... loading ...
ایک ایسا نعرہ جو ہمیشہ سے ہی جمہوریت پسندوں کو ان کی “اوقات ” یاد دلانے کے لیے بلند ہوتا رہا۔۔۔ سیاست نہیں ریاست بچاؤ یعنی جو ملک ایک سیاستدان ایک قانون دان نے بنایا اس کو بچانے کا واحد “حل” سیاست چھوڑ دو قرار دیا جاتا رہا۔جو ملک اور قومیں اپنے بانی کے نقش قدم سے بھٹک جاتی ہیں ان کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے جو ہم آج بھگت رہے ہیں۔ اس ملک کی زندگی پر آدھے سے زیادہ وقت آمریت کا قبضہ رہا باقی آدھے وقت میں سے بھی زیادہ وقت آمریت کی نرسری میں پلے بڑھے سیاستدان “قابض” رہے۔ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے طور چلانے والوں سے اس قوم کی خدمت یا جمہوریت کی مضبوطی کی توقع کی جاسکتی تھی ان میں سے اگر کوئی “حقیقی ” لیڈر بننے کی جانب قدم بڑھاتا اس کا اگلا قدم زندگی یا عزت کی زندگی پار کرنے پر مجبور کردیا جاتا۔ ہم 72 سال میں دو قدم آگے چلنے کے بعد چار قدم پیچھے ہٹنے کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ ہم دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہیں اللہ نے ہمیں ہر قسم کے وسائل سے مالا مال کررکھا ہے پھر ہم آگے بڑھنے کی بجائے ڈھلوان کی جانب کیوں لڑھک رہے ہیں۔ ہمارے ادارے جن کے پاس تمام وسائل اور اختیارات موجود ہیں وہ شب خون مارنے یا اسے قانونی قرار دینے کی بجائے ایک بار ٹھنڈے دل سے غور تو کریں کہ ہم تیزی سے ڈھلوان کا سفر کیوں کررہے ہیں۔ ہماری غلطیوں اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہم سے جدا ہوکر بنگلہ دیش بننے والا ملک آج ہم سے کیوں آگے نکل گیا ہے۔ آج ہمارا روپیہ اس کے ٹکے کے سامنے “ٹکے” کا نہیں رہا۔ بنگلہ دیش نے ہم سے دنیا کی اکثر منڈیاں چھین لی ہیں۔ آج بنگلہ دیش کا طوطی بولتا ہے۔ ہم نے کل کہا تھا جنگ کھیڈ نہیں زنانیاں دی۔ آئیں آج دیکھیں بنگلہ دیش کی “زنانی” آپ کے “کھلاڑی ” سے جنگ جیت چکی ہے۔ آپ نے جسے “ہیرو” قرار دے کر اس قوم کے سر پر مسلط کیا تھا آج دیکھیں تو سہی اس کی کارکردگی کیا ہے۔ میں اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں نہیں پڑتا صرف آپ سے درخواست گزار ہوں ایک بار اپنا اور بنگلہ دیش کا موازنہ تو کریں۔ چلیں معیشت کو رہنے دیں صرف کرونا سے نمٹنے کا موازنہ ہی کرلیں۔ حسینہ واجد مجھے بھی اچھی نہیں لگتی شاید میں جس نسل سے تعلق رکھتا ہوں وہ مطالعہ پاکستان پڑھتے بڑی ہوئی ہے۔ میں بھی اسے “غدار” مانتا ہوں۔ اس کرونا کا ستیاناس ہو اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ میں حسینہ واجد کی کارکردگی دیکھتے ہوئے یہ بات تسلیم کروں کہ ہم یہ “جنگ” بھی ہار رہے ہیں۔
ہماری تاریخ میں دوسری بار “زنانی ” سے جنگ ہارنا کم سے کم مجھے تو اچھی نہیں لگے گی۔ قومیں ہمیشہ ایک مٹھ ہوکر جنگ لڑاکرتی ہیں۔ حسینہ واجد نے بتایا کہ وہ قوم کو متحد رکھنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ہماری بدقسمتی کہ جسے کھلاڑی سمجھ کے لائے وہ پرلے درجے کا “اناڑی ” ثابت ہوا۔ میری اس گستاخی کا یقیناً آپ برا منارہے ہوں گے اس لیے میں بنگلہ دیش کی بات کو یہیں چھوڑکے ویتنام نکل جاتا ہوں جس کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو کرونا جیسی موذی وبا سے کم متاثر ہوئے ہیں۔ ویتنام نے اس وبا پر قابو پانے کے لیے بہترین حکمت عملی سے کام لیا۔ یہ وبا جیسے ہی دنیا میں پھیلنے لگی اس نے اپنا بارڈر مکمل سیل کردیا۔ لاک ڈاؤن کی ا سٹینڈرڈ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے وائرس کو پھیلنے سے روکا اس دوران اپنی ٹیسٹنگ کٹ متعارف کروادی جس سے سستے اور فوری ٹیسٹ کرنے کی سہولت میسر آگئی۔ ویتنام کی اکانومی اتنی اچھی بھی نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو گھر بٹھاکے تین وقت کا کھانا کھلاسکے۔ ویتنامی حکومت نے سب کو کھلانے کی بجائے وائرس سے متاثرہ مریض اور اس کے لواحقین کے لیے کھانے پینے اور دیگر ضروریات پوری کرنے کا بندوبست کیا۔ ابتداء میں ہی اچھے اور بروقت فیصلوں نے ویتنام کو امریکہ۔ اٹلی۔ فرانس وغیرہ بننے سے بچالیا۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو بروقت فیصلہ کرنے اور اس پر عملدرآمد کرانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ آج جب ویتنام جیسا ملک کرونا جیسی وبا پر قابو پاچکا افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ہمارے حکمران باہم دست و گریباں ہیں۔ لیڈر وہ ہوتاہے جو قوم کی رہنمائی کرے یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے وزیراعظم پاکستان ایک دن کوئی بیان دیتے ہیں اگلے دن اس سے الٹ بات کردیتے ہیں۔ عمران خان اور اس کی کابینہ سندھ حکومت کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے ہیں۔ سندھ وہ پہلا صوبہ ہے جو وفاقی حکومت کی “نااہلی ” کا شکار ہوا۔ ایران سے آنے والے جن زائرین کو تفتان بارڈر پر روکا جاسکتا تھا انہیں زلفی بخاری کے “حکم” پر وائرس پھیلانے کا “لائسنس ” دے کر ملک بھر میں پھیلا دیا۔ اس کام کے لیے پہلا شہر سکھر چنا گیا۔ مراد علی شاہ نے اس چیلنج کو سنجیدگی سے لیا اور بروقت لاک ڈاؤن کرنے کے ساتھ ساتھ بہترین قرنطینہ مراکز قائم کیے۔ ان کی محنت پر وفاقی حکومت نے پہلے دن سے ہی “گولہ باری” جاری رکھی۔ کبھی ٹرانسپورٹرز کو اکسایا تو کبھی تاجروں کو بڑھکایا اور تو اور ڈاکٹروں اور مولویوں کو بھی سندھ سرکار کے تعاقب میں ڈال دیا۔ جیسا کہ میں نے کہا وزیراعظم ہمیشہ قوم کو لیڈ کرتا ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا۔ عمران خان اس قوم کو لیڈ اور متحد کرنے میں ناکام رہے جیسا کہ ماضی میں سوات آپریشن کے وقت آصف علی زرداری۔ ملک بھر میں دہشتگردوں کا صفایا کرنے کے لیے نوازشریف اور ڈینگی سے مقابلہ کرنے کے لیے شہبازشریف کرچکے۔ قوموں پر برا وقت آجائے تو لیڈر اسے متحد کرتا ہے وہ سیاست پر ریاست کو ترجیح دیتاہے لیکن خان صاحب جو ہمیشہ سے ہی دریا کی الٹی جانب تیرنے میں “فخر” محسوس کرتے ہیں وہ ان حالات میں بھی ریاست نہیں سیاست بچاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔