... loading ...
عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا بھر کے ممالک تیزی سے لاک ڈاون ختم کردیں گے تو اس سے کوویڈ2019 کے مزید تیزی کے ساتھ پھیلنے کے خدشات بڑھ جائیں گے اور دنیا بھر کے ممالک کی حکومتوں سے کہا ہے کہ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے اقدامات جاری رکھنے ہونگے۔عالمی ادارہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 38لاکھ سے زائید افراد اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں اور اگر لاک ڈاون ختم کردیا گیا تو یہ مزید تیزی کے ساتھ پھیلے گا۔یہاں یہ امربھی قابل ذکرہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے حکومت پاکستان کو گزشتہ ماہ ہی وارننگ جاری کردی گئی تھی کہ مئی کا مہینہ کورونا وائرس کے اٹیک کے سلسلے میں پاکستان کو ایک بڑی ہولناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کے درست ثابت ہونے کے اب آثار بھی نمایاں ہونے لگے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بدھ کے روز پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کے کیسز میں ریکارڈ 1804 کااضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ یومیہ ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھ کر 50تک آچکی تھی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں اس وقت تک کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 25ہزار تک آچکی ہے جبکہ کل ہلاکتیں بھی570 افراد سے تجاوز کرچکی ہیں جبکہ اب تک چھ ہزار سے زائید مریض صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔
اب جبکہ مئی کے مہینہ میں کورونا وائرس اٹیک کی شدت میں اضافہ کا خطرہ ہمارے سر پر منڈ لا رہا ہے ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس وبائی بیماری پر قابو پانے کے لیے ایک مربوط پالیسی کی تشکیل میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔اس وائرس کی شدت کو کم کرنے کے لیے لاک ڈاون کی پالیسی میں نرمی کی جائے گی یا لاک ڈاون مزید سخت کیا جائے گا کچھ پتہ نہیں ہے ،کیا پبلک ٹرانسپورٹ کے چلانے کی اجازت اور ریلوے کا محدود آپریشن بحال کردینا چاہیے وفاق اور صوبہ ایک پیچ پر نظر نہیں آرہے ہیں۔تعلیمی ادارے31 مئی سے کھول دئے جائیں یا جون کے مہینہ تک توسیع کردی اس پر تین صوبے ایک طرف ہیں تو ایک صوبہ دوسری جانب ہے۔ ۱۱ مئی سے چاروں صوبوں میں لاک ڈاون کی پالیسی میں کس حد تک نرمی کردی جائے اور کن کن صنعتوں کو کام کرنے کی اجازت دے دی جائے اس پر بھی اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔
اس ساری صورتحال سے قطع نظر اب ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان کو اٹلی،اسپین،جرمنی یا فرانس جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑگیا تو ہمارے ہاں صورتحال کس حد تک خوفناک ہوجائے گی۔یورپی ممالک میں تو صحت عامہ کے شعبہ کی صورتحال تو ہمارے مقابلہ میں سو گنا سے بھی زائید بہتر ہیں۔اچھے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی کمی نہیں ہے، نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی کارکردگی بہی اچھی ہے،وہاں مریضوں کے علاج کیے لیے بہتر سے بہتر ٹیکنالوجی دستیاب ہے، ادویات کا معیار بھی بہتر ہوتا ہے۔وہاں کے ڈاکٹر اپنے مریضوں کے علاج پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے لیکن جب ہم اپنے سرکاری شعبہ کے ہسپتالوں کی کارکردگی اور ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کا مریضوں کے ساتھ کیا جانے والے سلوک کا جائیزہ لیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔اس کے مقابلہ میں نجی شعبہ کے ہسپتالوں میں جائیں تو وہاں کچھ قدرے بہتر علاج ہوتا تو نظر آتا ہے مگر کس قیمت پر اگر آپ لاکھوں روپے خرچ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں تو آپ کے مریض کو بہتر علاج مل جائے گا اور اگر آپ متوسط یا غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں تو ان نجی ہسپتالوں میں اپنے مریض کو لے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔
پاکستان کو بنے ہوئے 73برس ہوچکے ہیں،ابھی تک ہمارے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سالانہ بجٹ میں سب سے کم رقوم تعلیم اور صحت عامہ کے بجٹ کے لیے مختص کی جاتی ہے جو کل بجٹ کے دو یا تین فیصد سے زائید نہیں ہوتی ہے۔اس پر ظلم تو یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے اور ادویات یا مشینری کی خریداری کے لیے جو رقوم فراہم کی جاتی ہیں وہ سب کرپشن کی نظر ہوجاتی ہیں۔ایک عام آدمی جب اپنے کسی بیمار کو لے کر سرکاری ہسپتال جا تا ہے تو سب سے پہلے اس کے ساتھ آنے والوں کو ادویات،انجیکشن،سرنج اور ڈرپ بازار سے جاکر خرید نے کی پرچیاں تھما دی جاتی ہیں، پھر اگر آپکے مریض کے کچھ ٹیسٹ یا ایکسرے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے لیے پرائیویٹ لیباریٹریز کے پرچے دئے جاتے ہیں سرکاری ہسپتال کی لیباریٹریز کس مرض کی دوا ہیں کچھ پتہ نہیں ۔پھر جب آپکے مریض کو وارڈ میں منتقل کیا جاتا ہے تو وہاں کے بستر،چارریں،کمبل،تکیے اور ارد گرد پھیلی ہوئی گندگی دیکھ کر کراہییت سی ہونے لگتی ہے،مریض کو دوا دینے یا انجیکشن لگوانے کے لیے نرسز کو بار بار بلانے جانا پڑتا ہے،ڈاکٹر 24گھنٹوں میں ایک بار وارڈ کا دورہ کرتے ہیں،ایکسرے،وینٹی لیٹر اور دوسری مانیٹرنگ مشینری زیادہ تر کام ہی نہیں کررہی ہوتی ہیں، اگر مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے تو مریضوں کو بستر بھی نصیب نہیں ہوتا اور مریض نیچے راہداریوں میں بستر بچھائے لیٹے نظر آتے ہیں۔سرکاری ہسپتالوں کی یہ صورتحال دیکھ کر آپ اندازہ لگائیں کہ اگر ہم کو اس ماہ کورونا وائرس اٹیک کی شدت میں اضافہ کا سامنا کرنا پڑتاہے تو ہمارے ہاں کیا صورتحال ہوجائے گی یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔
اب آئیے ہم دیکھیں کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے جو خصوصی میڈیکل سینٹرز بنائے ہیں وہاں کیا صورتحال ہے اس کا اندازہ ان عوامی شکایات سے ہوجاتا ہے جو اخبارات یا ٹی وی چینل کے ذریعے سامنے آرہیں ہیں یا سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں،قرنطینہ سینٹرز پر انتہائی غلیظ ماحول پایا جاتا ہے،ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے پاس نہ تو حفاظتی کٹس ہوتی ہیں نہ N95سرجیکل ماسکس،مریضوں کے لیے مناسب ادویات بھی دستیاب نہیں ہیں، سماجی فاصلوں کی دوری کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا ہے اور اکثر مریض مایوس ہو کر میڈیکل سینٹر سے فرار ہوجاتے ہیں۔گزشتہ ددنوں پنجاب کے وزیر اعلیٰ جب لاہور میں میں کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے قائم کیے جانے والے ایک سینٹر کے دورے پر گئے تو وہاں کے مریض اس سینٹر کی علاج کی بہتر سہولتوں کی کمی اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے پر پھٹ پڑے اور بتایا کہ مریض رشوت دے کر یہاں سے فرار ہو ہورہے ہیں۔گزشتہ دنوں ہی کراچی میں ایک ڈاکٹرکی فیملی دو گھنٹے تک ایک ایمبولینس میں لے کر انھیں ہسپتال میں داخل کرانے کے لیے گھومتی رہی،ان کو وینٹی لیٹر پر ڈالنے کی ضرورت تھی مگر کسی ہسپتال نے انھیں داخل نہیں کیا اور انھیں کسی دوسرے ہسپتال جانے کا کہا جاتا رہا اور وہ انتقال کرگئے۔بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کو ائیر پورٹس کے قریب بنائے جانے والے قرنطینہ سینٹرز پر 24 گھنٹوں کے لیے رکھا جارہا ہے جہاں ان کا ٹیسٹ کرنے اور علاج کرنے کی مناب سہولتیں بھی نہیں ہیں اور وہ ناقص انتظامات پر احتجاج کررہے ہیں۔پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج اور ان کی دیکھ بھال کتنے اچھے طریقے سے کی جارہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا علاج کرنے والے 510 سے زائیدڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کورونا وائرس کے انفیکشن کا شکار ہوچکے ہیں۔پاکستان کے عوام وبائی بیماری سے پیدا ہونے والی صورتحال پر جس تشویش کا شکار ہیں اس کا خود سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی نوٹس لیا ہے اور مرکزی وصوبائی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ اس ایک ہفتہ کے اندر اس وباء کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک یکساں پالیسی بنائیں۔
ُٓپاکستان کے ایک عام شہری کو اس بات کی فکر ہے کہ ملک میں اس وقت عوام کو طبی سہولتوں کی فرہمی کے لیے جس انتہائی ناقص صورتحال کا سامنا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر اس ماہ کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو گا تو کیا ہوگا،ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہا خدا نہ کرے کہ وہ صورتحال نہ پیش آئے کہ ہمیں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر مریضوں کا علاج نہ کرنا پڑے۔پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا مریض اس سال فروری کے آخری ہفتہ کے دوران سامنے آیا تھا اور تین ماہ گذرجانے کے باوجود ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس وبائی بیماری کو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی وضع کرنے میں ناکام نظر آرہی ہیں جس کے بعد رب کریم سے ہی مدد طلب کی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستانی قوم کو ہر بلا اور ہر مصیبت سے محفوظ رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔