... loading ...
پچھلے سال غالباً ماہ اپریل میں ٹڈی دل بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پہنچ گئے تھے، ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی ایسی صورتحال تھی، تب بھی فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچا، ٹڈیوں کے اس حملے سے پہلے سرکار نے خدشات ظاہر کئے تھے تاہم اس کے باوجود بروقت پیش بندی نہیں کی گئی، بلوچستان میں اْس وقت بھی زمیندار پریشان اور نقصانات سے دو چار تھے۔ حکومت کی جانب سے کئی اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوئے کہا گیا کہ ٹڈیوں کے ممکنہ حملے سے نمٹنے کیلئے تیاریاں کی جائیں گی اور بڑے پیمانے پر اسپرے کئے جائیں گے۔ وفاقی سطح پر نیشنل ایکشن پلان مرتب کرکے ایمرجنسی نافذ کی گئی مگر کئی ماہ گزرنے کے باوجود حکومت اور متعلقہ محکموں کی طرف سے سنجیدہ اقدامات کہیں نظر نہیں ا?ئے یعنی محض اجلاس ہوتے رہے، خانہ پری ہوتی رہی۔مسئلے کو سنجیدہ نہ لینے کی وجہ سے ٹڈیاں پورے ملک تک پھیل گئیں بلکہ پہلے سے زیادہ شدت سے حملہ آور ہوئیں، جس کے نتیجے میں بلوچستان کی لاکھوں ایکڑ پر مشتمل کھڑی فصلوں و باغات تباہی کے دہانے پر ہیں جبکہ ٹڈی دل بڑے پیمانے پر فصلوں کو نقصان بھی پہنچا چکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے سال ٹڈیوں کی افزائش روکنے کیلئے مطلوبہ اقدامات نہ کئے گئے، جس کی وجہ سے یہ دل کروڑوں کی تعداد میں انڈے دے کر چلا گیا، بارشوں کے نتیجے میں نمی، گرمی اور سازگار ماحول ملنے کے بعد اب ان انڈوں سے مزید افزائش نسل ہورہی ہے اور اس وقت کروڑوں اربوں ٹڈیاں بلوچستان کے طول و عرض میں کھڑی فصلوں اور باغات پر حملہ آور ہیں، یہاں تک کہ جنگلات بھی تباہ ہورہے ہیں۔عالمی ادارہ خوراک و زرراعت (ایف اے او) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ٹڈیوں سے فصلوں اور باغات کی تباہی سے پاکستان کو چار سے 5 ارب ڈالر کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور قحط سالی کا بھی خطرہ ہے، اگر ٹڈیاں فنا نہ کی گئیں تو بلوچستان کی زراعت یقیناً مکمل تباہ ہوجائے گی۔
بلوچستان حکومت کی جانب سے اب تک محض چند ہزار ایکڑ رقبے پر اسپرے ہوا ہے، جو نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ٹڈیاں لاکھوں ایکڑ اراضی پر پھیلی زراعت پر حملہ آور ہیں اور بہت تیزی سے ہر سبزے کو ہڑپ کررہی ہیں۔ صورتحال یہی رہی اور آئندہ چند دنوں میں ہی اگر بڑے پیمانے پر اسپرے نہ کرایا گیا تو ایک جانب فصلیں تو تباہ ہو ہی جائے گی، دوسری جانب ٹڈی دل کے نئے حملے سے صوبے میں زراعت نام کی کوئی شے باقی نہیں رہے گی۔تحفظ نبادات کے صوبائی ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عارف شاہ کے مطابق رواں ماہ ایران سے ٹڈیوں کا ایک بڑا لشکر بلوچستان میں داخل ہوگا، جو موجودہ حملے سے زیادہ بڑا اور خطرناک ثابت ہوگا اور یہ لشکر صرف بلوچستان میں ہی تباہی نہیں پھیلائے گا بلکہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا سمیت پورے ملک اور انڈیا سمیت دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی آسانی سے پہنچ جائے گا۔ٹڈیاں ہوا کے رخ پر ایک دن میں 150 کلومیٹر تک کا سفر کرسکتی ہیں اور اس کا ایک چھوٹا سا لشکر 30 سے 35 ہزار لوگوں کی خوراک ایک دن میں ختم کرسکتا ہے، پچھلے سال ان کی نسبتاً کم تعداد کو کنٹرول نہ کیا گیا یوں رواں سال ٹڈیوں نے تعداد میں کئی گنا اضافہ کرلیا۔ اس سال تو گندم کی کٹائی ہوگئی، اگلے سال شاید کھانے کو گندم بھی میسر نہ ہو، شدید قحط کی صورتحال پیدا ہونے کا بھی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔بلوچستان میں تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ زیادہ تر فصلوں کی بجائے باغات پر زراعت کا انحصار ہے، سیب، آڑو، زردار آلو، چیری اور دوسرے درختوں کو پھلدار بننے میں سالوں کا وقت لگتا ہے جبکہ ان دنوں ٹڈیوں کے حملوں کے باعث 30، 40 سال پرانے درخت بھی سبز پتوں سے خالی اور خشک ہونے کے خطرے سے دو چار ہیں۔ چنانچہ حکومت محض فیصلوں اور اعلانات تک خود کو محدود نہ کرے بلکہ ایسی صورتحال میں بامعنی اور عملی قدم اٹھائے کی ضرورت ہے۔حکومت کرونا وباء کے تناظر میں بھی محض اجلاس منعقد کرتی رہی ہے، فیصلے ہوتے رہے اور بلنگ و بانگ دعوے کرتی رہی لیکن عملاً برسر زمین اس وباء کے پھیلائو کو روکنے میں کوئی کام نہ ہوا بلکہ کرونا کے اس پورے بحران میں حکومت کی رٹ کہیں دکھائی نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ صوبے میں وائرس پھیل چکا ہے، متاثرہ افراد کی تعداد اور اموات میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت اپنے کسی بھی اعلان کو عملی جامہ پہناسکی اور نہ ہی اپنے فیصلے لاگو کرسکی، نتیجتاً بلوچستان اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اب اللہ تعالیٰ ہی کے رحم و کرم پر ہے۔ گویا بلوچستان حکومت اس تناظر میں مطلق ناکام ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔