... loading ...
دائم زندہ رہنے والا ناول نگار جارج اورویل پچاس کی دہائی میں اُنگلی پکڑ کر ہمیں اگلی صدی کی دوسری دہائی تک پہنچاتا ہے۔ جہاں سب کچھ ایک مضبوط نگرانی کے نظام کے تحت چلتا ہے۔ جارج اورویل کے ناول ”1984“کے تحت ماضی اور مستقبل دونوں ہی حال کے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ حال انتہائی سخت نگرانی سے ہی قابو کیا جاسکتا ہے۔ یہ نگرانی ہر طرح سے ہوتی ہے۔اس میں خیالات کے دھاروں کو بھٹکانے سے لے کر اسے مکمل قابو کرنے تک سارے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس تناظر میں حکومت کی مختلف وزارتیں اپنے اپنے کام کرتی ہیں۔ وزارتوں کی تقسیم اُن کے فرائض کے مطابق نہایت دلچسپ ہے۔
٭وزارتِ امن کا کام جنگیں ہیں۔
٭وزارتِ سچائی دراصل پروپیگنڈے کا محاذ سنبھالے گی۔
٭وزارتِ محبت کے ذمے ہر قسم کا تشدد اور ایذارسانی ہوگی۔
یہ تصورات اپنی تشکیل میں ہی کتنا بھیانک لگتے ہیں۔ مگر عملاً یہ دنیا میں آج رائج ہیں۔اقوام عالم کے مابین مراسم اور معیشت کا پورا تناظر جنگیں ہیں۔ امریکا کی پوری تاریخ جنگوں کے جنون سے وابستہ ہے۔ یہ سب امن کے خوش نما تصورات کی چھتری کے نیچے ہورہا ہے۔ اورویل کی”وزارت سچائی“ دراصل آج کا ماجرا ہے۔ پوری دنیا ہمہ نوعی پروپیگنڈے کے نرغے میں ہے۔ جس میں صرف ”سچ“ کا سراغ ہی لگانا ناممکن ہے۔ ایک مصنوعی اور فریب زدہ ماحول چاروں طرف طاری ہے۔ جس میں مرکزی ذرائع ابلاغ (ایم این ایم) سے لے کر سوشل میڈیا (متوازی ذرائع ابلاغ) تک ہرذریعہ پروپیگنڈے پر صرف ہورہا ہے۔ ہماری نجی زندگی کا ہر پہلو اس کے نشانے پر آگیا ہے۔ رازداری نام کی کوئی چڑیا کہیں موجود نہیں رہی۔ انٹرنیٹ خواب گاہوں کی مسہریوں پر چپکے سے رسائی پا چکا ہے۔ انسان کے سونے جاگنے کے اوقات سے لے کر اُس کے معمولاتِ حیات تک ہر عمل نگرانی کے دائرے میں آچکا ہے۔ گوگل ہماری سرگرمیوں کو تاڑتا رہتا ہے۔صارف کے اوپر انڈیلے گئے اشتہارات یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ ہمارے زیرمطالعہ موضوعات کی درجہ بندی کس سلیقے سے کرتا ہے۔ ہمارا تعاقب جاری ہے، ہمارے سرگرمیوں کے لیے کوئی اندھیرا باقی نہیں رہا۔ تاریخ کے سب سے تاریک دور میں آج کا جدید ترین انسان رہتا ہے جو ترقی کے نام نہاد تصور کے نام پر ایک مسخ شخصیت کے ساتھ ایسے شب وروز بِتا رہا ہے جس میں اُس کا عمل دخل ایک ان دیکھی مرضی کے ماتحت غلاموں کی طرح ہے۔ مگر یہ ایسا جدید اور تعلیم یافتہ انسان ہے جسے اس کا شعور تک نہیں۔”وزارتِ سچائی“کی کارکردگی کے نتیجے میں دنیا کیا ہو جائے گی، اس کا نقشہ ناول ”1984“میں پوری طرح کھینچا گیا ہے:
”دنیا کو اپنی غلامی کا احساس ہی نہیں ہو گا کیونکہ سمجھ بوجھ رکھنے والی نسلوں کی جگہ بیوقوف اور فرماں بردار لوگ آ جائیں گے جو صرف حکمرانوں کی مرضی کے مطابق کام کرنے کے قابل ہوں گے“۔
اوشیانا پر حکومت کرنے والی ”بگ برادر“ کی انقلابی پارٹی کا منشور بالکل واضح ہے۔یہی حکمرانوں کی مرضی ہے، جسے وزارت سچائی مختلف طریقوں سے عوام میں راسخ کرتی ہے۔ ناول میں یہ منشور تین نکات میں بیان کیا جاتا ہے۔
”War is peace. Freedom is slavery and ignorance is strength.“
اس منشور کے خمیر سے عوام تیار کیے جائیں گے۔ جارج اورویل جب یہ ناول لکھ رہے تھے تو انٹرنیٹ تھا نہ کمپیوٹر۔ گوگل صاحب بھی ابھی پیدا نہ ہوئے تھے۔ موبائل فون تھا نہ فائیوجی ٹیکنالوجی۔ مگر ناول نگار نے ایک”ٹیلی اسکرین“کی خیالی مشین میں ٹیکنالوجی کے سارے اہداف ہی ڈال دیے۔ ٹیلی اسکرین انسان کے ذہن کو کنٹرول کرتی ہے۔ جارج اورویل کی خیالی مشین سے جو کام لیا جاتا ہے، وہی سارے کام آج کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے لیے جارہے ہیں۔
دنیا میں جب بھی انسانوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کے لیے سخت گیر ہتھکنڈوں کو استعمال کیا جاتا ہے تویہ جارج اورویل کے ناول کی مناسبت سے ”اورویلین“کی اصطلاح سے بیان کیے جاتے ہیں۔ کوورنا وائرس کے خلاف لڑائی میں قومی ریاستی تیور عالم انسانیت کو ایک بار پھر اورویلیئن ڈراؤنے خواب میں لے گئے ہیں۔ پوری دنیا کی سوشل انجینئرنگ اور کنٹرول کے نت نئے پروگرام سامنے آرہے ہیں۔ تمام عالم کا معاشرتی تار پود تباہی کی دہلیز پر ہے۔ عام افراد کا نجی معاشی مستقبل اس کی جدوجہد پرانحصار کے بجائے چند ہاتھوں کی انگلیوں پر جارہا ہے۔ نجی آزادی اور رازداری کا حق قصہ پارینہ بننے والے ہیں۔اب پہلے سے کہیں زیادہ ناگوار اور سخت گیر ٹیکنالوجیز متعارف ہونے کے قریب ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکا کے مرکزی ذرائع ابلاغ (ایم ایس ایم)دنیا کو اطلاع دے رہے تھے کہ حکومتیں کووڈ۔19 کے کسی بھی ممکنہ میزبان(کیئریئر) کو ڈرون کے ذریعے جانچ پڑتال کرسکتی ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ڈرون کسی بھی وقت آپ کے سر پر منڈلا سکتا ہے اور یہ دیکھ سکتا ہے کہ آپ بخار میں مبتلا تو نہیں، آپ کا درجہ حرارت یہ تعین کرنے کے لیے ہوگا کہ کہیں آپ کورونا وائرس کے میزبان تو نہیں بن رہے۔اس پروگرام کے تحت آپ کا انفرادی تعاقب آپ کے اپنے اسمارٹ فون سے ممکن ہو سکے گا۔جس میں ایک نقشہ سازی کا آلہ موجود ہوگا۔ جسے اسرائیلی کمپنی نے بنایا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ بتا رہے ہیں کہ اسرائیلی کمپنی اس ٹیکنالوجی کے ساتھ امریکی منڈی میں قدم جمارہی ہے۔
آسمان سے انسانی صحت کو کنٹرول کرنے کی باتیں روزمرہ کے مباحث میں شامل ہیں۔ ڈرون تیار کرنے والی کمپنی ڈریگن فلائی کے یہ دعوے اخبارات کی سرخیاں بن چکے ہیں کہ اُن کی ڈرون ٹیکنالوجی عوام کی صحت کی بروقت نگرانی کرسکتی ہے۔ درحقیقت ڈریگن فلائی نے کورونا وبا کے تناظر میں ایک آزمائشی منصوبہ (پائلٹ پروجیکٹ) امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کے ایک قصبے ویسٹ پورٹ میں شروع بھی کیا۔ جس کا مقصد ڈرون کے ذریعے شہریوں کے بخار یا کھانسی کی نگرانی بتایا گیا تھا۔ ریاستی انتظامیہ کو شہریوں کی رازداری کے خدشات پر اس منصوبے کو بیچ میں ختم کرنا پڑا۔ ویسٹ پورٹ کے پولیس چیف فوٹی کوسکناس نے ڈرون طیاروں کو گراونڈ کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے واضح کیا کہ اس سے شہریوں کی نجی زندگی اور رازداری کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے تھے۔ تیاریاں مکمل ہیں، بس عوامی ردِ عمل کا خوف ہی مزاحم ہے۔ چنانچہ ویسٹ کورٹ کی انتظامیہ نے ڈریگن فلائی کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ پیشکش بھی کی کہ وہ آئندہ کی اختراعات میں ہونے والے تجربات کا حصہ بننا چاہیں گے۔ اگر آپ ڈرون کے ذریعے صحت کی نگرانی پر غور کریں تو یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو ہوا میں چاروں طرف تیری پھرتی نظر آتی ہے۔جو اہلِ اقتدار کے مستقبل کے منصوبوں کے لیے ایک پر کشش فضاء پیدا کرتی ہے۔
اب آپ سوچیں ڈبلیو ایچ او ہمیں مستقل طور پر خوف زدہ کررہا ہے کہ موسم خزاں کے آخر یا موسم سرما کے اوائل میں کورونا وبا کی ایک نئی لہر سر اُٹھائے گی۔ ڈرون ٹیکنالوجی اس کے لیے تیار ہے۔ یہی تو اورویلیئن ڈراونے خواب ہیں۔
انسانی آزادیوں کا ایک اور دشمن خیال چاروں طرف منڈلارہا ہے۔ ایک اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ اس پروگرام کی بانی ہے۔ اس گروپ کے سارے ملازمین آئی ڈی ایف (اسرائیلی ڈیفنس فورس) کے سابق فوجی ہوتے ہیں۔ یہ گروپ ایک انتہائی متنازع جاسوسی پروگرام سے جاناجاتا ہے۔جسے پیگا سس (Pegasus)کہتے ہیں۔ اس پروگرام نے انسان کی چلتے پھرتے اسمارٹ فونز کے ذریعے نگرانی کو ممکن بنایا۔ این ایس او گروپ کی تاریخ پہلے سے ہی انتہائی متنازع رہی ہے۔ این ایس او اپنے پیگاسس کے جدید ترین آلے کے ذریعے سول سوسائٹی کے بہت سے ارکان کو نشانا بنا چکی ہے۔ اُس کے سافٹ وئیر اہداف میں مشرقِ وسطیٰ، میکسیکو، ایشیااور یورپ میں دو درجن سے زائد سرگرم کارکن، صحافی اور وکلاء شامل رہے ہیں۔اس حوالے سے یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی ڈیجیٹل واچ ڈاگ، سٹیزن لیب نے کافی تفصیلی تجزیہ کیا ہے۔ اسرائیلی کمپنی کا یہ متنازع جاسوسی پروگرام سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں بھی اپنے نشانات چھوڑتا ہے۔ عمر عبدالعزیز نامی ایک شخص نے ایک مقدمہ دائر کیا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ استنبول میں سعودی سفارت خانے میں 2018 میں ہونے والے قتل میں واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی سے اُن کی گفتگو کو پیگاسس کے ذریعے روکا تھا۔ اب یہی کمپنی ایک نیا پروگرام ”فلیمنگ“ کے نام سے متعارف کرانے جارہی ہے۔ جس میں ایک ایسا جدید ترین نقشہ ساز آلہ پیش کیا جارہا ہے جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی بروقت نشاندہی کرے گا۔ اس طرح وبائی امراض کی روک تھام کو ممکن بنایا جاسکے گا۔ یہ ایک طرح سے کورونا وائرس سے لڑنے کے نام پر انسان کا مکمل ڈیجیٹل تعاقب ہے۔ ڈرون پہلے سے گھاٹ لگاکر بیٹھا ہے۔
کورونا وائرس کے نام پر دنیا بھر میں طاقت ور اشرافیہ جس قسم کی ناگوار اور کراہیت آمیز ٹیکنالوجیز متعارف کرانے کے لیے پر تول رہی ہے، وہ ہمیں سیدھے اورولیئین خواب کی لرزہ خیز دہلیز پر کھڑے کردیتے ہیں۔ اگر ان ٹیکنالوجیز کو نافذ کرنے کی اجازت دی گئی تو انسانی معاشرے میں جو بچی کھچی آزادیاں رہ گئی ہیں، وہ بھی باقی نہیں رہیں گی، یہ ایک ایک کرکے آہستہ آہستہ چھین لی جائیں گی۔ اس کے لیے ناگوار ٹیکنالوجیز کو ابتدامیں ہی مزاحمت کرکے روکنا ہوگا۔ دنیا میں یہ مزاحمت شروع ہوگئی ہے۔ لاک ڈاؤن کا کھیل دراصل کورونا وبا کے حوالے سے نہیں بلکہ اس خوف کے لیے شروع کیا گیا تھا، جس میں انسانی معاشروں کے اندر اس ناگوار ایجنڈے کے نفاذ کو آسان بنایا جاسکے۔ راستا موجود ہے، جیسے امریکی ریاست کنیکٹیکٹ میں ویسٹ پورٹ کے عوام نے اپنے سخت، بروقت اور نتیجہ خیز ردِ عمل سے ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کو روک دیا۔یہ ایک عالمگیر ایجنڈا ہے، اس لیے یہ لڑائی بھی عالمگیر ہے۔ جارج اورویل کے ناول 1984 کی ورق گردانی کیجیے! اور پھر اُن اقدامات کو دیکھیے جو کورونا وبا کے نام پر سامنے آرہے ہیں۔ کہانی ورق در ورق کھلنے لگے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔