... loading ...
دوستو،چین کے سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں پیشگی معلوم کرنے کا طریقہ دریافت کر لیا ہے کہ کورونا وائرس کے مریض کی اس وباء سے موت ہو گی یا نہیں اور اس طریقے سے حیران کن طور پر 90فیصد درستگی کے ساتھ یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔برطانوی اخبار کے مطابق ووہان کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں بتایا ہے کہ مریضوں کے جسم میں تین بائیولوجیکل اشارے موجود ہوتے ہیں جو نشاندہی کرتے ہیں کہ آئندہ دنوں میں اس مریض کی موت ہو گی یا نہیں۔سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ان تین اشاروں میں مریض کے جسم میں ایک انزائم کا موجود ہونا، جس کا تعلق بافتوں کی شکست و ریخت کے ساتھ ہوتا ہے، دوسرا ان کے جسم میں ایک مخصوص پروٹین کا موجود ہونا، جو انفلیمیشن کے دوران پیدا ہوتا ہے اور تیسرا اشارہ مریضوں کے خون میں لمفوسائٹ وائٹ بلڈ سیلز کی تعداد کم ہونا۔ یہ تین ایسے اشارے ہیں کہ جن مریضوں میں پائے جائیں ان میں 90فیصد تک موت کا امکان ہوتا ہے اور یہ اشارے ان کی موت سے 10دن پہلے ان کے جسم میں موجود ہوتے ہیں۔
آج عید الفطر ہے۔۔ رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے والوں کو دلی عید مبارک ۔۔ جو لوگ اس بار بھی رمضان المبارک میں عبادتیں نہ کرسکے ،ان پر افسوس ہی کرسکتے ہیں کیوں کہ لاک ڈاؤن کی صورت میں قدرت نے ایسا نادر موقع دیا تھا کہ سوائے گھر میں بیٹھ کر عبادت کے علاوہ کوئی کام نہیں تھا۔۔ لیکن چلیں، آپ سب کے لیے دعائیں کہ اللہ پاک مجھ سمیت تمام مسلمانوں کو رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ اجر کمانے کا موقع دے اور ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق بھی عطا کرے۔آمین۔۔ملک میں ایسی وبا ہے جس نے زندگی کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ حکومت نے جو حفاظتی تدابیر دی ہیں عید پر ان پر عمل کیا جائے۔ عید پر ایسی جگہوں پر اکٹھے نہ ہوں جہاں زیادہ لوگ ہوں، احتیاط بہت ضروری ہے ہمیں ذمہ داری کا ثبوت دینا ہے۔ عیدیں انشا اللہ آتی رہیں گی، اللہ نے ہمیں جس امتحان میں ڈالا ہے اس کے لیے ہمیں اپنی طرف سے حصہ ڈالنا ہوگا تاکہ اس وبا سے نبرد آزما ہوسکیں۔موجودہ حالات کے تناظر میں گھروں میں رہنا ہی محفوظ زندگی کی ضمانت ہے۔حکومت اور طبی ماہرین کے بتائے گئے طریقہ کار پر سختی سے عمل در آمد کیا جائے۔دنیاکی تمام خوشیاں زندگی سے مربوط و مشروط ہیں لہٰذا اپنی زندگی کی حفاظت ہر حالت میں مقدم جانیں۔ اعزا و اقربا ، دوست و احباب، ہمسائیوں، محلے داروں، غرباء ، فقرائ، مساکین اور مستحقین کو حسب گنجائش تحفے تحائف اور مالی امداد لازمی پہنچائیں تاکہ سماجی دوری کے اس ماحول میں دلوں کی قربت، اللہ کی رضا ء اور روحانی منفعت کے فیوض وبرکات بھر پور سمیٹے جا سکیں۔اس عید پر ہم روایتی انداز میں گلے نہیں مل سکیں گے کیونکہ اس سے کورونا وائرس کے پھیلاو کا خدشہ ہے۔ اس بار اپنے پیاروں کو دور سے عید مبارک کہیں تاکہ کورونا کو پھیلاو کا موقع نہ ملے۔۔
باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔قصائی بڑی عید کا درزی ہوتا ہے اوردرزی چھوٹی عید کا قصائی ہوتا ہے۔۔افطار کے بعد چائے کی ایک چسکی شربت کی ہزار چسکیوں سے بہتر ہے۔۔پورے رمضان سرکاری ٹی وی سے اردوڈبنگ میں دکھائے جانے والے ترکش ڈرامے ارطغرل غازی کا چرچا رہا۔۔ ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ۔۔۔ترکی کی لڑکیاں چھ،چھ فٹ لمبی ہوتی ہیں اور ہماری والیاں ہوتی تو چار فٹ کی لیکن زبان بارہ فٹ سے کم نہیں ہوتی۔۔ باباجی نے بھی ایک درفطنی دی،کہا۔۔ کسے معلوم تھا کہ اس بڑھاپے میں بھی گرمیوں کی دو ماہ کی چھٹیاں مل جائیں گی۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد انکشاف ہوا کہ یہ لوگ غربت اور بھوک سے نہیں بلکہ خریداری کے لیے مررہے تھے۔۔ باباجی بتارہے تھے کہ وہ اپنے پوتے کو گھر میں ٹیوشن بھی دیتے ہیں جب انہوںنے اپنے پوتے کو ’’خودمختار‘‘ کا جملہ بنانے کے لیے کہا تو پوتے نے جملہ کچھ یوں بنایا۔۔۔ ندیم افضل چن نے خود مختار کو فون کرکے کہاکہ مختاریاگھر وڑجا، باہر کرنل دی بیوی دسدی پئی اے۔۔۔باباجی کا کہنا ہے کہ،پہلے تو غامدی صاحب سے میرا صرف فکری اختلاف تھا،پھر یوں ہواکہ ایک دن ان کے سوال ،جواب سیشن کی ایک وڈیو دیکھی جس میں وہ فرمارہے تھے۔۔حور ایک علامتی نام ہے۔ جنت میں اپنی بیوی ہی دوبارہ ملے گی۔۔یہ سنتے ہی میرا ان سے فکری اختلاف ختم اور ذاتی دشمنی شروع ہو گئی۔۔
باتیں تو ہوتی رہیں گی۔۔ یہ عید چھوٹے بچوں کی عید کہلاتی ہے کیوں کہ اس عید پر بڑے تمام بچوں کو عیدیاں دیتے ہیں۔۔تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عیدی دینے کی روایت کا آغاز مصر میں فاطمی ریاست کے دور سے ہوا جہاں خلیفہ وقت عید کے موقع پرسپاہیوں اور فوج کے جرنیلوں کو عطیات اور تحفے تحائف دیتے تھے۔ بعد ازاں اعیان سلطنت نے بھی خلیفہ کی دیکھا دیکھی اپنے ماتحتوں کو تحفے دینا شروع ہوگئے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جہاں فاطمی ریاست کے وسائل، مسائل سے زیادہ ہوگئے تو خلیفہ کی طرف عوام الناس کو رقوم کے علاوہ عید کے جوڑے تقسیم ہونے لگے۔ بس پھر کیا تھا، لوگوں کو تو کوئی بہانہ چاہیے، جلد ہی عوام میں یہ رجحان عام ہونے لگا اور وہ عید کے موقع پر بچوں میں چھوٹی موٹی رقوم اور جوڑے تقسیم کرنے لگے۔مصر میں فاطمی ریاست عروج پر پہنچنے کے بعد زوال کا شکار ہوگئی مگر اپنے پیچھے عیدی کی روایت چھوڑ گئی۔ بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس روایت کو برقرار رکھا۔عثمانی ریاست کے دور میں بھی عیدی دینے کی روایت کے ثبوت ملتے ہیں مگر اس میں وقت کے ساتھ تبدیلی یہ ہوئی کہ جسے عیدی دی جا رہی ہوتی ہے اسے اس کی حیثیت کے مطابق عیدی دی جانے لگی۔ وزرا اور اعیان سلطنت کو سونے کے سکے دیے جاتے تھے۔ ان سے کم رتبے والوں کو چاندی کے سکے ملتے تھے۔ اسی طرح رتبہ کم ہوتے ہوتے جب معاملہ بچوں تک پہنچتا تو چند سکے انہیں بھی دیے جانے لگے۔اس وقت سے لے کر آج تک عید کے تہوار میں بچوں میں عیدی دینے کی روایت مستحکم ہو گئی۔
نیوٹن دنیا کا مشہور سائنس دان تھا۔ اس کے تین قوانین آج بھی دنیا بھر میں پڑھائے جاتے ہیں۔ نیوٹن سے کسی نے ایک بار پوچھا‘تم سے پوری دنیا متاثر ہے‘ کیا آج تک تمہیں بھی کسی نے متاثر کیا‘ نیوٹن نے مسکرا کر جواب دیا ’’ہاں میرے ملازم نے‘ پوچھنے والے نے پوچھا‘وہ کیسے‘ نیوٹن بولا‘میں سردیوں میں ایک بار ہیٹر کے پاس بیٹھا تھا‘ مجھے اچانک گرمی محسوس ہونے لگی‘ میں نے اپنے ملازم کو بلوایا اور اس سے ہیٹر کو دھیما کرنے کی درخواست کی۔۔ملازم میری بات سن کر ہنسا اور کہا‘جناب آپ بھی بڑے دلچسپ انسان ہیں‘ آپ کو اگر گرمی محسوس ہو رہی ہے تو آپ مجھے آواز دینے یا ہیٹر دھیما کرنے کی بجائے اپنی کرسی کو گھسیٹ کر آگ سے ذرا سا دور کر لیتے‘ آپ کا مسئلہ فوراً حل ہو جاتا‘ نیوٹن کا کہنا تھا‘میرے ملازم کا بتایا ہوا وہ اصول میرے تینوں اصولوں پر بھاری تھا‘ اس نے مجھے زندگی کا سب سے بڑا سبق دیا اور یہ سبق یہ تھا کہ اگر آپ کو گرمی لگ رہی ہے تو آپ آگ بجھانے کی بجائے یا کسی کو مدد کے لیے طلب کرنے کی بجائے‘ اپنی کرسی کو آگ سے ذرا سا دور ہٹا لیں‘ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔اس نے مجھے سبق دیا تھا کہ اگر آپ رزق کی تنگی کا شکار ہیں تو آپ اپنے آپ کو خواہشات کی انگیٹھی سے دور کر لیں‘ آپ قناعت اختیار کر لیں تو آپ بہت سے مسائل سے بچ جائیں گے‘ آپ اللہ کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔