... loading ...
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس سے میری ایک ہی ملاقات ہوئی تھی۔ اس شخصیت نے مجھے بہت متاثر کیا ہم کافی دیر باتیں کرتے رہے اس کی زباں بہت شیریں تھی وہ بولتا تو یوں لگتا جیسے کانوں میں رس گھول دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ بتاتا کہ میرا تعلق فلاں علاقے سے ہے۔ میں نے پوچھ لیا کہ لالہ جی آپ سرائیکی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس نے کہا جی۔۔۔
لالہ۔۔۔ پھر کہنے لگے ذات دا اعوان ہاں تے رحیم یار خان دی تحصیل خان پور دے علاقے ملک آباد دا رھن آلاں۔ دھرتی کی مٹھاس میں گندھی بولی میں وہ اپنے بارے بتاتا رہا۔ ساتھ بیٹھے بزرگ گلوکار استاد شفیع وتہ خیلوی نے بات کاٹتے ہوئے بتایا کہ لالہ افضل پانچ زبانوں میں شاعری کرتا ہے۔ ملنگ آدمی ہے جہاں عزت کی روزی مل جائے ڈیرہ ڈال دیتا ہے۔ باتیں ہوتی رہیں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا استاد شفیع نے کہیں جانا تھا لالہ افضل نے بھی ساتھ اجازت چاہی اور میرے آفس سے چلے گئے۔ 12 سال گزرتے پتہ ہی نہ چلا میں اپنے لیے رزق کی تلاش میں یوں مگن ہوا کہ پھر لالہ افضل سے نہ مل سکا۔ کبھی کبھار اس کا فون کبھی ہری پور سے تو کبھی کراچی سے۔ کچھ دن پہلے اس کے فون سے کال آئی تو بولنے والی آواز نامانوس تھی۔ اس نے بتایا میں افضل جمال کا بیٹا منیر ہوں۔ والد صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ آج آپ کو فون اس لیے کیا کہ آپ لاہور میں رہتے ہیں۔ صحافی ہیں ہمارے لیے کچھ کریں۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے درخواست کریں کہ وہ ہمارے جیسے غریبوں کا کچھ بھلا کردیں۔ والد صاحب نے پنجاب میں بولی جانے والی زبان پنجابی۔ سرائیکی اور اردو میں ایسے کمال کے گیت لکھے ہیں جو دنیا بھر میں پنجاب کی پہچان بنے۔ آج ہم بہن بھائی دربدر رل رہے ہیں۔ افضل جمال ساری زندگی شاعری کو دے گئے ہمارے بارے سوچ ہی نہ سکے۔ والد صاحب پنجاب کی ثقافت کی خدمت کرتے اللہ کو پیارے ہوگئے ان کی نماز جنازہ می کسی حکومتی عہدیدار نے تو کیا شرکت کرنا تھی وہ بھی میت کو کاندھا دینے نہ آئے جو افضل جمال کے کندھوں پہ بیٹھ کے موسیقی میں اپنا قد بڑا کیا کرتے تھے۔ افضل جمال کا بیٹا بالکل اپنے ابا کی طرح بولتا جارہا تھا مجھ میں ہمت ہی نہ تھی کہ اسے ٹوک کے کوئی سوال کرتا۔ شاید میرا ضمیر بھی ملامت کررہاتھا کہ میں بھی ان لوگوں کی صف میں کھڑا ہوں جو اس کی نماز جنازہ میں بھی شریک نہ ہوسکے تھے۔ گلوکاروں میں سے صرف نعیم ہزارہ نے ثابت کیا کہ نسلی انسان اور تعلق نبھانا جانتاہے۔ وہ نمازِ جنازہ میں بھی شریک ہوا اور اپنے ہاتھوں سے اپنے محسن کو لحد میں اتارنے کا فریضہ نبھایا۔ لالہ افضل کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے جن کے لکھے گیت عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی سے بشریٰ صادق۔ شازیہ منظور سے افشاں زیبی تک تمام قابل ذکر گلوکاروں نے گائے۔ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کا گایا گیت۔۔۔ راشہ راشہ راشہ پخیر سوہنیا۔۔۔ ہر ویلے منگاں تیری خیر سوہنیا۔۔
بشریٰ صادق کا گایا گیت۔۔۔ ونگاں چڑھا لو کڑیو میرے مرشد دے دربار دیاں۔۔ ان کے لکھے اکثر گیت زباں زدِ عام ہوئے۔ افسوس! ایسے شاہکار گیتوں کا لکھاری خود گمنامی میں راہی ملک عدم ہوا۔
قارئین کرام! یہ المیہ صرف افضل جمال تک ہی محدود نہیں اس ملک اور خصوصاً پنجاب میں ثقافت دم توڑ رہی ہے۔ موسیقی کا ماتم جاری ہے۔
میرے فیس بک فرینڈ ساحر قریشی نے ایک خبر اور تصویر شئیر کی۔ تصویر کیا تھی دراصل اس ملک میں دم توڑتی موسیقی کا “جنازہ ” تھا۔ شیخوپورہ کا لوک گلوکار شوکت علی پنجاب کے سب سے بڑے ثقافتی مرکز لاہور آرٹس کونسل صرف امید سے آیا کہ امدادی چیک وصول کرسکے۔ اس معمولی سی رقم سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے سپنے سجائے جب وہ الحمراء پہنچا تو افسر شاہی کی تہہ میں لپٹی آرٹس کونسل سے “پھر آئیں ” کا سٹیریو ٹیپ جواب سن کر برداشت نہ کرسکا۔ اس کے ساتھی قریبی ہسپتال لے گئے ڈاکٹر نے بتایا کہ ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ شوکت علی جو اپنے ماہیوں۔ ٹپوں۔ بولیوں اور لوک گیتوں کے ذریعے لوگوں کے دل جیتا کرتا تھا۔ لاہور آرٹس کونسل کے ہاتھوں وہ دل “ہار” گیا۔ اس کے ساتھ بھی افضل جمال والا رویہ اپنایا کسی قابل ذکر حکومتی شخصیت تو دور مقامی انتظامیہ میں سے بھی کسی نے نماز جنازہ میں شرکت نہ کی۔ ہمارے دوست ساحر قریشی سمیت چند لوگ شریک ہوئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب! آپ پنجاب کے اس خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کی مٹی میں بھی مٹھاس ہے۔ خدا کے لیے پنجاب کی دم توڑتی ثقافت اور مرجھاتی موسیقی کو بچالیں۔ افضل جمال اور شوکت علی تو مر گئے ان کے گیت اور ان کے بچے تو زندہ ہیں ان کو غربت کے ہاتھوں مرنے سے بچالیں۔۔۔ یہی استدعا وزیراعظم پاکستان۔ وزیراعلیٰ سندھ۔ بلوچستان۔ کے پی کے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم سے بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔