... loading ...
ٹیکنالوجی عہد جدید کے انسان کا مذہب ہے۔ ”ترقی“ کے خلاف گفتگو اب جہالت کہاں گناہ بن چکی۔ روشن خیالی اس مذہب میں عقیدہ کی طرح راسخ ہے۔ مجال ہے کوئی”نجس“ ذہن اس پر سوال اُٹھاسکے۔ سوال اُٹھانا سائنس کی ریت بتائی جاتی ہے۔ مگر عہد جدید کے ”جانوروں“ کو بتادیا گیا ہے کہ سوال کہاں اُٹھانا ہے؟ سوال وہ مقدس ہے جو مذہب کے خلاف اُٹھے، یہ سائنس ہے، فلسفہ ہے، روشن خیالی ہے۔ اگر سوال خود سائنس پر اُٹھے تو یہ جہالت ہے، عہدِ تاریک کا تعفن ہے۔ماضی کا مزار ہے۔ اور ہاں سازش بھی ہے۔ سائنس کے نام پر آپ کو جو دیا جائے وہ لینا ہے۔ جو کھانا دیا جائے وہ کھانا ہے، جو پینے کو دیا جائے وہ پینا ہے۔سائنس ہی جھنجھنا ہے، سائنس ہی کھلونا ہے۔ بیماریوں کے تعین سے لے کر علاج تک جدید انسان طبی سائنس کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ مسلسل مررہا ہے، مسلسل اپنی زندگی کو اس کے تجربات میں جھونک رکھا ہے۔ دوائیاں ایجاد کررہاہے، مگر وہ علاج کے بجائے بیماریاں جنم دے رہی ہیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور ترقی پرہمارے ایمان نے ہمیں اس قابل نہیں چھوڑا کہ آزاد ذہن سے سادہ اور عام سمجھ بوجھ کا معمولی سوال بھی پوچھ سکیں۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں ہیر پھیر ثابت ہوچکا۔ کورونا وائرس کا پورا ماڈل دھوکا ثابت ہوا۔ دنیا میں معمول کی اموات کوکورونا وبا کے کھاتے میں ڈال کر خوف کی ایک عالمی فضا پیدا کی گئی۔ ہندسوں کا یہ کھیل دنیا کے باضمیر معالجین نے افشاء کردیا۔ اس کے باوجود قومی ریاستیں سادہ سوالات پر توجہ دینے کے بجائے انسانی آزادیوں کو سلب کرنے والی پابندیوں پر بضد ہیں۔ پاکستان میں اس وقت کورونا وبا کے”مصدقہ“ مریض”32917“ قرار دیے جارہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جن مریضوں میں کورونا تشخیص ہورہا ہے، وہ اکثر واقعات میں درست نہیں۔ پھر بھی اس ہندسے کو درست مان لیتے ہیں۔ سرکاری طور پر کورونا مریضوں کی اموات”734“قرار دی جارہی ہے۔پاکستان میں پہلا مریض 26/ فروری کو شامل اندراج ہوا۔ اب ہم مئی کا نصف مہینہ گزار چکے۔ ڈھائی ماہ میں یہ کل اموات ہیں۔ اگر ان اموات کو شامل اندراج کرکے پاکستان میں کورونا سے پہلے ہونے والی معمول کی اموات کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جائے تو حیرت انگیز بات یہ سامنے آتی ہے کہ ملک میں معمول کی اموات میں غیر معمولی کمی ہوئی ہے۔ سادہ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ مگر یہ سوال بھی ہمارا آج کا موضوع نہیں۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا کے کل”734“ کے ہندسے کے مقابلے میں کورونا سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد ”8555“ ہے۔ اگر اس تناسب کو سامنے رکھیں تو کسی بھی مرض میں ہونے والی عام ہلاکتوں کے مقابلے میں یہ انتہائی کم شرح ہے۔سادہ سوال یہ ہے کہ پھرکورونا کو ایک وبا قرار دے کر اس کی اتنی دہشت کیوں پھیلائی جارہی ہے؟ ایک سادہ سوال یہ بھی ہے کہ جب کورونا کے مریضوں کی صحت یابی کا ہندسہ غیر معمولی ہے تو پھر دنیا بھر میں ویکسین کی مہم کیوں چلائی جارہی ہے؟ بل گیٹس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سات بلین کی آبادی میں ہر شخص کو ویکسین کی دو خوراکیں لینی ہونگیں۔ وہ دنیا بھر کے لیے 14بلین ویکسین کے ایجنڈے پر کام کررہا ہے؟ سادہ سوال یہ ہے کہ اس کی ضرور ت کیوں ہے؟دنیا بھر کے باضمیر ماہرین وبائیات کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کے حوالے سے ویکسین ایک بکواس ہے۔سادہ سوال یہ ہے پھر دنیا بھر میں اس ویکسین کے لیے کیوں راہ ہموار کی جارہی ہے؟
یہ دیکھیے نائیجیریا میں کیا ہورہا ہے؟مغربی افریقا کے ملک نائیجیریا کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد (سی یو پی پی) نے تین روز قبل یہ الزام عائد کیا کہ بل گیٹس نے ایوان نما ئندگان کی قیادت کو لازمی ویکسین بل کو فوری اور زبردستی منظور کرانے کے لیے دس ملین ڈالرز رشوت کی پیشکش کی ہے۔ حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے ترجمان بیرسٹر اکینگا کی جانب سے یہ الزام باقاعدہ ایک بیان کی صورت میں تحریراً ابوجا میں ایک اخبار ڈیلی پوسٹ کو جاری کیا گیا۔ حزب اختلا ف نے نہایت جائز سوالا ت اُٹھائے۔ متعدی بیماریوں کو کنٹرول کرنے کے لیے لازمی ویکسین بل کو منظور کرانے کے لیے قانوی سازی کے متعین قواعد کو کیوں روندا جارہا ہے؟ ایک ایسی ویکسین کے لیے قانون سازی میں اتنی عجلت کیوں دکھائی جارہی ہے، جو ابھی دریافت تک نہیں ہوئی؟ نائیجیریا کی حزب اختلاف نے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے تمام ارکان پارلیمان سے گزارش کی ہے کہ وہ بل سے متعلق تمام سوالات کا ایوان میں سامنا کریں اور اسے منظور کرانے کے مشکوک منصوبے کی مزاحمت کریں۔ حزب اختلا ف نے یہ جائز سوال بھی اُٹھایا کہ اگرکورونا وائرس کاعلاج ویکسین کی صورت میں نہ مل سکا جیسے ایچ آئی وی ایڈز کا علاج نہیں مل پایاتو پھر قیاس آرائیوں پر مبنی اس بل کی منظوری کے پیچھے راز کیا ہے؟ اشرف المخلوقات کو جدید عہد کے درندوں سے بچانے کی پہلی کوشش کرنے والی نائیجیر ین اپوزیشن کو سلام!!پاکستان کے ارکانِ پارلیمان کواپنی انا کے بدبو دار گنبدوں سے نکل کر دیکھنا چاہئے کہ ایک افریقی ملک میں ویکسین کے معاملے پر کتنی حساسیت دکھائی جارہی ہے۔ کیا اُنہیں اس معاملے میں کسی حقیقی بحث یا ریاضت کی ضرورت نہیں۔ دنیا کی ایک عالمی گاؤں کی حیثیت میں فضیلتیں سنانے والے اب گلوبل خطرات کے عفریتوں کو بھی گلے سے لگائیں۔یہ نہ سمجھیں کہ جو خطرات افریقی ممالک میں کھڑے ہورہے ہیں، اُس سے پاکستان محفوظ رہے گا۔ عالمی گاؤں کے خطرات مشترک ہیں۔ کورونا وبا اس کا ثبوت ہے اور ویکسین اس خطرے کی دھماکا خیز گھنٹی ہے۔ پاکستان میں ویکسین کے متعلق باتیں سنائی دے رہی ہیں۔وزیر اعظم کے مشکوک مشیر صحت ڈاکٹر ظفرمرزا تو مسلسل اس کی جُگالی کررہے ہیں۔ مگر وزیر اعظم عمران خان بھی اس موضوع پر بول چکے ہیں جبکہ گزشتہ روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسمبلی کے فلور پر کورونا وبا کا علاج ویکسین کو قرار دیا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ پورے ایوان میں کسی ایک نے بھی یہ بات نہیں پوچھی کہ ویکسین کی ضرورت کیوں ہے؟ اور ایک طریقہ علاج کے طور پر ویکسین کا صور اُن کے کانوں میں کس نے پھونکا؟پورا ایوان من وتو کی بحث میں اُلجھا رہا۔ وفاق اور سندھ کے تعصبات کی باسی کڑھی اُبالتا رہا۔
ظاہر ہے کہ ویکسین پاکستان میں ایک خطرے کے طور پر اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ اس لیے یہ کھیل اچھی طرح سمجھنا چاہئے۔ ویکسین کی کسی بھی بحث کے آغاز میں ہمارا سامنا سب سے پہلے اس سوال سے پڑتا ہے کہ آخر دنیا بھر میں ویکسین کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاونڈیشن نے جنوری 2010 میں اگلے عہد کی سرخی ویکسین سے سجاتے ہوئے ”ویکسین کی دہائی“ منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کیا اور اس کے لیے دس ارب ڈالرز کی خطیر رقم مختص کی۔ یہ کوئی عالمی صحت عامہ کا طبی یا بے روزگاری کے خطرے سے نمٹنے کا کوئی معاشی منصوبہ نہیں تھا۔ یہ ایک طویل ایجنڈا تھا۔ جس کے ایک سرے پر وائرس اور دوسرے سرے پر ویکسین تھی۔ مائیکرو سوفٹ کے بانی بل گیٹس نے انسانوں کو کمپیوٹروں پر قیاس کرلیا تھا جہاں وہ وائرس اور اینٹی وائرس کے پروگرام دے کر منافع کماتا تھا۔ اس نئے پروگرام کا اینٹی وائرس، ویکسین ہے۔یہ کسی کورونا وائرس سے جڑے مسائل کا حل نہیں بلکہ انتہائی بڑی فارما کمپنیوں کی ناقابل قیاس بھاری حجم پر مبنی منافع بخش دھندے بازی ہے، یہ گیٹس فاونڈیشن کی عالمی صحت عامہ پر مکمل کنٹرول پانے کی گہری چال ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ زمین نامی سیارے پر موجود تمام انسانوں کے مستقبل پر گرفت پانے کا مکروہ منصوبہ ہے۔ تحریر کا ورق تمام ہوا سو اس منصوے کی پرتیں آئندہ کھولیں گے۔ یاد رکھیں، انتہائی فعال ذہن کے ساتھ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا یہی لمحہ ہے۔ بل گیٹس کے ویکسین سے جڑے اس تیرہ تر، دراز تر اور محیط تر منصوبے کی تمام جہتوں، سمتوں اور سروں کو پکڑنے کا یہی وقت ہے۔ مگر ہماری پارلیمنٹ اس وقت کن بحثوں میں اُلجھی ہوئی ہے، اس پر بھی ساتھ ہی نظر ڈال لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔