... loading ...
دنیا بڑے تغیرات کے دہانے پر جاپہنچی ہے۔ پاکستان میں رہ کر ہم کتنا ہی داخلی سیاست میں الجھ جائیں کسی طور بھی اپنے آپ اس بین الاقوامی تبدیلیوں سے الگ نہیں کرسکیں گے۔ معاشی اور معاشرتی تقاضوں میں جوہری تبدیلیوں کا وقت شروع ہوچکا ہے۔ جہاں امریکی انتظامیہ کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ،وہاں بھارت کی مودی سرکار کا ہر قدم الٹ پڑ رہا ہے ، سکم میں چین نے بھارت کو جھٹکا لگا دیا ہے تو نیپال جیسا ملک شمالی یوپی کا بڑا علاقہ اپنے اندر ضم کر چکا ہے۔ یقینی بات ہے کہ بھارت اس میں بھی چین کا ہاتھ تلاش کرے گا۔سکم اور نیپال کے ساتھ بھارت کی سات ریاتیں جن میں علیحدگی کی تحریکیں برسوں سے چل رہی ہیں وہ اپنی جگہ زور پکڑتی نظر آرہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مودی اور اس کے اجیت دوال کو امریکا اور اسرائیل ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیں گے کیونکہ چین اور افغانستان میں انہوں نے جو کردار بھارت کے ذریعے ادا کرنا تھا وہ تو ہوتا نظر نہیں آرہا۔ البتہ بھارت کو اپنے اندر کے مسائل مزید گھیرتے نظر آرہے ہیں۔ چین جس انداز میں تیزی کے ساتھ سی پیک پر کام کررہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے مسائل اپنے طور پر حل کرنے کی کوشش کررہا ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بھارت کی علاقائی مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت اور زیادہ ہو جائے گا کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ خطے میں بھارت کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا یہ تمام معاملات اپنی جگہ لیکن عالمی سطح پر جو تبدیلیاں ہونے جارہی ہیں وہ حیران کن کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ بھی ہوسکتی ہیں۔
جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ تمام دنیا کو کورونا وائرس کی وبا نے اپنی لپیٹ میں لیا اور عالم انسانیت پہلی مرتبہ بین الاقوامی سطح پر ایک بڑے لاک ڈائون سے متعارف ہوئی جس نے زندگی کو ایک طرح سے روک دیا۔ کورونا وائرس اور اس کے اس عالمی پھیلائو کے پیچھے کیا مقاصد تھے اس پر ہم بہت سے پہلوئوں پر پہلے تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں جس میں دنیوی اور مذہبی دونوں پہلو شامل ہیں۔ لیکن آج میں یہاں اس صوتحال پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا جو اس وبا کے بطن سے جنم لی چکی ہے اور معاشی، مالیاتی، جغرافیائی اور معاشرتی تغیرات کی شکل میں سامنے آنے والی ہے۔اس تمام تناظر میں جہاں جغرافیائی سطح پر عالمی طاقت کے محور اپنی جگہ سے ہل چکے ہیں وہاں سب سے خطرناک صورتحال واپسی کے نام پر وہ ایک بڑی عالمی ہجرت ہوگی جس میں گذشتہ ستر اسی برسوں کے دوران ایک خطے سے نکل کر دوسرے خطوں میں آباد ہوجانے والے لاکھوں کروڑوں افراد کی اپنے اپنے آبائی خطوں کی جانب واپسی ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حالیہ صورتحال میںمالیاتی نظام کی تباہی کے بعد پیداشدہ حالات ہیں جس کا سب سے بڑا نشانہ ترقی یافتہ ممالک جن میں امریکہ، کینیڈا، یورپ شامل ہیںبنے ہیںان خطوں میں بسنے والے لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے ہیںلاک ڈائون نے یہاں کی ائر لائن انڈسٹری، ہوٹل انڈسٹری ، سیاحت کی انڈسٹری، بڑی بڑی صنعتوں کو تباہ کردیا ہے۔ کام کرنے کی وہ جگہیں جو پرہجوم ہوا کرتی تھیں ویران ہوچکی ہیں، مغرب خصوصا امریکا کا وہ بینکنگ سسٹم جو عالمی مہم جوئیوں کے دوران ادائیگیوں کے نظام کو متوازن رکھنے کے لئے ذخیرہ شدہ سونے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ نوٹ چھاپ کر اپنا مالیاتی بھرم قائم رکھتا تھا طشت ازبام ہوچکا ہے۔اس تمام صورتحال کا مقابلہ یہاں کی انتظامیہ یا تو چین پر الزام تراشیوں کی شکل میں کررہی ہے یا کسی وقت بھی اسے بڑے عسکری تصادم کی شکل دے سکتی ہے لیکن ان دونوں طریقہ کار سے عوام کا تو پیٹ نہیں بھرے گا ماضی کے ستر اسی برسوں کی معاشی آسودگیوں کی عادی قومیں بھلا کیونکر اپنے ہاں ایشیائی خصوصا مسلمان آباد کاروں کو اپنے درمیان برداشت کر پائیں گی یہ اپنی جگہ ایک اہم سوال ہے۔۔۔۔ بہرحال اس تمام صورتحال کے نتائج آج نہیں تو چند ماہ بعد یا زیادہ سے زیادہ ایک دو برسوں میں سامنے آنا شروع ہوجائیں گے اور یوں سب سے بڑی تان ان ایشیائی اور افریقی آباد کاروں پر ٹوٹے گی جو کئی دہائیوں قبل معاشی آسودگی اور اعلی طرز زندگی کو اپنانے کے خواب آنکھوں میں سجاکر امریکا، کینیڈا اور مغربی ممالک میں جابسے تھے اور اب ان کی چوتھی یا پانچویں نسل وہاں پروان چڑھ رہی ہے، پاسپورٹ کی حد تک وہ وہاں کے شہری سمجھے جاتے ہیںلیکن یہ بھی بہت جلد محض کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھے گا۔وہاں کے نظام کی پائیداری کی بنیاد پر وہ معاشی طور پر کئی حوالوں سے مقامی آبادی سے بھی زیادہ مستحکم ہوچکے ہیں اربوں ڈالر کے کاروبار اور جائیدادیں بنا چکے ہیں، لیکن موجودہ صورتحال کے پیش نظر معاشی بدحالی جب اپنا رنگ دکھائے گی اور بھوک کا جادو سرچڑ کر ناچے گا تو ان خطوں میں موجود حکومتیں اور عوام یہاں کے بچے کچے معاشی فوائد میں پہلا حق اپنا سمجھیں گے اور آباد کاروں کے لئے ایسی صورتحال پیدا کی جائے گی کہ وہ اپنے اپنے آبائی علاوہ کی جانب لوٹ جائیں ، نہ صرف لوٹ جائیں بلکہ جو کچھ کمایا اور بنایا ہے وہ یہیں چھوڑ کر جائیں۔ تاریخ کا سبق تو یہ ہے کہ ہمارے مغربی آقا اس رجحان میں خاصے بے رحم ہیں جب وہ استعماریت کے ذریعے قابض ایشیائی اور افریقا کے وسائل کو اپنے باپ کا مال سمجھ کر لوٹ رہے تھے تو بھلا اپنی ہی سرزمین پر آباد کاروں کے بنائے جانے والے اربوں ڈالر کے اثاثوں سے کیسے دستبردار ہوجائیں گے۔ ذرا سوچئے آج ہی کے دن کے لئے تیسری دنیا کے حکمرانوں کو اپنے اپنے ملکوں میں لوٹ مار کی کھلی چھٹی دی جاتی تھی تاکہ لوٹ کا مال مغربی بینکوں میں رکھیں، انہیں مزید استحکام بخشنے کے لیے یہاں جائیدادوں کی خرید وفروخت کا کاروبار کریں اب یہ سب کچھ ان مغربی ملکوں کی جیب میں چلا جائے گا ان میں ایشیائی ممالک کے سیاستدان بھی ہیں اور غیر سیاسی شخصیات بھی ، یقینا آپ میرا اشارہ سمجھ گئے ہوں گے۔ممکن ہے یہ حقائق آج مذاق لگیں لیکن کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر صرف دو برس پہلے کوئی آپ کو نیویارک، بیجنگ اور یورپ کی خالی سڑکوں کا ہی نظارہ کرا دیتا تو آپ حیرت کے سمندر میں ڈوب نہ جاتے؟ لیکن یہ سب کچھ آج ہماری آنکھوں کے سامنے اور ناک کے نیچے ہورہا ہے۔ تو ناظرین محترم یہ وہ تکلیف دے حقیقت ہے جس سے دنیا اب دوچار ہونے جارہی ہے۔
عالمی سطح پر تبدیل شدہ طرز زندگی کو اس طرح دیکھا جارہا ہے کہ کاروباری، تعلیمی اور عالمی سیاحت کے معاملات مکمل طور پر تبدیل ہوجائیں گے۔ بڑی بڑی کاروباری عمارتوں کا مصرف ہی نہیں رہے گا انہیں رہائشی عمارتوں میں تبدیل کردیا جائے گا، آفیشل کام کے لئے گھروں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس رجحان کی وجہ سے پراپرٹی کی قیمت بہت نیچے آجائے گی ،تعلیم پہلے ہی آن لائن پر آچکی ہے اس لئے بڑے بڑی اسکولوں کالجوں کی عمارات اپنی وقعت کھو دیں گی۔نقل وحرکت کے محدود ہوجانے کی وجہ سے وہ ملک جن کی اقتصادیات کا دارومدار تیل پیدا کرنے اور اسے فروخت کرنے پر ہے بری طرح متاثر ہوں گے سیاحت کی انڈسٹری ہوائی سفر کی کمی کی وجہ سے متاثر ہوجائے گی اس لئے یہاں بھی جیٹ فیول کے کم استعمال سے تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں رہی سہی کسر نکل جائے گی۔ تیل کے کنویں سے چونکہ پیداوار بند نہیں کی جاسکتی اس لیے چاہے پانی کی قیمت پر فروخت کرنا پڑے کرنا پڑے گا کیونکہ ایک مرتبہ پیداواری کنویں کو بند کر دیا جائے تو اس کا دوبارہ اجراء ناممکنات میں سے ہوتا ہے اس کے لیے پھر مناسب فاصلے پر دوبارہ ڈرلنگ کرنا پڑتی ہے جو انتہائی مہنگا کام ہوتا ہے۔اس لئے ہمارے تیل پیدا کرنے والے عرب بھائی جلد خیموں میں لوٹتے نظر آرہے ہیں۔ان حالات کے تناظر میں دنیا رویوں کے لحاظ سے بھی جوہری تبدیلیوں کے محور میں آئے گی ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان تبدیل ہوتے حقائق کے لئے ہم ذہنی طور پر تیار ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔