وجود

... loading ...

وجود

سندھ میں کورونا وائرس اور گورنر راج کے بڑھتے امکانات؟

جمعرات 28 مئی 2020 سندھ میں کورونا وائرس اور گورنر راج کے بڑھتے امکانات؟

سندھ میں ابھی کورونا وائرس کا بحران پوری طرح سے ختم بھی نہ ہوا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے سامنے صوبہ میں گورنر راج کی صورت میں ایک بڑا ’’سیاسی بحران ‘‘ جنم لینے کا سنجیدہ امکان پیدا ہوگیا ہے۔بظاہر اٹھارویں ترمیم کی موجودگی میں وفاقی حکومت کے لیے سندھ میں گورنر راج کا نفاذ آسان کام نہیں ہے لیکن اِس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں ہے کہ سندھ میں گورنر راج نافذ کرنا ایک ایسا ناممکن کام ہے ،جس پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔سچی بات تو یہ ہے کہ اگر وزیراعظم پاکستان عمران خان ایک بار سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کی ٹھان لیں تو نہ صرف اگلے ہی دن سندھ میں گورنر راج اپنی پوری انتظامی طاقت سے ساتھ نافذ العمل ہوجائے گا بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس بھی اِس آئینی اقدام کو بلاچوں چراں کے قبول کرنے کے سوا کوئی اور آپشن باقی نہیں بچے گا۔ اِس لیے یہ سوچنا کہ سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کا مطالبہ تحریک انصاف اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس المعروف جی ڈی اے نے بلاوجہ ہی داغ دیا ہے ۔بعض سیاسی تجزیہ کاروں کی اِس خام خیالی کو ’’سیاسی خود فریبی ‘‘ سے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔کیونکہ ہماری ناقص رائے میں تحریک انصاف سندھ اور جی ڈی اے کے اِس سیاسی مطالبہ کے پس پردہ وفاقی حکومت اور دیگر مقتدر حلقوں کی بھرپور حمایت اور اعانت بھی شامل ہے ۔ یعنی اگر پاکستان پیپلزپارٹی نے وفاقی حکومت کے سیاسی خواہشات کے عین مطابق اپنا ’’سیاسی قبلہ ‘‘درست کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی تو سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے میں کسی بھی طرح پس و پیش سے کام نہیں لیا جائے گا۔
وفاقی حکومت کا سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ کورونا وائرس کے خلاف بنائی گئی تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس کے ایک لاکھ ستاون ہزار رضاکاروں کے کام میں کسی بھی طرح کی انتظامی یا سیاسی رخنہ اندازی ڈالنے سے نہ صرف باز رہے بلکہ اگر ضرورت پڑے تو سندھ حکومت ٹائیگر فورس کوانتظامی امداد فراہم کرنے میں اپنا حصہ بقدرِ جثہ بھی ضرور ڈالے ۔ وفاقی حکومت کا یہ مطالبہ پورا کرنا سندھ حکومت کے لیے اِس لیے کچھ مشکل ہوگا کہ ٹائیگرفورس کے رضاکار اگر ایک بار سندھ بھر میں متحرک ہونے میں کامیاب ہوگئے تو پھر پاکستان پیپلزپارٹی کی برس ہا برس سے سندھ میں کی گئی ساری ’’سیاسی محنت‘‘ مکمل طور پر ضائع ہوجائے گی اور سندھ کے عوام کے اذہان میں اَب تک جو یہ خیال پیپلزپارٹی نے بٹھایا ہواہے کہ سندھ میں اُن کی سیاسی جماعت کے علاوہ کوئی دوسری سیاسی جماعت صوبہ بھر میں متحرک ہونے کی سیاسی صلاحیت نہیں رکھتی ،یہ دیومالائی تصور بھی بھاپ بن کر ہوا میں اُڑ جائے گا۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی کی قیاد ت کو یہ بھی اندیشہ ہے کہ ٹائیگر فور س مستقبل میں تحریک انصاف کو سندھ بھر میں سیاسی طور پر منظم کرنے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کرسکتی ہے ۔ ٹائیگر فور س کے یہ ہی وہ مضر سیاسی اثرات ہیں جن کے باعث پاکستان پیپلزپارٹی اِسے کسی بھی صورت سندھ میں برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی اور اِسی لیے سندھ حکومت کی جانب سے ٹائیگر فور س کے رضاکاروں کو سندھ میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاری ہے ۔ گوکہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اپنی قیادت میں بہت جلد ٹائیگر فور س کو متحرک کرنے کا اعلان کردیا ہے لیکن یاد رہے کہ جب بھی ٹائیگر فورس وفاقی اداروں کے تحت ذرا سی بھی ’’سیاسی حرکت ‘‘کرنے کی کوشش کرے گی تو اُس کا سندھ حکومت کے ساتھ تصادم ناگزیر ہوجائے گااور اِس تصادم کا حتمی نتیجہ سندھ میں گورنر راج کے نفاذ تک بھی پہنچ سکتاہے ۔ جس کا اشارہ تحریک انصاف اور جی ڈی اے کے اراکین سندھ اسمبلی واشگاف لفظوں میں پہلے ہی دے چکے ہیں ۔ یعنی یہ ایک اشارہ بھی اور ایک پیغام میں اور اگر کوئی سمجھنا چاہے تو سیدھی سادی سیاسی دھمکی بھی ۔
سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کا دوسرا بنیادی سبب این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی کاوسیع البنیاد ’’انتظامی فارمولا ‘‘بھی بن سکتا ہے ۔ حالات و واقعات صاف صاف بتارہے ہیں کہ وفاقی حکومت این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم میں کئی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنے کا پوری طرح سے نہ صرف ارادہ کرچکی بلکہ جلد ازجلد اُن تبدیلیوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کے علاوہ اپوزیشن کی دیگر تمام جماعتوں کے ساتھ سلسلہ جنبانی بھی دراز کردیاگیا ہے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی کئی جماعتوں کی جانب سے وفاقی حکومت کو گرین سگنل دے دیا گیا ہے اور غالب اِمکان یہ ہے کہ رواں برس ہی اپوزیشن کی چند ضروری سیاسی جماعتیں ،عین آخری لمحہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کو داغِ مفارقت دے کر وفاقی حکومت کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی ہوکر این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم کا معاملہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نمٹا دیں گی جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی بس سیاسی شور شرابہ کرتی رہ جائے گی اور اگر اِس نے سنجیدہ سیاسی احتجاج کی طرف اپنے قدم بڑھانے کی کوشش بھی کی تو سندھ میں گورنر راج کو فی الفور نافذ کرکے پیپلزپارٹی کو اُلٹے قدموں واپس ہونے پر مجبور کردیا جائے گا۔
ویسے بھی کورونا وائرس کے انسداد کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے گزشتہ دو ماہ میں اتنے زیادہ غیر مقبول اور غیر پسندیدہ انتظامی فیصلے کرلیے ہیں کہ صوبہ بھر میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاسی حمایت میں زبردست گراوٹ آچکی ہے ۔جبکہ وفاقی حکومت ،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی بھرپور انداز میں یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کورونا وائرس سے لڑتے لڑتے سندھ کی غریب عوام سے مکمل طور پر بے پرواہ اور لاتعلق ہوگئے ہیں ۔حالانکہ کورونا وائرس کے خلاف جو اقدامات وزیراعلیٰ سندھ نے کیے ہیں کم و بیش ویسے ہی اقدامات دیگر صوبوں کے وزراء اعلیٰ نے بھی کیے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی زبردست میڈیا منیجمنٹ نے لاک ڈاؤن کو مکمل طورپر وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کی سیاسی خواہشات کے ساتھ نتھی کرنے میں فقید المثال کامیابی حاصل کرلی ہے اور دلچسپ با ت یہ ہے کہ پاکستان بھر کی طرح سندھ کی اکثر عوام نے بھی اِس تاثر کو قبول کرنا شروع کردیا ہے ۔لہذا اگر سندھ حکومت دو ،چار مزید سخت قسم کے لاک ڈاؤن کرکے سندھ سے کورونا وائرس کا کسی نہ کسی حد تک خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوبھی جاتی ہے تواِس سے سیاسی طور پر سندھ حکومت کوکسی بھی قسم کا فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا ۔کیونکہ کورونا وائرس کے انسداد کے لیے کئے گئے وزیراعلیٰ سندھ کے غیر مقبول فیصلے صوبے میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاسی مقبولیت کے لیے زہرِ ہلاہل ثابت ہورہے ہیں اور اگر پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی نے اِس جانب فی الفور توجہ نہیں دی تو وفاقی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ہر طرح کی صورت حال کا تمام تر ذمہ دار وزیراعلیٰ سندھ کو ٹہراتے ہوئے کسی بھی وقت سندھ حکومت کے سامنے گورنر راج کا فل اسٹاپ لگایا جا سکتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر