... loading ...
غیر معمولی بحران صرف گنجلگ مسائل ہی پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتے بلکہ غیرمعمولی امکانات اور فیصلوں کی نئی نئی راہیں بھی سجھاتے ہیں۔ایسا ہی کچھ پاکستان میں کورونا وائرس کے وبائی مرض کے حملہ آور ہونے کے بعد ہوا۔ وبا کے ابتدائی دنوں میں تو مسائل اور مشکلات کا ایسا جوار بھاٹا اُٹھا کہ محسوس ہونے لگا کہ کورونا وائرس کے آڑ میں پاکستان کی کرپشن زدہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بپا کیے جانے والے مصنوعی سیاسی مدوجزر میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی کرسی واقعی کسی کمزور و ناتواں ناؤ کی مانند بہہ جائے گی۔ مگر اِس سے پہلے کہ عمران خان کے دیرینہ سیاسی مخالفین کی کوئی پرانی تشنہ آرزو کامیابی کے آب سے سیراب ہوتی کہ اچانک ہی کورونا وائرس کے تاریک بحران میں بھی تحریک ِ انصاف کے میر کارواں جناب عمران خان پر امکانات اور مواقع کا ایک آفتاب منور ہو گیا۔ پاکستانی تاریخ کے بدترین بحران کے بطن سے جنم لینے والا یہ چراغ سرِ راہ اتنا روشن اور منور تھا کہ اِس نے فقط وزیراعظم پاکستان عمران خان پر سیاسی رقابت داروں کے منافقانہ چہرے ہی بے نقاب نہیں کیے بلکہ خود اُن کی اپنی جیب میں پڑے ہوئے کھوٹے اور کھرے سکّوں کی پہچان بھی اظہر من الشمس کردی۔ وبا کے سیاسی دنوں میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی یہ نئی سیاسی اُٹھان دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، خاص طور پر جس طرح سے پچھلے کچھ ہفتوں سے پاکستان پیپلزپارٹی کو، کورونا وائرس کے بحران پر اپنی اسمارٹ لاک ڈاؤ ن کی انتظامی حکمت عملی سے چاروں شانے چت کیا ہے، بلاشبہ یہ سیاسی واقعہ پاکستانی کی سیاسی تاریخ میں مدتوں یادگار رہے گا۔ کیونکہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی جو کورونا وائرس کے ابتدائی دنوں میں ایک دیو مالائی ہیرو کی جھلک پیش کررہی تھی آج وہی جماعت ہر طرف سے ولن ہونے کے الزامات سہہ رہی ہے۔
سب سے مستحسن با ت یہ ہے کہ کورونا وائرس کے اِس مشکل بحران میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے خود کو ایک زیرک اور موقع پرست سیاست دان ثابت کرنے کے بجائے ایک بالغ نظر اور عوام پرور سیاسی رہنما کے طور پر پیش کرنے کی زیادہ کوشش کی۔ حالانکہ تحریک انصاف کی حکومت پر ہزارہاجانب سے بھرپور دباؤ تھا کہ کوروناوائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک بھر میں سخت ترین لاک ڈاؤن یا کرفیو نافذ کردیا جائے لیکن عمران خان نے الیکٹرانک میڈیا کے چند متمول ترین اینکروں اور سندھ حکومت کی دل دہلادینے والی بلند بانگ چیختی چنگھاڑتی آواز پر کان دھرنے کے بجائے اپنا دستِ شفقت اُن لاکھوں،کروڑوں غریب عوام کی نبض پر رکھنا زیادہ مناسب سمجھا۔ جن میں سے کم ازکم 80 فیصد افراد اپنی قوتِ مدافعت کے بل بوتے پر کورونا وائرس کو تو با آسانی شکست دے سکتے تھے لیکن اِن غریب و لاچار لوگوں میں ایک فیصد بھی اتنی ”قوتِ مال و منال“ نہیں رکھتے تھے کہ جس کی بنیاد پر وہ بھوک کے وائرس کو شکست سے دوچار کر سکیں۔ صبح و شام جبری سماجی دُوری کا درس دینے والے سیاست دان شاید بھول گئے تھے غریب آدمی کس طر ح ایک چھوٹے سے کمرے میں اپنے ایک درجن سے زائد اہل و عیال کے ہمراہ گزر بسر کرنے کی کوشش کرسکتاہے یاپھر اُن سیاسی شاہ زادوں کو اندازہ ہی نہیں ہوسکتا تھاکہ ایک مختصرسے کمرے میں سماجی دوری کے فلسفہ پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایک ایسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہوگی، جسے دنیا نے ابھی تک ایجاد ہی نہیں کیاہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ وبا کے دنوں میں ہر شخص فقط کورونا وائرس اور اُس کی ہلاکت خیزی کے بارے میں نوحے ہی پڑھتارہا لیکن!ہمارا وزیراعظم پاکستان عمران خان غریب عوام کی بے چارگی و کسمپرسی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی مشکل پالیسی کو قابلِ عمل بنانے میں مصروف عمل رہا۔
کورونا وائرس کے بحران نے تحریک انصاف کی حکومت کو سیاسی بلیک میلنگ اور کرپشن کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کا ”سیاسی حوصلہ“ بھی فراہم کیا اور وزیراعظم پاکستان نے اپنے،کسی نئے اور پرانے ساتھی کے ”سیاسی احسانات“ کی پرواہ کیے بغیر آٹا اور چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ منظرِ عام پر لانے سمیت کئی برسوں سے جونکوں کی طرح پاکستانی عوام کا خون پسینہ چوسنے والے بجلی کمپنیوں کے منہ زور مالکان کے گلے میں بھی احتساب کاپھندا کَس دیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب وزارتِ اطلاعات میں دھیمے مزاج،صلح جو طبیعت کے حامل شبلی فراز اور ابلاغی حکمت عملیوں کے جادوگر کہلائے جانے والے میجر (ر) عاصم سلیم باجووہ کو شامل کرکے ملک دشمن عناصر کو ”آخری پیغام“پہنچا دیا گیا ہے کہ ریاستِ پاکستان کے خلاف لیکٹرانک میڈیا، آن لائن میڈیا اور سوشل میڈیا پرمذموم مہمات چلانے والوں کا دمِ آخری بہت ہی قریب آچکا ہے۔ بالخصوص مایہ ناز شاعر احمد فراز کے صاحب زادے شبلی فراز کو وزیراطلاعات بنائے جانے کا فیصلہ کورونا وائرس کے ضمن میں ریاستِ پاکستان کو درپیش ہمہ جہتی بحرانوں میں میڈیا کے کردار کو مثبت،فعال اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے کیا گیاہے۔ جس کے پاکستان کی سیاست میں انتہائی دور رس اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔
علاوہ ازیں کورونا وائرس کے بحران میں ہی پہلی بار ”اٹھارہویں ترمیم“کے وفاقِ پاکستان پر پڑنے والے بدنما سیاسی و انتظامی اثرات کی جملہ تفصیلات بھی دانش وبنیش افراد کے سامنے کُھل کر سامنے آرہی ہیں اور عوامی حلقوں میں یہ رائے دیر سے ہی سہی بہرحال مستحکم ہوتی جارہی ہے کہ اٹھارویں ترمیم جس طرح سے دو سیاسی جماعتوں نے کامل اتفاق کے ساتھ منظور کروائی تھی، اُس کا واحد مقصد وحید وفاق پاکستان کی وحدت کو انتظامی و سیاسی طور پر پارہ کرنا تھا،تاکہ علاقائی و لسانی سیاست کے بت وطن عزیزکے نئے خدابن سکیں۔ کورونا وائرس کے بحران میں اٹھارویں ترمیم کے پیچھے چھپی ہوئی دو سیاسی جماعتوں کی بدنیتی کا احساس اَب وزیراعظم پاکستان عمران خان کو بھی بخوبی ہوہی گیا ہے۔لہٰذا اٹھارویں ترمیم میں ضرور قطع و برید کے لیے آئینی حلقوں میں سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض بھی شروع ہوچکا ہے۔ یقینا بیک وقت اِتنے زیادہ سیاسی و انتظامی معاملات میں مداخلت کرنے کی اصل طاقت عمران خان کو کورونا وائرس کے بحران نے ہی فراہم کی ہے۔اَب دیکھنا یہ ہے کہ وبا کے دنوں کا یہ عمران خان اپنی اِس غیرمعمولی سیاسی قوت کو کس طرح سے وفاقِ پاکستان کی وحد ت کو ایک بار پھر سے بحال کرنے کے لیے استعمال میں لاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔