... loading ...
.
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور آزادیئ صحافت کے رنگ برنگی گروہ 3/ مئی کو”عالمی یومِ آزادی“ کے طور پر مناتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے1993 ء میں ونڈووک اعلامیہ (Windhoek Declaration) پر دستخط کی دوسری سالگرہ کے موقع پر یہ تاریخ متعین کی تھی۔ اس دن کا روایتی فہم 1948 ء کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے آرٹیکل 19 کے تحت درج اظہارِ رائے کے حقِ آزادی سے وابستہ ہے، اور حکومتوں کو اس کی پاسداری کا احساس دلاتا ہے۔ لیکن اس کا ایک عملی تصور ہے جو منافقت کی تھاپ پر الفا ظ کے رقص کا منظر پیش کرتا ہے۔ جس میں اربوں کھربوں کے کاروبار ِصحافت اور انسانی حقوق کی منافع بخش تجارت کی گھمن گھیریوں میں امریکا کے سامراجی چہرے کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ابھی پاکستان کے مغاں و مغبچوں کو اُن کے خم و قرابے اور مینا و ساغر کے ساتھ اِٹھلانے لہرانے دیں۔ ان کی سرمستیاں و دیوانگیاں تین میں آتی ہیں نہ تیرہ میں۔
مغربی دنیا گزشتہ تین صدیوں سے انسانی آزادی کے جو راگ الاپ رہی ہے، وہ انسان کی سب سے بڑی قدر کے طور پر تسلیم شدہ حالت میں سب سے بڑا دھوکاثابت ہوئی ہے۔ آزادی کوئی ایسا تصور نہیں جسے تسلیم کرانے کی کوئی جدوجہد درکار ہو۔ یہ تسلیم شدہ، جانا جنوایا اور مانا منوایا تصور ہے۔ اس کے باوجود یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دھوکا اورسب سے گمراہ کن تصور ثابت ہوا۔ گزشتہ تین صدیوں میں انسان کی تمام کارگزاری اس کے بھرم میں تکریم انسانیت کا بھرکس نکالنے سے عبارت ہے۔ علم وادب پر سامراجیت کے اثرات کا مطالعہ کرنے والے دنیا کے عظیم دانشور ایڈورد سعید نے اپنی کتاب ”کلچر اینڈ امپیریل ازم“ میں اس پورے تناظر کے کھوکھلے پن کو عریاں کردیا ہے۔ انیسویں صدی میں نوآبادیات کے ظہور وعروج سے بیسویں صدی میں امریکا کا کردار اُبھرنے تک ذرائع ابلاغ کا بہاؤ اسی سمت رہا ہے، جس میں نوآبادیوں کو ملنے والی آزادی میں قوم پرستی پھلی پھولی، قومی استبدادی حکومتیں قائم ہوئیں اور نو آبادیاتی رویوں کے نئے اظہاریے تقویت پاتے رہے۔ ذرائع ابلاغ آزادی کے بھرم میں ان سارے عوامل کے لیے ایک سازگار فضا بنانے میں مجرمانہ شراکت دار رہے، پوری دیانت اور اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اب بھی ہیں۔
ایک صدی پہلے کی دنیا میں چلے جائیں!یورپی ثقافت وہیں تھی،جہاں گورا خود بھی موجود تھا۔ واپس اپنی صدی میں آئیں۔ اب اس یورپی ثقافت کے لیے کسی گورے کی موجودگی ضروری نہیں۔ یہ کام ذرائع ابلاغ بخوبی کررہے ہیں۔ ایک صدی پہلے اور بعد کا عرصہ امریکا کی مٹھی میں رہا، جس میں اطلاعات کے بے پناہ پھیلاؤ کے ساتھ کنٹرول کے نئے نئے طریقوں کو ترقی کے نام پر رواج ملا۔ اس کے لیے مقامیت ختم کی گئی اور عالمگیریت کو اعلیٰ ذہانت کا ایک وصف باور کرادیا گیا۔ اس پوری سماجی بناوٹ (سوشل انجینئرنگ) میں ذرائع ابلاغ کا کردار مثالی رہا۔ پریس کلبوں کے باہرآزادیٔ رائے کو بھونکنے دیں اورکچھ بھی نہ کریں، بس یونیسکو کی ایماء پر ”انٹرنیشنل کمیشن فار دی اسٹڈی آف کمیونکیشنز پرابلمز“ کی رپورٹ ”Many Voices, One World“پڑھ لیں۔ ”نیو ورلڈ انفارمیشن آرڈر“ پوری طرح سمجھ میں آجائے گا۔یہاں ایڈورڈ سعید کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور افغانستان کی حالیہ جنگ میں ذرائع ابلاغ کے مکروہ کردار کا چہرہ دیکھ لیں۔ یہ تو ہمارے گھر آنگن کا واقعہ ہے۔مغربی ذرائع ابلاغ کی بدکاریوں کو چھوڑیئے!جس کا مشاہدہ ہم اپنی آنکھوں سے کرتے رہے۔ پاکستان کے مرکزی ذرائع ابلاغ (ایم ایس ایم)نے بھی اس جنگ میں مختلف نظریات کے بہانے پوری طرح امریکا کا ساتھ دیا۔ پاکستانی صحافی امریکیوں سے ایسے ملتے رہے جیسے دو بھائی ملتے ہوں۔ پاکستان کے خلقی استعمار دشمن معاشرے میں ایسے ایسے تصورات انڈیلے گئے جس نے ہماری مذہبی، سماجی، اخلاقی اور سیاسی اقدار کو اندر سے ہلا ڈالا۔ کسی گورے کی یہاں ضرورت نہیں پڑی۔ بے شرم ذرائع ابلاغ اس منافع بخش کاروبار میں ڈبکیاں لگاتے رہے۔
حریتِ فکر انسان کے ساتھ وابستہ تصور ہے جسے ذرائع ابلاغ نے اپنی آزادی کی مٹھی میں لے لیا ہے۔ انسان کی آزادی اور کارپوریٹ میڈیا کی آزادی کوئی ہم معنی الفاظ نہیں۔ مگر اقوامِ متحدہ کے زیرسرپرست اداروں نے انسانی حقوق کی تاجر عالمی تنظیموں اور آزادیٔ صحافت کے رنگ برنگی کاروباری گروہوں کے ساتھ مل کر آزادی کو ایک عالمگیر انسانی قدر کے طور پر ذرائع ابلاغ سے جوڑ دیا ہے۔ 3/ مئی کی تاریخ اپنے پورے کھوکھلے پن کے ساتھ اس منافع بخش کاروبار کے منافقانہ رقص کی تاریخ ہے۔ ذرائع ابلاغ کسی درست وغلط کی بصیرت سے بروئے کار نہیں آتے۔ ان کی پوری بنت نفع ونقصان کے گورکھ دھندے اور آمدن واخراجات کی میزانئے پر ہوتی ہے۔ آپ ایک ہی ساتھ منڈی اور معاشرتی اصولوں پر اجارہ کیسے قائم کرسکتے ہیں۔ جبکہ اکثر معاشرہ اور منڈی الگ الگ اُصولوں، اہداف اور مقاصد کے ساتھ حرکت پزیر ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں حالیہ صحافتی بحران اسی کشمکش سے پھوٹا ہے۔
ئ آزادیٔ اظہار کے لیے ایک مستقل اُصول درکارہے، جسے کاروباری مفادات سے کوئی نسبت نہ ہو۔ جو سیاسی وسماجی فضامیں سانس لیتا ہو۔ اور جو پاگل کے ہاتھ میں بندوق کی طرح استعمال نہ ہوتا ہو۔ ظاہر ہے! یہ ایک مستقل سماجی ذمہ داری کا نام ہے۔ منڈی کی نفسیات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ سماجی ذمہ داری سے مراد کیا ہے؟ ہماری سماجی زندگی مختلف دائروں میں بہتی ہے۔ اس کے اکثر عوامل متضاد نوعیت بھی رکھتے ہیں۔ چنانچہ یہاں آزادی کا مطلب ان متضاد منطقوں کے کامل شعور کے ساتھ بروئے کار آئے گا۔ آزادیٔ اظہار ایک سماجی ذمہ داری کے طور پر کسی ”مقصد“ کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جو آزادیٔ اظہار کی بات کرتے ہیں، اُن سے پوچھا جائے کہ وہ کیا ”اظہار“ کرنا چاہتے ہیں، جن کی اُنہیں ”آزادی“میسر نہیں تو اُن کی باتیں دانتوں میں بن جانے والے سوراخوں سے نکلنے والی سیٹیوں جیسی رہ جاتی ہیں۔ وہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔یہ انتہائی ضروری ہے کہ سماج کے اندر متضاد بہتے دھاروں کو الگ الگ آزادیٔ اظہار کا موقع یکساں طور پر میسر رہے، تاکہ ایک متوازن معاشرے کو پیدا کرنے کے لیے ہمہ گیر فضا پیدا ہو سکے۔ جس میں سیاسی، سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی اقدار کی ایک ایسی تہذیب جنم لے سکے جو قومی تعمیر کے مشترک جذبے میں پیوست ہوتی ہوں۔ مگر کیا آزادیٔ اظہار کے موجودہ جعلسازاور خانہ ساز تصور کا کوئی بھی اُصولی تناظر یہاں موجود ہے؟سب کا سب کاروبار ہے۔ کچھ وابستگیاں ہیں، اور منفعت بخش تعلقات ہیں۔ اس کے لیے سیاسی مثالیں ایک طرف رکھیں۔ ایک کاروباری آدمی کی مثال لیتے ہیں۔جس کو ایک ایسا ہنر آتا ہے جس کا درست ترین اظہار روزمرہ بول چال کی زبان سے ہوتا ہے۔ یعنی جیسا منہ ویسی تھپڑ!! یہ آدمی کوئی اور نہیں سب کے محبوب ملک ریاض ہیں۔ ملک ریاض کے تعلقات کی آکاس بیل کے ساتھ محترم المقام آصف علی زرداری بھی بندھے ہیں اور عزتِ ماب نوازشریف بھی جڑے ہیں۔ وہ پاکستان کی ہر حکومت کا نفسِ ناطقہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان کے مرکزی ذرائع ابلاغ میں ان کا کوئی منفی ذکر نہیں آسکتا۔ یہاں تک کہ عدلیہ اور فوج تک کے خلاف آزادیٔ صحافت کے نام پر زبانیں دراز رکھنے والے بھی اس کردار سے آنکھیں چراتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مولانا طارق جمیل کے متعلق ایک بیانیہ تشکیل دینے والوں نے یہ پہلو دو دھاری تلوار کی طرح اُن کے خلاف استعمال کیا کہ وہ نوازشریف کے ساتھ بھی اسی طرح وابستہ رہے جیسے وہ ان دنوں عمران خان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یہ مسئلہ تو زیادہ بھیانک طور پر ملک ریاض کے ساتھ بھی وابستہ ہے۔ جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی اور یوں بھی، کی اگر کوئی شاندار و شاہکار مثال ہے تو وہ ملک ریاض ہیں۔پھر یہ اعتراض اُن پرکیوں نہیں داغا جاتا جبکہ وہ بھی موجودہ حکمرانوں تک رسوخ حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ دنیا بھر کے مرکزی ذرائع ابلاغ(ایم ایس ایم) میں حالیہ کورونا وبا کے بحران میں بل گیٹس کا ذکر ٹھیک اسی طرح نہیں کیا جاسکتا جیسے یہاں ملک ریاض کا نہیں کیا جاسکتا۔کیا آپ کو گانے کے وہ بول یاد آرہے ہیں، پیسہ بولتا ہے!!!
آزادیٔ اظہار کا مطلب من مانیاں نہیں ہوتیں۔ یہ ایک موقف ہے، جس کے کچھ موضوعات ہونے چاہئے۔ یہاں آزادیٔ اظہار محض ایک نعرہ ہے جس کے الفاظ بھی سالہاسال سے تبدیل نہیں ہوئے۔کسی بھی بڑے خیال کو الفاظ کے ساتھ زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ اگر خیال بڑا نہ ہوگا تو اس کے لیے الفاظ بھی کم پڑتے جائیں گے۔ الفاظ کے ایسے قحط کے ساتھ صرف شور کیا جاسکتا ہے۔ کوئی معنی خیز ماحول نہیں بنایا جاسکتا۔ چنانچہ آزادیٔ اظہار کی تمام سرگرمیاں یہاں صرف شور پیدا کرتی ہیں۔ یہاں تک کے اس کے مخالف بھی یہی کہتے ہیں: ”آزادیٔ اظہار کو بھونکنے دو“۔ اس فضا میں جو ذہنیت پیدا ہورہی ہے، وہ ایک دوسرے کو سمجھنے یا برداشت کرنے کی نہیں بلکہ ایک دوسرے کوپھینکنے، پھوڑنے اور پٹخنے کی ہے۔ ایسا ماحول بآلاخر متشدد ذہنیت کو باجواز بنادیتا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ ہتھیار استعمال ہوں۔ اخبارات پڑھیں بارود کی بُو آئے گی۔ ٹی وی دیکھیں۔ آوازیں توپوں کی گھن گرج لگنے لگیں گی۔ ایسے لوگوں کے منہ میں آزادیٔ اظہار کا نعرہ ایک دیوانے کے ہاتھ میں کھلی بندوق کی طرح لگتا ہے۔ پھر بھی ہمیں کبھی نہ کبھی آزادیٔ صحافت کی اس چڑیا کا سراغ لگانا تو پڑے گا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔