... loading ...
دوستو،فی زمانہ دنیا بھر میں کورونا ،کورونا ہی چل رہا ہے۔۔ چلیں آج کورونا کے حوالے سے کچھ نئی تحقیقات ،ریسرچ اور انکشافات آپ کو بتاتے چلیں۔۔ برطانوی حکومت نے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے نئی ہدایات جاری کر دیں۔برطانوی حکومت نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے بالکل قریب کھڑے مت ہوں۔ دوسرے کے منہ کے پاس جا کر بات کرنے کی بجائے مناسب فاصلے سے دوسری طرف منہ رکھتے ہوئے بات کریں۔برطانوی حکومت کی طرف سے اگلی ہدایت یہ کی گئی ہے کہ شہری اپنے کپڑوں کو باقاعدگی سے دھوئیں اور اپنے گھروں اور کام کی جگہوں پر کھڑکیاں کھلی رکھیں۔ کمروں میں ہوا کی آمدورفت کا جتنا زیادہ انتظام ہو گا اتنا ہی آپ کو وائرس لاحق ہونے کا خطرہ کم ہو گا۔ شہری پبلک ٹرانسپورٹ پر فیس ماسک لازمی پہنیں اور ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھیں۔ اگر ممکن ہو تو گھر پر بیٹھ کر کام کریں لیکن اگر آپ کو کام کے لیے دفتر یا دیگر جگہوں پر جانا پڑ رہا ہے تو پیدل یا سائیکل پر جائیں اور انتہائی مجبوری کی حالت میں پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔رپورٹ کے مطابق یہ نئی ہدایات حکومت کے 50صفحات پر مشتمل ایگزٹ پلان کا حصہ ہیں جو حکومت کی طرف سے ریلیز کیا گیا ہے۔
ماہرین اس سے قبل تحقیقات میں بتا چکے ہیں کہ کورونا وائرس سے خواتین کی نسبت مردوں کی موت ہونے کا خطرہ دو گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اب پیشوں کے اعتبار سے مردوں کی موت ہونے کے متعلق بھی ماہرین نے پریشان کن اعدادوشمار بتا دیئے ہیں۔ اب تک برطانیہ میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کا تجزیہ کرنے کے بعد ماہرین نے بتایا ہے کہ جو مرد غیرہنرمند ہوتے ہیں اور چھوٹے درجے کی نوکریاں کرتے ہیں، کورونا وائرس سے ان کی موت ہونے کا خطرہ اکاؤنٹنٹس ، وکلاء اور دیگر ایسے بڑے پیشوں سے وابستہ مردوں کی نسبت چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ماہرین نے بتایا کہ سب سے زیادہ خطرہ سکیورٹی گارڈز کو ہوتا ہے جن کی موت ہونے کا امکان 45.7فیصد ہوتا ہے۔ کورونا وائرس سے ان کی موت ہونے کا خطرہ دیگر نیم ہنرمند مردوں سے بھی دو گنا زیادہ ہوتا ہے۔اس کے بعد ٹیکسی ڈرائیور اور شوفرز کی موت ہونے کا خطرہ 36.4فیصد، شیف اور شاپ اسسٹنٹس کی موت ہونے کا خطرہ 35.9فیصد، بس اور کوچ ڈرائیورز کی موت ہونے کا خطرہ 26.4فیصد اور سوشل کیئر سے وابستہ مردوں کی موت ہونے کا خطرہ 23.4فیصد ہوتا ہے۔اس سے قبل کہا جا رہا تھا کہ ڈاکٹروں اور نرسوں کو کورونا وائرس سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کیونکہ وہ ایسے ماحول میں ہوتے ہیں جہاں وائرس بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن ان اعدادوشمار میں حیران کن انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈاکٹروں اور نرسوں کی کورونا وائرس سے موت ہونے کا خطرہ عام پبلک سے زیادہ نہیں ہوتا۔خواتین میں پیشوں کے حوالے سے سب سے زیادہ سوشل کیئر سے وابستہ خواتین کی کورونا وائرس سے موت ہونے کا امکان سب سے زیادہ 9.6فیصد ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر لیزر اینڈٹریول سے وابستہ خواتین کے لیے 9.1فیصد، کیئرنگ اینڈ پرسنل کیئر(ہیئرڈریسرز، بیوٹیشنزوغیرہ) کے لیے 7.2فیصد، ٹیکسٹائل اور پرنٹنگ کے شعبے سے وابستہ خواتین کے لیے 7فیصد اور سیلز کے شعبے سے منسلک خواتین کے لیے کورونا وائرس سے موت ہونے کا 5.8فیصد خطرہ ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث قرنطینہ اور لاک ڈاؤن کے نتیجے میں کروڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں لیکن انہی حالات میں کینیا کی سب سے بڑی کچی آبادی’’ کبیرا‘‘ کے حجاموں نے اپنے ہنر کو ایک نیا انداز دیتے ہوئے ’’کورونا ہیئر اسٹائل‘‘ ایجاد کیا ہے۔اس ہیئر اسٹائل میں بالوں کو اْن ابھاروں کی طرح ترتیب دیا جاتا ہے جو کورونا وائرس کی سطح پر جگہ جگہ موجود ہوتے ہیں۔ یعنی کورونا ہیئر اسٹائل بنوانے والے/ والی کا سر، کورونا وائرس جیسا ہوجاتا ہے۔خاص بات یہ ہے کہ کورونا ہیئر اسٹائل کوئی مہنگا بھی نہیں بلکہ اسے بنانے کی قیمت صرف ایک ڈالر سے بھی کم ہے، جسے کچی آبادی میں رہنے والے غریب لوگ بھی نسبتاً آسانی سے ادا کرسکتے ہیں۔کم خرچ، بالا نشین اور حسین ہونے کی وجہ سے یہ ہیئر اسٹائل اب پورے کینیا میں مقبول ہورہا ہے جس سے حجاموں کو اپنا روزگار بچانے میں خاصی مدد مل رہی ہے۔
کئی تحقیقات میں سائنسدان بتا چکے ہیں کہ آدھے سے زیادہ کورونا وائرس کے مریض ایسے ہوتے ہیں جن میں اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں یا بہت تاخیر سے جا کر ظاہر ہوتی ہیں۔ ان میں اکثریت ایسی ہوتی ہے جنہیں پتا بھی نہیں چلتا اور وہ وائرس میں مبتلا ہو کر صحت مند بھی ہو جاتے ہیں۔ اب آئرلینڈ کے سائنسدانوں نے اس معاملے پرمختلف ممالک کے سائنسدانوں کی طرف سے کی جانے والی 17تحقیقات کے نتائج کا تجزیہ کرکے حیران کن بات کہی ہے۔ ان سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ آج تک دنیا میں کورونا وائرس سے جتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں ان میں سے آدھے سے زیادہ لوگوں کو ایسے افراد سے وائرس منتقل ہوا جن میں وائرس کی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔یونیورسٹی کالج ڈبلن کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ جس شخص کو وائرس منتقل ہوتا ہے اسے تو کبھی اس کی خبر نہیں ہوتی لیکن ان آدھے سے زیادہ کیسز میں جو لوگ وائرس دوسروں کو منتقل کر رہے تھے وہ بھی اس سے بے خبر تھے اور کوروناوائرس کے پھیلاؤ میں سب سے زیادہ کردار انہی لوگوں کا تھا۔ ڈبلن کے سائنسدانوں نے جن تحقیقات کا تجزیہ کیا ہے ان کے نتائج میں ایسے لوگوں کی تعداد 33سے 80فیصد تک بتائی گئی ہے جنہیں ایسے لوگوں سے وائرس منتقل ہوا جن میں علامات نہیں تھیں۔تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ مریم کیسی کا کہنا تھا کہ ہر مریض کے جسم میں وائرس داخل ہونے کے بعد اس کا ایک ’انکیوبیشن پیریڈ‘ (افزائش کرنے اور اپنی تعداد بڑھانے کا عرصہ)ہوتا ہے۔ یہ عموماً 6سے 7دن ہوتا ہے۔ ان 6سے 7دنوں میں اس شخص کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے جسم میں وائرس داخل ہو چکا ہے اور وہ دوسرے لوگوں سے ملتا جلتا رہتا ہے اور انہیں بھی وائرس میں مبتلا کرتا چلا جاتا ہے۔ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ایسے لوگوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے جو بظاہر صحت مند ہوتے ہیں۔
برطانیہ میں لاک ڈاؤن میں کچھ نرمی کر دی گئی ہے اور لوگوں کو ملازمتوں اور روزگار کے لیے جانے کے ساتھ دیگر کئی طرح کی سرگرمیوں کی اجازت دی جا چکی ہے۔۔ اب برطانوی حکومت کی طرف سے اعلان کردیا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد شہریوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کاریں شیئر کرنے کی بھی اجازت ہو گی جس کے بعد ایک کار میں ایک سے زائد لوگ سفر کر سکیں گے تاہم ایسے لوگوں کو کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔رپورٹ کے مطابق حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ کار شیئر کرنے کی پابندی ختم ہونے کے بعد لوگ کاروں کی کھڑکیاں کھلی رکھیں گے، فیس ماسک لازمی پہنیں گے اور ایک دوسرے کی طرف منہ نہیں کریں گے تاکہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ کم سے کم ہو سکے۔بتایا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے کاروں میں زیادہ افرادکو سفر کی اجازت اس خدشے کے پیش نظر دی جا رہی ہے کہ اس پابندی کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ پر لوگوں کا رش بہت زیادہ ہو جائے گا اور پبلک ٹرانسپورٹ کورونا وائرس کی آماجگاہ بن جائے گی۔رپورٹ کے مطابق حکومت کی طرف سے شہریوں پر ایک یہ پابندی بھی عائد کی گئی ہے کہ وہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی اپنے دوستوں کو گلے نہیں لگائیں گے۔ یہ کام شہری تب تک نہیں کر سکیں گے جب تک کورونا وائرس کی ویکسین نہیں آ جاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔