تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی شوہر نے اپنی پہلی بیوی سے دیوانہ وار محبت نہیں کی۔یہ صرف جنرل نالج کے لیے ہے۔ گھر میں اس کا تذکرہ کرنے سے گریز کریں۔ورنہ کسی بھی قسم کے ’’سانحہ یا حادثہ‘‘ کے ہم قطعی ذمہ دار نہیں ہوں گے۔۔
بیوی نے بڑے لاڈ لانہ انداز میں اپنے شوہر سے پوچھا۔۔خدا نخواستہ گھر میں چور آجائیں تو تم کیا کرو گے ۔۔؟۔۔شوہر نے کہا، وہی کروں گا جو وہ کہیں گے، پہلے کون سا یہاں میری مرضی چلتی ہے۔۔ہم سے ہمارے ایک دوست نے جن کی گزشتہ دنوں نئی نئی شادی ہوئی ،سوال کیا کہ، بیوی اور نیوزچینل میں کون سی بات ایک جیسی ہے؟۔۔ہم نے اسے جواب دیا۔۔جب تک ایک ہی بات سو دفعہ نہ بتادیں،تب تک دونوں کوسکون ہی نہیں ملتا۔۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں، شادی بجلی کے تاروں کی طرح ہوتی ہے، ٹھیک جڑ جائے تو زندگی روشن ، اور اگر غلط جُڑ جائے تو زندگی بھر جھٹکے ہی دیتی رہتی ہے۔۔عربوں میں ’’غریب‘‘ اسے کہتے ہیں جس کے پاس صرف ایک ہی بیوی ہو۔۔
ایک معصومانہ تبصرہ بھی سن لیجئے۔۔ایک محفل میں امریکی، چینی اور پاکستانی بیٹھے تھے۔۔ امریکی باشندے نے کہا۔۔ہم نے ایک بندے کا گردہ تبدیل کیا وہ 6 گھنٹے بعد کام ڈھونڈ رہا تھا۔۔چینی باشندہ کہنے لگا،ہم نے ایک بندے کا دل تبدیل کیا وہ 2 گھنٹے بعد کام ڈھونڈ رہا تھا۔۔پاکستانی نے بڑی معصومیت سے کہا۔۔ہم نے تو صرف ایک بندہ بدلا آج پوارا ملک کام ڈھونڈ رہا ہے۔۔ہمارے فیوریٹ باباجی سے کسی نے پوچھا، آپ اتنے خوش کیسے رہتے ہیں۔۔ باباجی نے فرمایا۔۔میں بے وقوفوں سے بحث نہیں کرتا۔۔پوچھنے والے نے پوچھا، پھر کیا کہتے ہیں؟؟۔۔باباجی بولے۔۔میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔پوچھنے والے نے کہا، ’’پھر بھی اپنی بات یا اپنا موقف منوانے کے لیے اسے قائل کرنے کے لیے آپ کو اسے کوئی دلیل کوئی جواز تو دینا چاہیے۔‘‘۔۔یہ سوال سن کر باباجی نے بڑا تاریخی جواب دیا۔۔کہنے لگے۔۔’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘‘۔۔
ہمارے پیارے دوست نے ہمیں دوپہر کو میسیج کیا،جو کچھ یوں تھا کہ۔۔آج صبح محلے کی آپا جی گھر آئیں۔اماں سے گرمی، مہنگائی اور رشتہ داروں کی بے حسی پر دو گھنٹے گفتگو کی۔اماں نے چائے کا پوچھا تو انہوں نے قہوہ پینے کی خواہش کرتے ہوئے کہ ۔۔ آج کل لیموں اور قہوہ کورونا میں بہت مفید ہے۔۔دو گھنٹے بعد جاتے ہوئے خوب دعائیں دیں اور بولیں۔۔ اب انشااللہ، پندرہ دن بعد ملاقات ہوگی، ڈاکٹر کے پاس گئی تھی انہوں نے بتایا ہے کہ کورونا وائرس ہوگیا ہے ،دوہفتے کے لیے قرنطینہ میں جانے کا کہا ہے۔۔ڈاکٹر کہہ رہا تھا، جب کورونا ہوجائے تو اس دوران کسی سے ملتے جلتے نہیں، تو میں نے سوچا آج ہی سارے محلے والوں سے مل آؤں، آخر محلے داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔۔یارکوئی لائن نکالو، اماں کا کورونا ٹیسٹ کرانا ہے، تم صحافی ہو، جگاڑ نکال لوگے، عوام کے لیے تو سارے اسپتالوں میں ہاؤس فل کے بورڈ لگ چکے ہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔