... loading ...
چند دن پہلے لاڑکانہ میں لاک ڈاؤن اور بے روزگاری سے تنگ آکر 16 سالہ نوجوان حسنین ملاح نے دو منزلہ عمارت سے کود کر خودکشی کرلی۔ خودکشی کی ایک ایسی ہی واردات کے بعد پنجاب کے وزیر اعلی نے متوفی کے خاندان کی امداد اور مرحوم کے خاندان کے ایک فرد کو نوکری دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ بے روزگاری اور کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن سے پریشان اور بدحالی کی حالیہ لہر میں خودکشی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔ملک میں معیشت کا پہیہ جام ہے، کاروبار بند ہیں، فیکٹریاں سونی پڑی ہیں، اور مزدور سڑکوں پر بھیک میں ملنے والی امداد اور امدادی سامان کے لیے سرگرداں ہیں۔ صوبے ہوں یا مرکز کہیں بھی کوئی بھی نہ منصوبہ ہے نہ آگے کی کوئی آگہی۔کوئی بھی صنعت کار یا تاجر یا کارخانے دار کب تک بغیر چھٹی اپنے ملازمین کو تنخواہ دیگا۔ بہت سے تاجروں اور کاروباری اداروں نے اب ملازمین کو یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اگلے ماہ سے آپ کی چھٹی۔ کچھ صنعتی اور کاروباری اداروں کی جانب سے بغیر تنخواہ کے چھٹی کا مطلب ہے کہ یہ افراد بیروزگار ہو چکے۔
کورونا کے دوران اس بات کا بھی اندازہ ہوچلا ہے کہ بہت سے روایتی کام دھندے اس وبا کے بعد بند ہوجائیں گے۔ بہت سے نئے کا م شروع ہوں گے۔ آئی ٹی کے کام میں تیزی آئے گی۔ آن لائین ہونے والے کام زیادہ ہونے لگیں گے۔ جس سے جہاں نئے روزگار کے مواقع ملنے کا امکان ہے، وہاں یہ خدشات بھی ہیں کہ بہت سے لوگ بے روزگارہوجائیں گے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال نے فیکٹریوں کی بندش کی وجہ سے برآمدی آرڈرز کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں تو اس کے ساتھ ملک میں بیرون سرمایہ کاری کی آمد بھی رک چکی ہے۔ سوائے روزمرہ اور سبزی و فروٹ کی دکانوں کے ہر کاروبار بند کر دیا گیا ہے۔پاکستان اسٹاک ایکسچنج میں رجسٹرڈ لارج سکیل مینوفیکچرنگ کمپنیوں میں سے 60 فیصد سے زائد کمپنیاں اس وقت مکمل بند ہیں اور باقی چالیس فیصد میں جزوی طور پر کام جاری ہے۔ مکمل طور پر بند کمپنیاں آٹو، ٹیکسٹائل، انجنیئرنگ، سیمنٹ، کیمیکلز وغیرہ کے شعبوں سے متعلق ہیں۔ حکومتی ادارے بھی لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستان میں منصوبہ بندی کی وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک کروڑ سے زائد افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔لیکن یہ ایک اندازہ ہی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں حکومتی ادارے اعداد وشمار سے محروم ہیں، اور اس بارے میں کوئی سنجیدہ پیش رفت بھی ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔
کورونا سے پہلے جاری کردہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دنیا میں 50 کروڑ سے زائد افراد بے روز گار ہیں۔یا وہ جزوقتی ملازمت کر رہے ہیں۔ کورونا کے دوران اور اس کے بعد یہ صورت حال مزید خوفناک ہوگی۔ پوری دنیا میں لاک ڈاؤن نے معاشی سرگرمیوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔بہت سے ممالک حالات کی سنگینی کے باوجود اب صنعتی اور معاشی سرگرمیاں بحال کر رہے ہیں،
بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے، یہ جرائم کی ماں ہے، بھوک ، جرائم خودکشی، سماجی بدامنی اور معاشرہ کیں توڑ پھوڑ سب اس کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔ جوں جوں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، کام کرنے والے کروڑوں افراد کے لیے بہتر زندگی گزارنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ بہت بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو کام کرنے کے قابل ہیں اور کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن انھیں کام نہیں ملتا۔
پاکستان میں اس وقت بے روزگاری کی شرح 79 فیصد ہے، اور شرح غربت 56 فیصد۔ یہ اعداد وشمار کورونا کے لاک ڈاؤن سے پہلے کے ہیں۔ سندھ میں گذشتہ پانچ برس میں 1300 افراد نے خودکشی کی ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں 1300 افراد کی عمریں 21 سے 40 سال کے درمیان تھی۔ ظاہر ہے یہ افراد کے کام کرنے کی عمر ہوتی ہے، ان میں سے اکثریت بے روزگاری، بھوک اور غربت کا شکار تھی۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے ملک میں ایک خوفناک معاشی منظر نامہ جنم لے رہا ہے۔پاکستانی معیشت جو کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے پہلے بھی خراب تھی اس میں مزید ابتری کورونا وائرس کی وجہ سے آئی ہے۔ملک کی معاشی ترقی کے اعشاریوں میں تنزلی کی وجہ سے پہلے ہی بیروزگاری کی شرح بلندی کی طرف گامزن تھی اور اس میں مزید اضافہ کورونا وائرس کے نتیجے میں معاشی پہیے کے رک جانے کی وجہ سے ہوا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح میں اس مالی سال دو سے ڈھائی فیصد رہنے کی توقع ہے۔ کورونا وائرس سے پہلے جی ڈی پی تین فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔پاکستانی معیشت کے تازہ ترین جائزوں میں ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور موڈیز نے ملکی معیشت کے کورونا وائرس کے جھٹکوں سے مزید خراب ہونے کی پیشنگوئی کی ہے۔
موجودہ صورت حال میں ہمیں اپنے حالات اور ضرورت کے مطابق ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے، جس سے ہم ملک میں بے روگاری کے سیلاب کو روکنے میں کامیاب ہوں، اور ملک میں دوبارہ سے معاشی اور صنعتی، اور تجارتی سرگرمیوں کی بحالی کرسکیں۔ کورونا کی وبا کب ختم ہوگی ، اور کیسے ہوگی، اس بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ لیکن عوام کی زندگیوں کو آسان اور سہولت فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
ورنہ میر کی طرح ہم بھی یہی کہتے رہیں گے۔
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔