... loading ...
دنیا بھر میں ویکسین کا پروپیگنڈا تیزی رفتاری سے جاری ہے۔ دنیا عجیب وغریب نمونے پر چل رہی ہے، جس بیماری کو ابھی طبی سائنس پوری طرح پہچان بھی نہیں پائی، اس کے ویکسین سے علاج پر عالمی صحت کے نگران و قائدین اتفاق کرچکے ہیں۔ نائیجیریا کی سیاسی جماعتوں نے اِسے قیاس آرائیوں پر مبنی علاج کہا۔ مغربی ممالک کے اکثر حکمرانوں کی زبان پرویکسین کا ذکر مچلتا رہتا ہے۔ ہمارے پیارے وزیراعظم اور تبدیلی سرکار کے مبلغ و داعی عمران خان کے کنجِ لب سے بھی ویکسین کا ذکر پرانے زمانے کی کسی بھارتی اداکارہ کی طرح ہو چکا ہے۔ زبان کو نخرہ دکھا کر اور الفاظ کو جھٹکا دے کر بولنے کے شوقین وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی نے پارلیمنٹ میں ویکسین آنے تک دنیا کے بے آرام رہنے کا ذکر کیا ہے۔ گزشتہ روز برطانوی وزیر صحت میٹ ہینکاک نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ بغلگیر ہونا خطرناک ہے۔ اب دوستوں یا اپنے خاندان کے پیاروں سے ملنے جلنے اور بغلگیر ہونے کے کیے اُس وقت تک انتظار کریں جب تک کہ ویکسین نہیں آجاتی۔ چند روز قبل دنیائے عیسائیت کی سب سے معتبر شخصیت کیتھولک چرچ کے سربراہ پوپ فرانسس نے بھی ویکسین کے معاملے پر لب کشائی کی۔ ہمارے علمائے کرام کا تو ذکر ہی چھوڑیں! وارث الانبیاء کہلانے والے ان علمائے کرام کی بصیرت کسی کمشنر، ڈپٹی کمشنر یا سرکاری اہلکار کے ورغلانے سے گہری نیند سونے چلی جاتی ہے، اُنہیں ایک تھانے کا ایس ایچ او بلاکر پولیو کے قطروں پر مرضی کا پیغام حاصل کرلیتا ہے۔ تحقیق سے انہیں کوئی اُلفت نہیں۔ چنانچہ جب کورونا وائرس کی ویکسین آجائے گی تو یہ بھی بصری فیتوں پر دینی راگ الاپتے ہوئے اس کی توجیہات میں لگ جائیں گے۔ یہ پورا منظر نامہ دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ ویکسین ہی دنیا کی مسیحائی کرے گی۔
دنیا میں جس ویکسین کا شورو غوغا ہے، اس کے متعلق ایک تواتر سے دنیا میں صرف ایک اور ایک ہی شخص مسلسل بات کررہا ہے۔ یہ کوئی دو تین دن کی بات نہیں، اس کو اب ایک دہائی بیتی ہے۔ جنوری2010 میں، بل اینڈ میلنڈا گیٹس نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کے غریب ترین ممالک کے لیے ویکسینوں کی تحقیق اور ان کی تیاری کے لیے10 بلین ڈالر دینے کا اعلان کیا، اور اپنے دور کو ”ویکسین کی دہائی“ سے تعبیر کیا۔ بل گیٹس کے اعلان کرتے ہی دو جوانب سے اس کا استقبال ہوا۔
٭گیٹس کے مالی تعاون سے چلنے والے میڈیایعنی (ایم ایس ایم) نے اس میں مسیحائی تلاش کی۔
٭ہمیشہ منافع پر نگاہ گاڑے رکھنے والی فارما مافیا نے اسے خوب خوب سراہا۔
اس اعلان سے عالمی سطح پر کچھ لہریں پیدا ہوئیں، مگر بنیادی لہر یہ تھی کہ گیٹس فاونڈیشن کی امداد و اثر کے شکار ڈبلیو ایچ او(ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے بل گیٹس کے مالی تعاون سے شروع ہونے والے”گلوبل ویکسین ایکشن پلان“کو ترتیب دنیا شروع کردیا۔ بل گیٹس کے سرمائے سے چلنے والے تعلقات عامہ (پی آر) کے ادارے حرکت میں آگئے اور بل گیٹس کے اعلان کو دنیا کے لیے ایک مسیحائی اعلان باور کرانے میں اپنی تمام توانائیاں اور صلاحیتیں کھپانے لگے۔ تمام پروپیگنڈا دو جہتوں پر ترتیب دیا گیا۔ اولاً: دس بلین کا ویکسین منصوبہ بے روزگاروں کے لیے ایک خوشخبری ثابت ہوگا۔ ثانیاً: اس سے آٹھ ملین زندگیوں کو بچایا جاسکے گا۔
اس گمراہ کن پروپیگنڈے اور تعلقات عامہ کے اداروں کے زبردست گھماؤ (اسپن) کے برعکس یہ منصوبہ عالمی صحت سے جڑی تمام ممالک کی معیشت کو قابو کرنے کاایجنڈا تھا۔ جس کے اصل اہداف تین تھے۔
٭عالمی صحت کے تمام اداروں پر گیٹس فاونڈیشن کا زیادہ سے زیادہ کنٹرول
٭ بڑی فارما کمپنیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول
٭زمین پر آباد اربوں انسانوں کے مستقبل پر زبردست گرفت
بل گیٹس کا منصوبہ واضح تھا، وہ اس کے لیے پوری دنیا کو ویکسین پلانا چاہتا تھا۔اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بل گیٹس نے جس عہد کو ویکسین کی دہائی کہا، وہ کورونا وائرس کے حالیہ بحران میں پوری شدت، قوت اور طاقت کے ساتھ اس کا ابلاغ کررہا ہے کہ جب تک ویکسین تیار نہیں ہوجاتی، دنیا معمول پر نہیں آسکے گی۔ بل گیٹس کہتا ہے، ویکسین پچانوے فیصد موثر رہے گی، وہ کہتا ہے اسے لانے میں ایک سال یا اٹھارہ ماہ لگیں گے۔گزشتہ چند ہفتوں میں دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص، مائیکروسوفٹ کے شریک بانی اور وائرس کے آنے جانے کے اوقات سے واقف دنیا کے واحد شخص بل گیٹس نے ذائع ابلاغ کے بہت سے پروگراموں میں شرکت کی اور ایک تواتر سے ویکسین کو ”آخری حل“ کے طور پر پیش کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بل گیٹس کی جانب سے اس موقف کو سامنے رکھنے کے بعد مشکوک اور شریکِ جرم ڈبلیو ایچ او، حکومتوں کے سربراہان اور مرکزی ذرائع ابلاغ کے تمام دھارے ویکسین کی جگالی کرنے لگے اورویکسین کی آمد شریف کے لیے اٹھارہ ماہ کا عرصہ بہت متعین طور پر پیش کرنے لگے۔بل گیٹس کے ان تمام ”بھونپوؤں“ کا یکساں سروں میں الاپا گیا راگ یہ ہے کہ ”دنیا اس وقت تک معمول پر نہیں آسکے گی جب تک ہمیں ویکسین کا کارآمد حل نہیں مل جاتا“۔ دنیا کے اکثر حکمران، ذرائع ابلاغ کے نمایاں تبصرہ نگاراور محکمہ صحت کے تمام افسران ایک کورس کی شکل میں ہمیں یہ باور کرارہے ہیں کہ زندگی کی اجازت ویکسین دے گی۔یہ پورا منظرنامہ دل دہلادینے والا ہے کہ کس طرح ایک شخص جو دنیا میں کسی کو جوابدہ نہیں، جو کہیں پر بھی کسی بھی شکل میں عوامی حمایت کی نمائندگی نہیں رکھتا، جو طب کی کوئی سند اور تحقیق کا کوئی تجربہ نہیں رکھتا، وہ دنیا بھر میں عوامی صحت کے تمام گوشوں، حصوں ا ور شعبوں پر اپنی مضبوط گرفت رکھتا ہے۔ اس سے قومی ریاستوں کا پوپلا پن بھی واضح ہے۔
بل گیٹس اس حوالے سے فارما کمپنیوں کے ایک بڑے اکٹھ گاوی (GAVI) کا قیام عمل میں لاچکا ہے۔ (اس فارما اتحاد سے متعلق مختلف پہلوؤں کا تفصیلی احاطہ پہلے ہو چکا ہے)۔وہ ڈبلیو ایچ او کوبھی اس راستے پر ڈال چکا ہے۔ یہاں محض اس موقف کا جائزہ لینا مقصود ہے جو عام سمجھ بوجھ(کامن سینس) سے ہی باطل محسوس ہوتا ہے۔ بل گیٹس کہتا ہے کہ ویکسین تب تک مارکیٹ میں نہیں لائی جاسکتی جب تک اُسے کے پچانوے فیصد موثر ہونے کا یقین نہ ہو۔ اس نوع کی بہانے بازی دراصل ویکسین کو ملتوی رکھنے اور کورونا کے اثرات کو تادیر رکھنے کی کوشش ہے۔ جس کا اہم سبب یہ ہے کہ بل گیٹس نسل کشی پر یقین رکھتا ہے۔ اس لیے وہ ویکسین لانے میں کسی عجلت سے کام نہیں لے رہا جو بظاہر لوگوں کی زندگی کی حفاظت کرتی ہو لیکن اس کے مضر اثرات کا اندازا بہت بعد میں ہوسکے گا۔(امریکی فوج کے سابق برگیڈئیر سرجن ڈاکٹر راشد بٹر کے حوالے سے ہم دو کالموں میں تفصیل سے آپ کو آگاہ کرچکے ہیں جو کورونا وائرس کے حوالے سے انسانی کاریگری کا ذکر کررہے ہیں، اُنہوں نے اپنے ایک تفصیلی انٹرویو میں یہ واضح کیا ہے کہ اس قسم کی بیماریاں اُس وقت تک نہیں سامنے لائی جاتیں جب تک کہ اس کا علاج خود ان کے ہاتھوں میں موجود نہ ہو)۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بل گیٹس ویکسین لانے میں جلدی نہیں کررہا تو دنیا بھر میں مختلف لوگ کورونا وبا کے لیے اپنی انفرادی کاوشوں میں اس کا علاج ڈھونڈ رہے ہیں، وہ کامیاب بھی تو ہوسکتے ہیں۔ یہ خطرہ بل گیٹس کو کیوں نہیں ہے؟دراصل بل گیٹس کو وائرس کی کارکردگی پر یقین ہے کہ یہ پلٹ کر وار کرے گا یا نئے سرے سے سراُبھارے گا۔اس لیے کورونا وبا کے حوالے سے جاری تمام تحقیقات، طریقہ علاج کے تلاش کرنے کی جستجو سر کے بل گرے گی۔ یہ یقین اُسی صورت میں ہوسکتا ہے، جب آپ وائرس پر غیر معمولی کنٹرول رکھتے ہوں۔ ان تمام پہلوؤں کوایک طرف رکھ دیں تب بھی سوال یہ ہے کہ خود ان کے اپنے جعلی ماڈل اور اعدادوشمار کی جادو گری میں بھی کورونا متاثرین بغیر کسی ویکسین کے ننانوے فیصد از خود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ پھر بل گیٹس کے اعلان کے مطابق پچانوے فیصد موثر رہنے والی ویکسین کا انتظار کیوں کیا جائے؟ دنیا کی دانش کے ایسے افلاس اورکسی بھی بکواس پر حکمرانوں کے یقین کرلینے کی ایسی تباہ کن صلاحیت کا اس سے پہلے ہمیں کبھی تجربہ نہیں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔