وجود

... loading ...

وجود

وبا کے دنوں کا عمران خان

جمعرات 30 اپریل 2020 وبا کے دنوں کا عمران خان

غیر معمولی بحران صرف گنجلگ مسائل ہی پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتے بلکہ غیرمعمولی امکانات اور فیصلوں کی نئی نئی راہیں بھی سجھاتے ہیں۔ایسا ہی کچھ پاکستان میں کورونا وائرس کے وبائی مرض کے حملہ آور ہونے کے بعد ہوا۔ وبا کے ابتدائی دنوں میں تو مسائل اور مشکلات کا ایسا جوار بھاٹا اُٹھا کہ محسوس ہونے لگا کہ کورونا وائرس کے آڑ میں پاکستان کی کرپشن زدہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بپا کیے جانے والے مصنوعی سیاسی مدوجزر میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی کرسی واقعی کسی کمزور و ناتواں ناؤ کی مانند بہہ جائے گی۔ مگر اِس سے پہلے کہ عمران خان کے دیرینہ سیاسی مخالفین کی کوئی پرانی تشنہ آرزو کامیابی کے آب سے سیراب ہوتی کہ اچانک ہی کورونا وائرس کے تاریک بحران میں بھی تحریک ِ انصاف کے میر کارواں جناب عمران خان پر امکانات اور مواقع کا ایک آفتاب منور ہو گیا۔ پاکستانی تاریخ کے بدترین بحران کے بطن سے جنم لینے والا یہ چراغ سرِ راہ اتنا روشن اور منور تھا کہ اِس نے فقط وزیراعظم پاکستان عمران خان پر سیاسی رقابت داروں کے منافقانہ چہرے ہی بے نقاب نہیں کیے بلکہ خود اُن کی اپنی جیب میں پڑے ہوئے کھوٹے اور کھرے سکّوں کی پہچان بھی اظہر من الشمس کردی۔ وبا کے سیاسی دنوں میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی یہ نئی سیاسی اُٹھان دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، خاص طور پر جس طرح سے پچھلے کچھ ہفتوں سے پاکستان پیپلزپارٹی کو، کورونا وائرس کے بحران پر اپنی اسمارٹ لاک ڈاؤ ن کی انتظامی حکمت عملی سے چاروں شانے چت کیا ہے، بلاشبہ یہ سیاسی واقعہ پاکستانی کی سیاسی تاریخ میں مدتوں یادگار رہے گا۔ کیونکہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی جو کورونا وائرس کے ابتدائی دنوں میں ایک دیو مالائی ہیرو کی جھلک پیش کررہی تھی آج وہی جماعت ہر طرف سے ولن ہونے کے الزامات سہہ رہی ہے۔
سب سے مستحسن با ت یہ ہے کہ کورونا وائرس کے اِس مشکل بحران میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے خود کو ایک زیرک اور موقع پرست سیاست دان ثابت کرنے کے بجائے ایک بالغ نظر اور عوام پرور سیاسی رہنما کے طور پر پیش کرنے کی زیادہ کوشش کی۔ حالانکہ تحریک انصاف کی حکومت پر ہزارہاجانب سے بھرپور دباؤ تھا کہ کوروناوائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک بھر میں سخت ترین لاک ڈاؤن یا کرفیو نافذ کردیا جائے لیکن عمران خان نے الیکٹرانک میڈیا کے چند متمول ترین اینکروں اور سندھ حکومت کی دل دہلادینے والی بلند بانگ چیختی چنگھاڑتی آواز پر کان دھرنے کے بجائے اپنا دستِ شفقت اُن لاکھوں،کروڑوں غریب عوام کی نبض پر رکھنا زیادہ مناسب سمجھا۔ جن میں سے کم ازکم 80 فیصد افراد اپنی قوتِ مدافعت کے بل بوتے پر کورونا وائرس کو تو با آسانی شکست دے سکتے تھے لیکن اِن غریب و لاچار لوگوں میں ایک فیصد بھی اتنی ”قوتِ مال و منال“ نہیں رکھتے تھے کہ جس کی بنیاد پر وہ بھوک کے وائرس کو شکست سے دوچار کر سکیں۔ صبح و شام جبری سماجی دُوری کا درس دینے والے سیاست دان شاید بھول گئے تھے غریب آدمی کس طر ح ایک چھوٹے سے کمرے میں اپنے ایک درجن سے زائد اہل و عیال کے ہمراہ گزر بسر کرنے کی کوشش کرسکتاہے یاپھر اُن سیاسی شاہ زادوں کو اندازہ ہی نہیں ہوسکتا تھاکہ ایک مختصرسے کمرے میں سماجی دوری کے فلسفہ پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایک ایسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہوگی، جسے دنیا نے ابھی تک ایجاد ہی نہیں کیاہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ وبا کے دنوں میں ہر شخص فقط کورونا وائرس اور اُس کی ہلاکت خیزی کے بارے میں نوحے ہی پڑھتارہا لیکن!ہمارا وزیراعظم پاکستان عمران خان غریب عوام کی بے چارگی و کسمپرسی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی مشکل پالیسی کو قابلِ عمل بنانے میں مصروف عمل رہا۔
کورونا وائرس کے بحران نے تحریک انصاف کی حکومت کو سیاسی بلیک میلنگ اور کرپشن کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کا ”سیاسی حوصلہ“ بھی فراہم کیا اور وزیراعظم پاکستان نے اپنے،کسی نئے اور پرانے ساتھی کے ”سیاسی احسانات“ کی پرواہ کیے بغیر آٹا اور چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ منظرِ عام پر لانے سمیت کئی برسوں سے جونکوں کی طرح پاکستانی عوام کا خون پسینہ چوسنے والے بجلی کمپنیوں کے منہ زور مالکان کے گلے میں بھی احتساب کاپھندا کَس دیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب وزارتِ اطلاعات میں دھیمے مزاج،صلح جو طبیعت کے حامل شبلی فراز اور ابلاغی حکمت عملیوں کے جادوگر کہلائے جانے والے میجر (ر) عاصم سلیم باجووہ کو شامل کرکے ملک دشمن عناصر کو ”آخری پیغام“پہنچا دیا گیا ہے کہ ریاستِ پاکستان کے خلاف لیکٹرانک میڈیا، آن لائن میڈیا اور سوشل میڈیا پرمذموم مہمات چلانے والوں کا دمِ آخری بہت ہی قریب آچکا ہے۔ بالخصوص مایہ ناز شاعر احمد فراز کے صاحب زادے شبلی فراز کو وزیراطلاعات بنائے جانے کا فیصلہ کورونا وائرس کے ضمن میں ریاستِ پاکستان کو درپیش ہمہ جہتی بحرانوں میں میڈیا کے کردار کو مثبت،فعال اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے کیا گیاہے۔ جس کے پاکستان کی سیاست میں انتہائی دور رس اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔
علاوہ ازیں کورونا وائرس کے بحران میں ہی پہلی بار ”اٹھارہویں ترمیم“کے وفاقِ پاکستان پر پڑنے والے بدنما سیاسی و انتظامی اثرات کی جملہ تفصیلات بھی دانش وبنیش افراد کے سامنے کُھل کر سامنے آرہی ہیں اور عوامی حلقوں میں یہ رائے دیر سے ہی سہی بہرحال مستحکم ہوتی جارہی ہے کہ اٹھارویں ترمیم جس طرح سے دو سیاسی جماعتوں نے کامل اتفاق کے ساتھ منظور کروائی تھی، اُس کا واحد مقصد وحید وفاق پاکستان کی وحدت کو انتظامی و سیاسی طور پر پارہ کرنا تھا،تاکہ علاقائی و لسانی سیاست کے بت وطن عزیزکے نئے خدابن سکیں۔ کورونا وائرس کے بحران میں اٹھارویں ترمیم کے پیچھے چھپی ہوئی دو سیاسی جماعتوں کی بدنیتی کا احساس اَب وزیراعظم پاکستان عمران خان کو بھی بخوبی ہوہی گیا ہے۔لہٰذا اٹھارویں ترمیم میں ضرور قطع و برید کے لیے آئینی حلقوں میں سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض بھی شروع ہوچکا ہے۔ یقینا بیک وقت اِتنے زیادہ سیاسی و انتظامی معاملات میں مداخلت کرنے کی اصل طاقت عمران خان کو کورونا وائرس کے بحران نے ہی فراہم کی ہے۔اَب دیکھنا یہ ہے کہ وبا کے دنوں کا یہ عمران خان اپنی اِس غیرمعمولی سیاسی قوت کو کس طرح سے وفاقِ پاکستان کی وحد ت کو ایک بار پھر سے بحال کرنے کے لیے استعمال میں لاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر