وجود

... loading ...

وجود

پاکستان کو”او ایل ایکس“بننے سے بچائیں!

جمعه 05 جون 2020 پاکستان کو”او ایل ایکس“بننے سے بچائیں!

ملک ریاض اور اب یہ عظمیٰ خان!! الحفیظ الامان!!
قومیں کردار سے بنتی ہیں۔پاکستان کو او ایل ایکس نہ بننے دیں، حضرت علامہ اقبالؒ نے خبردار کیا تھا، خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے! آگے فرمایا:
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
آسان دولت نے پاکستان کی سماجی اقدار کو چاٹنا شروع کردیا۔ ہم قومی ریاست کو بتدریج ایک ایسی سطح پر لے گئے جہاں ہر چیز سیاست کی پست سطح پر نفع نقصان کے تناظر میں طے ہوتی ہے۔ صحیح و غلط اور حق وباطل کا کوئی تناظر موجود نہیں۔ البتہ باتیں بہت ہیں۔ یہ ملک ایسا نہ تھا،ہمارے خوابوں کی سرزمین وطنِ عزیز کو ایسا نہیں بننے دینا چاہئے۔ ملک ریاض اور اُن کی بیٹیوں سے جڑا اداکارہ عظمیٰ خان کا تنازع وتصفیہ بنیادی طور پر ہمارے”قومی کردار“ کا عکاس ہے۔ یہ قومی کردار اس معاشرے کا حقیقی کردار نہ تھا، یہ اس پر مسلط کیا گیا، اور اب پورا معاشرہ اس رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ ہمارا قومی کردار کیا ہے؟ سیاست کی ارذل سطح پر سماجی اقدار کی بھینٹ دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں ہر چیز”برائے فروخت“ بن چکی ہے۔ یہ ریاست ایک بہت بڑی فروخت گاہ ”او ایل ایکس“ کا منظر پیش کرنے لگی ہے۔اداکارہ عظمیٰ کا معاملہ تھوڑا سا التوا ء میں ڈالتے ہیں، پہلے اس ”تعارف“کے گھناؤنے پن اور اہانت و رکاکت کو سمجھ لیتے ہیں جو ہماری قومی کردار کے ساتھ چسپاں کردیا گیا۔
ورجینیا میں واقع امریکی سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر کے باہر 25/ جنوری 1993ء کو ایک کار پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، جس میں سی آئی اے کے دو اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہوگئے تھے۔ امریکی اس واقعے کے الزام میں صوبہ بلوچستان کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان ایمل کانسی کو جون 1997ء میں پاکستان سے گرفتار کرکے لے گئے، ایمل کانسی کی گرفتاری اور امریکا حوالگی کے لیے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ امریکا میں اس نوجوان کو 14/ نومبر 2002ء کو پھانسی دے دی گئی۔ ایمل کانسی کی گرفتاری کیسے ہوئی؟ پاکستان میں یہ حمیت اور قانون کا نہیں سیاست کا موضوع بنا۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو اورصدر مملکت فاروق لغاری کے درمیان جاری اختلافات میں ایمل کانسی کی گرفتاری کے حوالے سے فاروق لغاری کو موردِ الزام ٹہرانے کے لیے مخصوص حلقوں سے پروپیگنڈے کا ایک طوفان اُٹھا۔ اس معاملے میں ہمارے”قومی کردار“پر ایک انتہائی شرمناک فقرہ ورجینیا کے سرکاری وکیل نے تب کہا: پاکستانی پیسے کے لیے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں“۔ یہ شرمناک فقرہ ایسا تھا کہ پاکستان کو امریکا سے اپنے ہر قسم کے تعلقات پر نظرثانی کا آغاز کردینا چاہئے تھا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بعد کے ایام میں پاکستان امریکا کے تعلقات میں سب کچھ پیسے سے ہی چلا۔ باب وڈورڈ نے اپنی کتاب ”Obama’s Wars“میں بھی پاکستان سے امریکی تعلقات اور پیسوں کی تال میل کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کا قصہ ابھی تک ہمارے ذہنوں پر کچوکے لگاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا 19/ نومبر 2018 کاٹوئٹ بھی یاد کرلیجیے!
”ہم پاکستان کو اربوں ڈالر اس لیے نہیں دیتے کہ وہ پیسے لے لیں اور کرے کچھ نہیں۔ بن لادن اس
کی بڑی مثال ہے اور افغانستان ایک اورمثال۔ وہ ان متعدد ممالک میں سے ایک ہے جو امریکا سے لیتے
تو ہیں لیکن جواب میں دیتے کچھ نہیں۔ یہ اب ختم ہو رہا ہے“۔
ہمیں لوگ ایسا کیوں سمجھتے ہیں؟ آزاد ملک ہی اپنا قومی کردار تشکیل دے پاتے ہیں۔ ورنہ یہ ہنڈولے کی طرح ڈولتا رہتا ہے۔ فرانسیسی سیاسی نظریہ ساز اور انیسویں صدی کی مصنفہ Anne de stael نے لکھا تھا:

.Only a free nation has a national character

اب اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، ایک برائے فروخت کردار ہماری قومی شناخت سے چپک چکا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہر جگہ سب کچھ لین دین سے طے ہوتا ہے۔ یہی بدقسمتی ملک ریاض کی بیٹیوں کے اداکارہ عظمیٰ خان سے تنازع میں بھی چھائی رہی۔ اگرچہ اس کے اسباق کچھ اور بھی ہیں۔
ٓ اداکارہ عظمیٰ خان کے گھر حملہ آورملک ریاض کی بیٹیوں کی ایک ویڈیو گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پروائرل ہوئی، پہلی بدقسمتی یہ ہے کہ سوشل میڈیاکی آب وہوا کو ہمارے معاشرتی مزاج کا متبادل سمجھ لیا گیا ہے، چنانچہ سوشل میڈیا پررائج رجحانات (ٹرینڈز)ہمارے قومی مباحث کا حوالہ بننے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ ان رجحانات کی تشکیل پر ہماری ذہانتیں، صلاحیتیں اور وسائل جھونکے جانے لگے ہیں۔ اتنی کھوکھلی، پوپلی اور بھربھری سوچ کا چلن انسانی سماج میں شاید ہی کبھی رہا ہو۔ سوشل میڈیا پر مختلف رجحانات نے ملک ریاض کی بیٹیوں اور اداکارہ کے حوالے سے قومی مباحث اور بیانیوں کی تشکیل کی پنجہ آزمائی شروع کردی۔ سب اپنا اپنا لچ تلنے لگے۔ ایک لبرل عورت کو اس پر غصہ تھا کہ اداکارہ نے ویڈیوز میں بات کرنے سے پہلے دوپٹہ سر پر لینا کیوں ضروری سمجھا؟ اسی طرح کسی کو اس پر اعتراض تھا کہ ملک ریاض کی بھتیجی نے دوسری ویڈیو میں جب اپنے گھر کا دکھڑا رویا تو اپنے شوہر کو کیوں نہیں سنبھالا؟ پتہ نہیں ہم انسانی جسم کے کس حصے سے سوچتے ہیں؟ جب یہ ویڈیوز منظر عام پر آئیں، تو اس خاکسار نے جب سے اب تک مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سینکڑوں لوگوں سے رابطوں پر ایک سوال پوچھا، اس سب کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ سب کے جواب میں بلااستثنیٰ یکسانیت تھی۔”کچھ لے دے کے معاملہ ختم ہو جائے گا“۔ پورے سماج کی عمومی تشکیل کا بنیادی مزاج بس یہی ”لے دے“ والا معاملہ ہے۔ اس مزاج نے قانون، انصاف اورسماجی اقدار کو یرغمال بنالیا ہے۔ ہمارے اجتماعی تشخص میں شامل حیا، وفا، دَیااور تربیت کے تناظر کو اُٹھا کر پھینک دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ پورا معاشرہ ایک منڈی ہے، ہر چیز کی ایک بولی ہے۔ منڈی کے باہر ایک بڑا سا بورڈ لگا ہوا ہے، جہاں کسی اشتہار کا یہ فقرہ لکھا ہوا ہے کہ ”یہاں ہر چیز بکتی ہے“۔
سابق امریکی صدر ہربرٹ ہوور کا ایک فقرہ قومی کردار کے حوالے سے بہت مشہور ہواکہ

.National character can not be built by law

.It is the sum of the moral fiber of its individuals

ہمارے باب میں ایسا لگتا ہے کہ ہمار ے اوپر جیسے”برائے فروخت“ کا کردار انفرادی سطح پر بھی مسلط کردیا گیا ہو۔ ہر ایک اس معاشرے میں کسی نہ کسی سطح پر لین دین کے کسی نہ کسی عمل میں کہیں نہ کہیں حصہ بننے پر مجبور ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک ریاض اور عظمیٰ خان یہ کیوں نہ کریں؟یہی تو ہمارے معاشرے کے چھوٹی بڑی سطح کے عمومی مناظر ہیں۔ یہ مناظرکتنے ہی بُرے ہوں ہمارا روزمرہ ہے۔ صحافت سے سیاست، معاشرت سے معاشیات تک ہر نہج پر یہی سوچ دخیل ہے۔ اس کی بہیمت نے ہمیں جہاں دھکیل دیا ہے،اس کا دور دور تک کہیں کوئی احساس تک نہیں۔ یہ سمجھنے کی کوشش ایک الگ موضوع ہے۔ پاکستا نی سماج کی تعمیر اُصولوں اور اقدار پر نہ کی گئی تو یہ معاشرہ ملک ریاضوں اور عظمیٰ خانوں کے رحم وکرم پر رہے گا۔ ہمارا ”اچھا بُرا“بھی اُن کے ہی کردار کے رحم وکرم پر ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر