... loading ...
ایک طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی اپنے ہی دور کے گزشتہ سال پیدا ہونے والے آٹا اور چینی کی قلت کے بحران اور ان کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ کے لیے قائم کیے جانے والے کمیشن کی فرانزک آڈٹ رپورٹ پبلک کردی گئی ہے جس کے مطابق شوگر ملز مالکان کے کارٹل کی جانب سے کیے جانے والے پیداواری گھپلے،ڈبل کھاتے،کم قیمت پر گنّے کی خریداری،بغیر اجازت شوگر کی زائید پیداوار،ٹی ٹی کے ذریعے رقوم کی وصولی،سٹے بازی اور دیگر اقسام کی ہیرا پھیری کے الزامات کو درست پایا گیا ہے ،رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ چینی کے بحران کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمات قائم کرکے لوٹی ہوئی رقوم بازیاب کی جائیں جن کو متاثرہ کسانوں اور عوام میں تقسیم کیا جائے۔تحقیقاتی کمیشن نے چینی کے بحران کاذمہ دار ریگولیٹر اداروں کو قرار دیا ہے جن میں شوگر ایڈوائیزی بورڈ،سیکورٹی ایکسچینج کارپوریشن آف پاکستان،(ایس ای سی پی) مسابقتی کمیشن، فیڈرل بورڈ آف ریوینیو،(ایف بی آر) اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان سمیت دیگر وفاقی اور صوبائی اداروں کو قرار دیا ہے جن کی غفلت کی بنا پر یہ بحران پیدا ہوا اور آٹے و چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔
واضح رہے کہ انکوائیری کمیشن نے یہ تحقیقات دسمبر 2018سے اگست2019 کے دوران چینی کی قلت کے مصنوعی بحران کے بارے میں کی اور اس بات کا پتہ چلایا کہ اس عرصہ میں چینی کی قیمتوں میں 33فیصد اضافہ کیونکر ہوا جبکہ اصل میں یہ اضافہ 17روپے فی کلو گرام بنتا تھا۔رپورٹ کے مطابق ہر سال گنے کی کرشنگ کے بعد چینی کی قیمت کا تعین شوگر ملز مالکان کرتے ہیں جو ہر حکومت تسلیم کرلیتی ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2017-18میں چینی کی لاگت 51روپے فی کلو بتائی گئی تھی جبکہ کمیشن نے یہ جانچا کہ یہ لاگت 38روپے فی کلو تھی اس طرح چینی کی قیمت 13روپے فی کلو زیادہ مقرر کی گئی تھی۔اسی طرح 2018-19 میں 12 روپے زیادہ وصول کیے گئے جبکہ 2019-20میں اس کی قیمت میں 16روپے فی کلو کا فرق پایا گیا تھا۔وزیر آعظم کے مشیر برائے احتساب کے مطابق چینی کی قیمت میں ایک روپے فی کلو زائید قیمت وصول کرنے سے شوگر ملز مالکان کو 5ارب روپے سے زائید منافع ملتا ہے تو اندازہ لگائیں کہ ہر سال بارہ سے پندرہ روپے فی کلو چینی کی زائید قیمتوں کی وصولیابی کی بنا پر کتنا بھاری منافع شوگر کارٹل ڈکار گیا ہے۔
اب جبکہ چینی کے بحران سے متعلق رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے تو ایک بار پھر سیاست کا بازار گرم ہوگیا ہے ، حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتیں ایکدوسرے پر الزام تراشی کے لیے صف آراء ہوچکی ہیں۔پی ٹی آئی کے رہنماوں کی جانب سے شہباز شریف کے بیٹوں اور آصف ذرداری کے اومنی گروپ کو اس لوٹ کھسوٹ کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے تو دوسری جانب سے حزب اختلاف کی جانب سے عمران خان،اسد عمر،صدیق داود،عشمان بزدار،جہانگیر ترین،خسرو بختیار اور مونس الہی کو اس بحران کاذمہ دار بتا یا جارہا ہے۔بظاہر تو یہ ملکی سیاست میں یہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کوئی حکمراں جماعت اپنے ہی دور حکومت میں وسیع پیمانے پرکی جانے والی کسی قسم کی بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف شائید ہی کوئی تحقیقاتی کمیشن بناتی ہے ۔کیونکہ ہمارے ملک میں یہ عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اگر کسی مسلہ کو دبانا ہو یا ٹھنڈا کرنا مقصود ہو تو تحقیقاتی کمیشن بنادیا جائے پھر کچھ عرصہ کے بعد کسی کو یاد نہیں رہتا ہے کہ رپورٹ کہاں آئی اور کہاں چلی گئی۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ وزیر آعظم عمران خان نے ایک دلیرانہ فیصلہ کرکے ان کے ہی دور حکومت کے دوران گزشتہ سال پیدا ہونے والے آٹے اور چینی کی قلت کے بحران اور قیمتوں میں اضافہ کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا جس کا ذمہ دار ان کی کابینہ میں شامل افراد اور انکے قریبی ساتھیوں کے نام لیے جارہے تھے۔تحقیقاتی کمیشن ان کی ہی حکومت کے ایک ماتحت ادارہ ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیاء کی زیر نگرانی قائم کیا تھا جس کو اکتوبر 2018سے اگست 2019 کے عرصہ کے دوران یعنی آٹھ ماہ کے عرصہ میں پیدا ہونے والے معاملہ کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنی تھی لیکن کمیشن نے اپنے ٹی آر اوز کو نظر انداز کرتے ہوئے تحقیقات کا دائیرہ پانچ سال کے عرصہ تک پھیلا کر اس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے رہنماوں کو بھی شامل کرلیا اور اور ثابت کردیا کہ سرکاری افسر کتنے ہی اہم اور بڑے عہدہ پر ہی کیوں نہ فائیز ہو ں حکمراں جماعت کے لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیاء نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کی ایک بڑی واردات جس میں عمران خان ہی کی کابینہ کے لوگ ملوث تھے اس میں گزشتہ پانچ سال کا حساب کتاب شامل کرکے شہباز شریف اور آصف ذرداری کا نام ڈال کر اپنے وزیرآعظم کو دل کو ٹھنڈک پہنچائی ہے جو سب سے زیادہ اہمیت اپنے مخالفین کو جیل میں ڈلوانے اور سزائیں دلوانے کو دیتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شوگر مافیا کی لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے اکتوبر 2019میں شوگر کی برآمد کی اجازت نہ دینے اور پھر دو ماہ بعد اس کی برآمدکی اجازت دے کر سبسڈی دینے کی اجازت صوبائی حکومتوں کو دینے کے محرکات کے پیچھے کون لوگ تھے؟اس پر کمیشن کی رپورٹ خاموش ہے۔پنجاب کے وزیراعلیٰ عشمان بزدار نے صوبائی کابینہ کی منظوری سے قبل شوگر ملز مالکان کو سبسڈی دینے کا فیصلہ کس کے اشارہ پر کیا اور صوبائی وزیر خزانہ کی مخالفت کے باوجود سبسڈی کیو ں دی گئی؟ اس کا بھی رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں ہے۔تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں شوگر انڈسٹری میں جن بد عنوانیوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ٹریڈ اینڈ انڈاسٹری کے ہر شعبہ میں گزشتہ 70برس سے جاری ہیں،کون نہیں جانتاکہ ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے ہر شعبہ میں بجلی،گیس، پانی،کسٹم و ایکسائیز ڈیوٹی ،انڈر انوائیسنگ اور انکم ٹیکس کی چوری کے بغیر کام نہیں چلتا ہے پھر تمام سرکاری شعبوں میں افسران سے لے کر ایک عام کلرک بھی اوپر کی آمدنی کے بغیر کوئی جائیز کام کرنے کا بھی عادی نہیں ہوتا ہے جو بہر طورکرپشن کو فروغ دینے ہی کو اپنے مفاد میں بہتر سمجھتے ہیں۔بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی حکومت،پولیس،عدالتوں،کسٹم،ایکسائیز،ایف بی آر،ٹرانسپورٹ، تعمیرات ،آبپاشی، ریلوے،بورڈز آف ریوینیوز اور لاتعداد وفاقی و صوبائی اداروں میں جاری کرپشن اور بدعنوانیوں کا سدباب کرنے کی جانب متوجہ ہی نہیں ہوئی ہے تاکہ ایک عام آدمی کو ریلیف ملے جس کو اپنے جائیز کام کے لیے رشوت دینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ دوسری جانب ملک میں چند گنے چنے سیاستدانوں کے خلاف جاری احتساب مہم کی بنا پر تمام وفاقی و صوبائی سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور بدعنوانیوں کا دھندا بلا خوف و خطر کے بدستور جاری ہے ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ملک سے کرپشن کے خاتمہ کے نام پر اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو ختم کرنے پر توجہ دے رہی ہے جس کا واضح ثبوت کمیشن کی رپورٹ خود فراہم کررہی ہے کہ دسمبر 2018اگست 2010 کے دوران ملک میں آٹے اور چینی کی قلت کا بحران پیدا کرنے والی مافیاز موجودہ حکو مت کے ماتحت ریگولیٹری اداروں کے تعاون سے لوٹ مار میں مصروف رہے اور عمران خان کی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی کیونکہ ان مافیاز کے سرپرست خود ان کی کابینہ میں اہم عہدوں پر فائیز تھے۔
وزیر آعظم عمران خان کی کابینہ کی جانب سے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر مزید کاروائی عید الفطر کے بعد شروع کرنے کے اعلانات کے باوجود ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ وہ طاقتور لوگ جنہوں نے پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار میں لانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی تھی اورانہوں نے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے ارکان اسمبلیوں کی آزادانہ خرید و فروخت کی تھی ،کیا وہ اپنے خلاف کی جانے والی کسی کاروائی پر خاموش رہیں گے۔دس سے بارہ اراکین اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل ہوجانے پر کیا عمران خان قومی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت بر قرار رکھ سکیں گے جو اس ملک کی سیاست میں میں کوئی عجب بات نہیں ہے۔قومی اسمبلی میں قائید حزب اختلاف میاں شہباز شریف آٹے اور چینی کی قلت کے بحران کا ذمہ دار براہ راست وزیر آعظم عمران خان،وفاقی وزیر اسد عمر اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ عشمان بزدار کو قرار دیتے ہیں جن کے بارے میں رپورٹ نے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے اس لیے اس رپورٹ پر جب بھی کاروائی شروع ہوگی متنازعہ ہی رہے گی اور اگر اس رپورٹ پر کسی کاروائی کے لیے نیب اور ایف آئی اے کو کہا گیا تو پھر یہ معاملہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ تک بھی جاسکتا ہے تاکہ اس بحران کے حقیقی کردار سامنے آسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔