... loading ...
دنیا میں کوئی بھی نیا بحران ہمیں ”جارج اورویل“ کی پیش گوئیوں کے قریب کردیتا ہے۔
کورونا وائرس کا بحران ہمیں ایک بار پھر جارج اورویل کی جانب متوجہ کرتا ہے۔جارج اورویل کے ساتھ آج کا دن بِتاتے ہے، وہ ہمیں ایک متوازی دنیا میں لے جاتا ہے جس کی سنگینی حیرت کے ساتھ لطف بھی دیتی ہے۔
ارک آرتھر بلیئر اپنے قلمی نام جارج اورویل کے نام سے معروف ہے۔وہ 1903ء میں متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوا، جہاں اُس کے والد انڈین سول سروس میں ملازمت کرتے تھے۔ جارج کا خاندان اُس کی پیدائش کے صرف چار سال بعد انگلستان پلٹ گیا۔ اُس کا انتقال 23/ جنوری 1950 کو ہوا۔ اس طرح جارج نے بمشکل سینتالیس برس کی مختصر زندگی پائی۔ مگر یہ دور انتہائی ہنگامہ خیز تھااورجارج اوریل انتہائی بیدار مغز۔ جارج اورویل نے اس عرصہئ حیات میں کمیونزم کو پھلتے پھولتے دیکھا۔دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام کوتتر بتر ہوتے دیکھا۔ ہندوستان میں اس نظام کی آخری ہچکی سنی۔ دنیا کے اس عظیم ناول نگار نے اپنے پیچھے ایسا ادبی سرمایہ چھوڑا ہے، جو اُس کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اُس کی 1933ء سے 1939 ء کے درمیان چھ برسوں میں یکے بعد دیگرے سات کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔ مگراُس کے 1945ء میں سامنے آنے والے سیاسی تمثیلی ناول ”اینیمل فارم“ نے ایک تہلکہ مچادیا۔ پھر اپنی موت سے صرف ایک سال قبل اُس نے 1949ء میں اپنا شہرہ آفاق ناول ”1984“ لکھا۔ یہی ناول موت کے باوجود اُسے مرنے نہیں دیتا۔ جارج اورویل نے ”1984“ میں ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے، جس میں نگرانی کا ایک غیر معمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، یہاں تک کہ انسان اپنے ذہن میں بھی کوئی قابلِ اعتراض سوچ کو سنبھال کر نہ رکھ پائے گا۔ ہر وہ سوچ جو اس حکومت کی منشاء کے خلاف جنم لے گی، پہرے داری میں پکڑے جائی گی اور قابلِ سزا جرم ہوگی۔
جارج اورویل کا”1984“ دراصل ناول کی صنف میں ڈسٹوپیئن (dystopian) کے طور پر زمرہ بند کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ ایک یوٹوپیا یعنی مثالی ریاست کے برعکس ایک بیمار اور جابرانہ حالت پر قائم ریاست یا معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔یہ ایک سپراسٹیٹ ہے جسے اوشیانا کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کی عکاسی کرتا ہے جس میں ریاست کے ہر شہری کی نگرانی کا ایک وسیع اور محیط تر نظام ہے۔استبدادی حکومت ”بگ برادر“ کے کنٹرول میں ہے۔ اب یہ اصطلاح آج کے امریکا میں ”ڈیپ اسٹیٹ“کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔جارج اورویل جس زمانے میں اس حکومت کی پیش بینی کررہا تھا، وہ آج کی جدید دنیا کے نگرانی کے آلات سے یکسر بے خبر تھا۔ مگر بگ برادر کی حکومت عوام کے دلوں اور ذہنوں تک کے خیالات پر مکمل گرفت کا مستحکم نظام رکھتی ہے۔یہ گھروں اور نجی زندگیوں میں پوری طرح دخیل ہے۔ ناول میں ایک اصطلاح ”Thought Crimes“ استعمال کی گئی ہے۔ اس سے مراد شہری کے ذہن میں اپنے طور پر اُبھرنے والی کوئی بھی سوچ ہے،یہ کوئی جرم نہیں بلکہ بگ برادرز کے نزدیک آپ کے ذہن میں پلنے والا کوئی”مجرمانہ خیال“ ہے۔ وہ خیال جس نے عمل کا روپ تو کبھی نہیں دھارا مگر ابھی الفاظ میں بھی نہیں ڈھل سکا۔ بگ برادر آپ کے تعاقب میں ہے اور آپ کے ذہن میں موجود خیالات کی نگرانی کررہا ہے۔ اُس کی ایک ”Thought Police“ ہے جو ان خیالات پر آپ کو گرفتار کرسکتی ہے۔بگ برادر کی حکومت وسیع تر نگرانی کے نظام میں آپ کی کسی بھی گھریلو حالت کو خطرناک قرار دے کر آپ کو شکنجے میں لے سکتی ہے۔
ہمارے آج کو پوری طرح نگرانی کے نرغے میں لیے جانے کے باوجوداس پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جارہا ہے۔ جارج اورویل جن حالات کی پیش بینی کررہا تھا، وہ ہمارے آج پر پوری طرح منطبق ہوتے ہیں۔ نو گیارہ کے بعد دنیا میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہورہا ہے، وہ سب جارج اورویل کے پیش قیاسی ناول کے عین مطابق ہے۔ سابق امریکی صدر بش کے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پیشگی حملوں کے نظریے سے لے کر نگرانی کے نئے اور متحرک طریقے دراصل اسی ناول کے سیاق وسباق میں نظر آتے ہیں۔نام نہاد ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے نام پر جو دنگل امریکا نے سجایا، اس میں جرمِ سوچ کوئی خیالی تصور نہیں رہا، بلکہ ایک واقعہ بنا دیا گیا۔ ایک مسلمان کو آسٹریلیا میں اگست 2008 ء میں محض ایک کتاب مرتب کرنے پر سزادی گئی۔ سڈنی میں اسی نوع کے بہت سے مقدمات اس واقعے کے بعد بھی چلائے جاتے رہے۔ یورپی ممالک میں مختلف قسم کے ملتے جلتے ٹیررازم ایکٹ متعارف کرائے گئے۔ جو لکھنے پڑھنے، سوچنے سمجھنے کی سرگرمیوں کی بھی نگرانی کرکے اُنہیں سزا کے دائرے میں لاسکتے ہیں۔ برطانیا میں ایک مسلم خاتون بھی ایسی ہی سزا بھگت چکی ہے، جو جارج اورویل کی اصطلاح میں جرمِ سوچ سے ہی تعبیر کی جاسکتی ہے۔ ایک اٹھارہ سالہ نوجوان حماد منثی کو صرف اس لیے سزا سنائی گئی جو ایسے مواد کا مطالعہ کررہا تھا، جسے برطانیا پروپیگنڈے کی زبان میں جہادی لٹریچر قرار دیتا تھا۔ روزنامہ گارجین نے ایسے بہت سے واقعات کامختلف اوقات میں احاطہ کیا جس میں سے ایک یہ بھی تھاکہ ایک طالب علم کو علمی تحقیق کے لیے القاعدہ سے متعلق مختلف معلومات کو ڈاؤن لوڈ کرنے پر گرفتاری اور پھر ملک بدری کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔
ناول ”1984“ نے دنیا کی حالیہ سیاست کی تفہیم میں بہت مدد کی ہے۔ بلکہ اسے بہت سی اصطلاحات سے مالامال کیا ہے۔
بگ برادر(Big Brother)، ڈبل ٹھنک (double think)،جرمِ خیال(thought crime)، نیواسپیک (New speak)، روم 101 (Room 101) وغیرہ اسی ناول کی اصطلاحات ہیں، جو آج تک مختلف سیاسی تجزیوں، کالموں اور خبروں میں مثالوں کے طورپر استعمال ہوتی آرہی ہیں۔امریکی ہفت روزہ جریدے نے 1923ء سے 2005ء تک بیاسی برسوں میں لکھے گئے تمام ناولوں میں سے سو بہترین ناولوں کا انتخاب کیا تو جارج اورویل کا یہ ناول اس میں شامل تھا۔ بی بی سی کے 2003ء کے ایک سروے سے یہ پتہ چلا کہ ناول ”1984“ سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ناولوں کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر آتا ہے۔ امریکا میں 2013ء میں خود امریکی عوام کی نگرانی کا اسکینڈل سامنے آیا جس سے پتہ چلا کہ امریکا کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی (این ایس اے) خود امریکی عوام کی جاسوسی میں ملوث ہے، تو اس ناول کے مطالعے میں مزید اضافہ ہوگیا۔
جارج اورویل کا ناول نگرانی کے جس پیش آئندہ نظام کے متعلق باخبر کرتا ہے، وہ درحقیقت سفاکی کی آخری حد ہے۔ بگ برادر کی حکومت میں انسان کے مستقبل اور حال کو ہی نہیں بلکہ ماضی کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ شاید ہی یہ تصور کیا جاسکتا ہوکہ انسان کا بیتا ہوا کل بھی آج کنٹرول میں آ سکتا ہے۔ مگر جارج اورویل کے نزدیک یہ ممکن ہے۔یہ حکومتوں کے کنٹرول کے تصور کی بہیمت کو واضح کرتا ہے۔ جارج اورویل کے یہ الفاظ دیکھیں:
”ماضی جو کنٹرول کرتا ہے وہ مستقبل کو کنٹرول کرتا ہے اور جو حال کو کنٹرول کرتا ہے وہ ماضی کو کنٹرول کرتا ہے“۔
جارج اورویل کے ذہن بالکل واضح ہے کہ ماضی سے مراد تاریخ ہے،اور اسے کنٹرول کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اِ سے مرضی میں ڈھال لیا جائے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے: عوام کو برباد کرنے کا سب سے کارآمد طریقہ یہ ہے کہ ان کی تاریخ مسخ کر دی جائے“۔تاریخ مسخ کرنے کی پوری وضاحت موجود ہے:
”ہر ریکارڈ تباہ کر دیا جائے گا یا اس میں جھوٹ کی آمیزش کردی جائے گی، ہر کتاب کو دوبارہ لکھا جائے گا،ہر
تصویر کو دوبارہ پینٹ کیا جائے گا، ہر مجسمے اور سڑک کا نام تبدیل کر دیا جائے گا، تاریخوں میں ردوبدل کیا جائے گا۔
اس عمل کا روز اعادہ ہو گا، ہر منٹ دہرایا جائے گا۔ ماضی ختم ہو جائے گا بس حال جاری رہے گا جو کبھی ختم نہیں ہو گا
اور حکمران پارٹی جو کچھ بھی کرے گی وہ عین جائز ہو گا“۔
آخر کیوں جارج اورویل آج کے حالات میں ہم سے متعلق رہتا ہے۔ وہ ماضی میں ہمارے مستقبل کو ٹھیک ٹھیک دیکھنے کی غیر معمولی صلاحیت کے باعث ہمارے درمیان آج بھی رہتا ہے۔ مغرب میں کورونا وائرس کے بعد جن اقدامات کو اُٹھانے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، وہ جارج اورویل کے ناول سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔ چنانچہ مغربی دانشور ایک بار پھر اس ناول نگار کو یاد کررہے ہیں۔ کیوں نہ ہم جارج اورویل کے ساتھ کچھ مزید وقت گزاریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔