وجود

... loading ...

وجود

کورونا کا پھیلاؤ اور دباؤ کی سیاست

جمعرات 14 مئی 2020 کورونا کا پھیلاؤ اور دباؤ کی سیاست

دباؤ میں کیا گیا فیصلہ کبھی بھی اپنی مرضی سے کیے گئے فیصلہ کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتا۔یہ اُصول انفرادی زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے اورکسی قوم کی اجتماعی زندگی پر بھی۔ذہن نشین رہے کہ دباؤ میں کیے گئے فیصلے جہاں انفرادی زندگی میں کسی شخص کی کمزور نفسیات کی چغلی کھاتے ہیں تو دوسری جانب اگر ایسے ہی کمزور فیصلے معروضی حالات کے جبر سے مجبور ہوکر حکومت ِ وقت کرنا شروع کردے تویہ اِس بات کی واضح دلیل ہے برسرِ اقتدار افراد کس درجہ ذہنی افلاس و بدحالی کا شکارہیں۔ سندھ میں لاک ڈاؤن نرم کرنے کا فیصلہ بھی سندھ حکومت کا ایک ایسا ہی کمزور ترین فیصلہ قرار دیا جاسکتاہے جو معاشرے کے مختلف طبقات کے دباؤ میں آکر کیا گیاہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سندھ میں لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ ایک یا دو ہفتہ قبل،اُس وقت ہی لے لیا جاتاکہ جب سندھ کے تمام سماجی، تجارتی و مذہبی حلقوں سمیت وفاقِ پاکستان بھی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے دست بدست عرض گذاشت کررہے تھے کہ ”خدارا! لاک ڈاؤن میں تھوڑی سی ”انتظامی نرمی“ دکھادی جائے“۔تو اُس مشکل وقت میں تو سوال نما عرضی کے جواب میں وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب سے ہر بار ہی ”حرفِ انکار“ کا راگ سُنا تے ہوئے تاکید و تنبیہ فرمادی جاتی تھی کہ ”جب تک سندھ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے کسی بھی صورت لاک ڈاؤن میں نرمی نہیں کی جائے گی“۔ مگر شومئی قسمت کے جیسے ہی وفاقِ پاکستان نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن نرم کرنے کا اعلان کیا اور سندھ کی تمام تاجر تنظیموں نے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی اقتدامیں سندھ بھر میں اپنے تمام تجارتی مراکز کھولنے کا اعلان کردیا۔اُس کے بعد تو گویاسندھ میں لاک ڈاؤن کے ”انتظامی پتلے“ سے روح ہی نکل گئی۔ یعنی بالآخرسندھ حکومت نے بھی صوبے میں لاک ڈاؤن نرم کرنے کا اعلان کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات ہی مارڈالی، حالانکہ سندھ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں بدستور اضافہ جاری ہے لیکن اِس کے باوجود وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اپنی دیرینہ سیاسی خواہش کے برخلاف لاک ڈاؤن کی سختیوں میں مزید اضافہ نہ فرمانے پر مجبور ہو ہی گئے ہیں تو بقول علامہ اقبال۔یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے۔
اَب دیکھنایہ ہے کہ سندھ کی غریب عوام کی یہ خوشی مزید کتنے روز تک زندہ و پائندہ رہ پاتی ہے۔ کیونکہ دباؤ میں کیے گئے فیصلے،دباؤ ختم ہونے کے فوراً بعد یکسر تبدیل بھی کردیئے جاتے ہیں۔ ویسے بھی سندھ میں لاک ڈاؤن میں کی گئی نرمی مختلف طرح کے عوامی و سیاسی دباؤ کے ساتھ براہِ راست منسلک ہے۔ خاص طور پر اٹھارویں ترمیم کے بعض نکات میں تغیر و تبدیلی کی اعلیٰ ادارہ جاتی خبروں نے سندھ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی پر ایسا سخت ”سیاسی دباؤ“ ڈالا تھا کہ جس کے بار کی تاب نہ لاتے ہوئے پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کورونا وائرس کے معاملے پر پہلی بار اپنے اُصولی موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے ”قومی ہم آہنگی“ قائم کرنے پر پورے خلوص دل کے ساتھ متفق ہوگئی ہے۔ گزشتہ دوماہ میں جب سے کورونا وائرس پاکستان میں وارد ہوا ہے، وفاقی حکومت کا یہ پہلا اقدام ہے،جس پر قومی اتفاقِ راہ کی فضا بنتی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ اِس سمت ایک اشارہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری اپنی تقریر کے دوران بھی یہ کہتے ہوئے دے گئے ہیں کہ ”ہم آپ کے ساتھ بیک ڈور بیٹھنے کو بھی تیار ہیں،آپ اپنی بیٹنگ لائن کو بھی تبدیل کریں،اِن لوگوں کوفرنٹ پر لائیں جو سمجھ دار اور تجربہ کار ہوں،جنہیں تمیز ہو“۔اگر بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو اپنے اِس بیان میں بلاول بھٹو زرداری وفاقی حکومت سمیت مقتدر حلقوں کو بہت کچھ بطور پیغام خاموشی کے ساتھ کہہ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ بیک ڈور کے لفظ میں ملفوف یہ”سیاسی پیغام“ کورونا وائرس کے انسداد سے متعلق تو ہرگز نہیں ہوسکتاکیونکہ کورونا وائرس پر بیک ڈور بات چیت یا مذاکرت تو پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے کسی بھی طور سیاسی فائدہ کے باعث نہیں ہوسکتے۔البتہ! اٹھارویں ترمیم ضرور ایک ایسا معاملہ ہو سکتا ہے جسے ”بیک ڈور“ بات چیت میں کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کیا جاسکتاہے۔
درحقیقت پاکستان کی ساری سیاست”سیاسی دباؤ“کے یک نکاتی اُصول کے تحت ہی چلتی آئی ہے،چلتی ہے اور شاید آئندہ بھی یوں ہی چلتی رہے گی۔ اَب جو سیاسی جماعت جتنا زیادہ ملکی سیاست کے اُفق پر سیاسی دباؤ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے وہ اُتنی ہی زیادہ تیزی کے ساتھ کامیابی کی منازل طے کرنے لگتی ہے۔قطع نظر اِس کے کہ اُس سیاسی جماعت کا تعلق اپوزیشن سے ہے یا حکومتی حلقوں سے۔یعنی اگر ایک اپوزیشن جماعت کے پاس ”سیاسی دباؤ“ وافر مقدار میں موجود ہے تو وہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود بھی اٹھارویں ترمیم کو باآسانی متفقہ طوپر پارلیمان سے منظور کروانے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن دوسری جانب اگر ایک حکومتی جماعت کے پاس ”سیاسی دباؤ“ کا قحط ہو تو وہ اپناجاری کردہ ایک چھوٹا سا آرڈیننس بھی پارلیمان کی سادہ اکثریت سے منظور کروانے کی قوت نہیں رکھتی۔چہ جائیکہ کورونا وائرس جیسی عالمگیر وبا کا سامنا ہو اور تحریک انصاف کی حکومت بغیر ”سیاسی دباؤ“ بنائے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اِس وبائی مرض کے خلاف ایک صفحہ پر یکجا کردے۔ایں خیال اَست و محال اَست و جنوں اَست۔ہمارا خیال ہے کہ ”سیاسی دباؤ“کی اہمیت و افادیت آہستہ آہستہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان پر منکشف ہونا شروع ہوگئی ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اَب انہوں نے بھی ”سیاسی دباؤ“ کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیاہے۔جس کے مثبت اثرات ابتدائی طور پر ملک گیر لاک ڈاؤن میں نرمی کی صورت میں برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ہماری دُعا ہے کہ یہ ”سیاسی دباؤ“ یوں ہی بنا رہے اور غریب کے گھر کا چولہا جلتارہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر