... loading ...
قوموں کے مابین کھینچا تانی میں ہر دور کا ایک مرکزی عامل ہوتا ہے۔قومی ریاستیں اپنا ایک منفرد جوہر رکھتی ہے، یہی اُس کا قوت ِ اقتدار ہوتا ہے۔ ارجنٹائن کے ماہرِ سیاسیات مارسیلو گولو اِسے ”threshold of power“ کا نام دیتے ہیں۔ مختلف ادوار کے ان عناصرِ طاقت کی درجہ بندی کی جائے تو قومی ریاست پہلا عامل قرار پائے گی۔ دوسرا عامل صنعتی تھا۔ تیسرا عامل نو آبادیاتی دور میں علاقوں کے حصول کی ریاستی کشمکش میں اُبھرا۔چوتھا عامل ایٹم بم تھا۔ جبکہ پانچواں ابھی تک طے شدہ نہیں۔ مگر ایٹم بم کے بعد کا یہ غیر متعین عرصہ دراصل ٹیکنالوجی کی ترقی سے مربوط ہونے کے باوجود مبہم ہے۔ٹیکنالوجی قوت کے تمام محرکات کو اپنی لپیٹ میں پوری طرح لینے کے باوجود ابھی تاریخ کے صفحات پر اپنی وضاحت کے عرصۂ انتظار میں ہے۔تاہم دنیا عمومی طور پر ایک وہم میں مبتلا ضرور ہے جس کے اندر ٹیکنالوجی اور ترقی ہم معنی سمجھے جاتے ہیں۔ تصورات کی اس آویزش اور ترقی کے اس عہدِ عروج میں دنیا کو ایک ایسی وبا کاسامنا ہے جس سے طاقت کے یہ تمام عناصر غیر موثر ہو چکے ہیں۔درحقیقت دنیا کی تما م ایٹمی ریاستیں مل کر بھی اس وائرس کا سامنا نہیں کرسکتی۔ وائرس نے علاقوں کے حصول میں صف آرا ریاستوں کے نوآبادیاتی پس منظر پر بھی ایک حقارت آمیز انگڑائی لی ہے۔ نئے علاقوں کی کشمکش کا دوربھلے پُرانا ہوا، مگر انسان اپنی مسلمہ جغرافیائی حدبند ریاستوں کے اندر بھی اپنے ہی گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ صنعتی ترقی جن شب وروز کی رونقوں میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے، وائرس نے اُسے چاٹ لیا۔ تو پھر کیا طاقت کے تمام پچھلے عناصر وائرس کے آگے مجبورِ محض ہو چکے ہیں؟دنیا کی تمام ریاستیں اس وبا سے نمٹنے کے لیے ادویات اور ویکسین میں اپنے تمام وسائل کو جھونکنے کے لیے تیار ہیں۔ کیا یہ ظاہر کرتا ہے کہ طاقت کا ایک نیا اُبھار پیدا ہورہا ہے، یا ہوسکتا ہے؟
برطانیا میں 23/اپریل کو کورونا وائرس کے خلاف ویکسین پہلا مرتبہ انسانوں پر آزمائی گئی۔ جس کی باقاعدہ تصدیق برطانیا کے سیکریٹری ہیلتھ میٹ ہینکوک نے کی۔ سیکریٹری ہیلتھ نے اس موقع پر کہا کہ اس منصوبے کے لیے ابتدائی طور پر بیس ملین پاؤنڈ فراہم کیے گئے تھے،اور ہم آخر تک تمام وسائل مہیا کریں گے، تاکہ امکانی کامیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔ماہر وبائی امراض اینڈریو پولارڈ اس تحقیقاتی منصوبے کی سربراہی کررہے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ آکسفورڈ ویکسین سینٹر اکتوبر تک اس کی ایک ملیں خوراکیں تیار کرلے گا، حالانکہ یہ ویکسین ابھی طبی طور پر آزمائشی مرحلے میں ہے۔ یہ پہلو دراصل اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ برطانیا اس منصوبے کی کس حد تک مالی سرپرستی کرنے کو تیار ہے۔ برطانیا ڈبلیو ایچ او کی جانب سے مقررہ ایک سال کی مدت سے پہلے ہی کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ کیا یہ ترقی اور طاقت کے نئے تصور سے جڑی جدوجہد ہے۔
جرمنی بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں۔ جرمن حکومت نے نئے کورونا وائرس کے خلاف اپنی ویکسین کے ابتدائی طبی تجربے کی اجازت دے دی ہے۔جہاں پہلے آزمائشی مرحلے میں دو سو صحت مند افراد حصہ لینے والے ہیں۔ اس کے ذریعے سائنسدان انسان کے مدافعتی نظام میں اضافے کی تصدیق کے خواہاں ہیں تاکہ دوسرے آزمائشی مرحلے میں مزید انسانوں کو شامل کیا جاسکے۔مگر یہاں بھی ویکسی نیشن انسٹی ٹیوٹ کے صدر اس مجبوری کو ظاہر کررہے ہیں کہ ویکسین کی منظوری کے باوجود اسے صحت مراکز میں عوام کے لیے مہیا کرنے میں مہینے لگ سکتے ہیں۔ جرمنی میں ویکسین تیاری میں معروف فارما کارپوریشن فائزر اور بائیوٹیکنالوجی کمپنی بائیو ٹیک۔ ایس ای سرگرم ہیں۔ دونوں کمپنیاں امریکا میں بھی ابتدائی طبی آزمائشوں کی اجازت کا انتظار کررہی ہیں۔
چین کورونا وبا پر قابو پانے والا پہلا ملک ہے۔ اُس نے ووہان کے تمام اسپتال کورونا مریضوں سے خالی کرنے کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے۔ چین کو کسی بھی دوسرے ملک پر یہ برتری پہلے سے ہی حاصل ہے۔ چین نے سب سے پہلے ایک ویکسین کی طبی آزمائش مارچ میں شروع کی تھی۔ جس کے تحت 18 سال سے 60 سال کی عمررکھنے والے ایک سو رضاکاروں کو خوراکیں دی گئیں۔ چھ ماہ تک یہ رضا کار خوراکیں لیں گے، جس کے بعد ویکسین کی تاثیر کے متعلق کسی حتمی رائے کا اعلان کیا جاسکے گا۔ مارچ میں ہی امریکا نے بھی اپنے تجربات کا آغاز کردیا تھا، جہاں ایک بائیو ٹیک کمپنی موڈرنا اس تحقیق کا انتظام کررہی ہے۔ اس مہم میں شریک رضا کار اگلے چندماہ تک اس کا حصہ رہیں گے۔
روس جون میں اپنی تیارکردہ ویکسین کے تجربات کے آغاز کا اعلان کر چکا ہے۔ ویکٹر ریاستی مرکز کے سربراہ رینات مکیسوف کے مطابق وہ 29/جون سے 180 رضاکاروں پر تین مختلف ویکسین کی جانچ کے پہلے مرحلے کا آغاز کرنے والے ہیں۔ اس کے لیے رضاکاروں کے گروپ تشکیل دیے جاچکے ہیں۔سائبیریا کے شہر نووسیبیرسک میں قائم لیبارٹری کے سائنس دانوں نے پروٹو ٹائپس ویکسین چھ مختلف تیکنیکی پلیٹ فارم کی حامل تیار کی ہیں۔ ابھی اسے جانوروں پر آزمایا جارہا ہے۔ مگر امید کی جارہی ہے کہ روس اس کا باقاعدہ اعلان 30 /اپریل تک کرسکتا ہے جب یہ ویکسین انسانوں پر ابتدائی تجربات کے لیے مہیا کردی جائے گی۔ کورونا وائرس کے حوالے سے دنیا میں مختلف ممالک کے مزید منصوبے بھی تیزی سے کام کررہے ہیں۔ مختلف ممالک میں ویکسین کی اس دوڑ سے بآسانی اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ یہ محض کسی وبا کی ویکسین کی تیاری سے متعلق نہیں۔ بلکہ یہ اس سے کچھ زیادہ ہے۔ کورونا وبا بھلے عالمگیر ہو، مگرمختلف ممالک اس کا حل مقامی طور پر ڈھونڈنے میں مصروف ہیں، جو اُنہیں ایک ”باعزت“ ریاست کے طور پر ادویہ سازی میں خودمختاری ہی نہیں دلائے گی، بلکہ وبا کے اس ہنگام انتہائی سود مند بھی ثابت ہوگی۔ درحقیقت نئے کورونا وائرس نے ایک نئے ورلڈ آرڈر کے طور پر دنیا میں غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموار کردی ہے۔ حالانکہ ہم اس کے خطرناک اثرات کے مکمل ادراک سے ابھی بہت دور ہیں۔ابھی ہم وبائی امراض کے دور میں ہیں۔ اور یہ دور کورونا وبا کی حالیہ لہر پر قابو پانے کے باوجود ٹلنے والا نہیں۔ مائیکروسوفٹ کے شریک بانی بل گیٹس کے مطابق یہ وبا کا پہلا دور ہے، جو اگلے کئی برسوں تک انسانوں کے ساتھ رہے گا۔ یہاں تک کہ مستقبل کا مورخ اس دور کی وضاحت اس وبا سے کرے گا۔ یہی نہیں بلکہ بل گیٹس کے نزدیک ہم نے اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ ہی دیکھا ہے، باقی اب وبا دیکھے گی۔
دنیا کا یہ منظرنامہ طاقت کے نئے اُبھار کی نشاندہی کرتا ہے۔ جو قوم ادویہ سازی میں خود مختاری حاصل کرے گی، وہ طاقت کے نئے اور رائج عنصر پر اپنی گرفت مضبوط کرے گی۔ ارجنٹائن کے ماہرِ سیاسیات مارسیلو گولو کی زبان میں کہیں تو ادویہ سازی میں خود مختاری اورویکسین کے عوامل پر قومی گرفت دراصل نیا ”threshold of power“ ہے۔سرد جنگ میں قومی خودمختاری کی ضمانت جوہری بم تھا۔ آنجہانی سوویٹ یونین اور امریکا اس دوڑ میں ایک دوسرے کے ساتھ صف آرا رہے۔ اب ہائبرڈ جنگ اور حیاتیاتی ہتھیاروں کا نیا تناظر پیدا ہو چکا ہے۔ جس میں طاقت ور اقوام اپنی جوہری طاقت سے مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ سکتیں۔ اس نئی جنگ میں دشمن ملک کے خلاف فوج بھی بھیجنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔اس نئی جدلیاتی کشمکش میں اینٹی تھسیس (جوابِ دعویٰ) کے طور پر ہائبرڈ اور حیاتیاتی عاملین نے سر اُٹھایا ہے۔ جس میں ہیکرز اور وائرس اس نئی جنگ کے خطرناک ہتھیار ہیں۔ آپ جارح ریاست نہ بھی ہو تو آپ کا دفاع حیاتیاتی جنگ کے تقاضے پورے کرنے میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ویکسین طاقت کے نئے اُبھار کی توپ ہے۔ کوئی بھی مہلک وبا آپ پر دشمن کی جانب سے بھی حملہ کرسکتی ہے، وائرس کی صورت میں یہ کورونا کا نیا دور بھی ہوسکتا ہے۔ عالمگیریت نے اب ہمیں مستقل خطرات کی دہلیز پر پہنچا دیا ہے۔ وبائی مرض کے حملوں میں ویکسین ایک دفاع ہوگی۔ اس تناظرمیں یہ ایک خطرناک بات ہے کہ ادویات اور ویکسین پر کنٹرول کارپوریشنز کا ہو۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے کہ ایٹم بم کسی کمپنی کی ملکیت میں چلا جائے، یا میزائل سازی ملکیت کے حقوق کے ساتھ کسی کارپویشن کے ہاتھ میں ہوں۔
اس بنیادی سیاق وسباق میں ہم وطنِ عزیز کے اندر جاری آپادھاپی کو دیکھتے ہیں تو مایوسی کے سیاہ بادلوں کے سواکچھ نظر نہیں آتا۔ کورونا وبا کے دنوں میں بھی جیبوں کو ٹٹولنے کا عمل جاری ہے۔ یہ وہی حرص اور بھوک ہے جسے نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کہا تھا کہ اسے قبر کی مٹی ہی مٹا سکتی ہے۔سندھ حکومت کو تو اس کے حال پر چھوڑ دیں جہاں بھٹو اور وائرس دونوں بہت دیر تک رہیں گے۔ مگر یہ کیا بدبختی ہے کہ اگر کسی جانب سے تحقیق کی کوئی جستجو سامنے آتی ہے، کوئی ملک میں ویکسین کے لیے انفرادی جدوجہد کرنے کی ذرا سی کوشش کرتا ہے تو وزیراعظم کے معاونِ خصوصی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا لب کشا ہوتے ہیں کہ پاکستان میں ویکسین کی تیاری کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہورہا۔ پاکستان کی حریص فارماصنعت کو ہمہ وقت فائدہ پہنچانے والے ڈاکٹر ظفر مرزا کی زبان کو کوئی روکنے والا ہے یا نہیں۔ افسوس ناک طور پر اس وبا کے ایام میں اس وزارت کی جانب سے اعدادوشمار پیش کرنے کے علاوہ مستقبل کے تناظر میں کوئی ایک اقدام بھی سامنے نہیں آیا۔ جبکہ فارما صنعت بھی ان بدترین ایام میں خاموشی کی چادر اوڑھ کر سو گئی ہے۔ کیا ان کے پاس مستقبل کا کوئی نقشہ نہیں۔ کیا ان کے ناجائز منافع میں تحقیق کے لیے کوئی حصہ نہیں۔ کیا ان کا کام صرف عوام کی جیبوں پر ڈاکہ رہ گیا ہے۔ اور کیا ہمارے معاونِ خصوصی ڈاکٹر ظفرمرزا کا واحد مقصد ان کی ناجائز منافع خوری کو سرکاری سطح پر تحفظ فراہم کرنا رہ گیا ہے۔ کیا یہ وہ ٹولہ ہے جس کے ساتھ ہم نئی دنیا سے بغلگیر ہوں گے۔ ایک نئے ورلڈ آرڈر میں اپنے مقام کا تعین کریں گے؟طاقت کے اس نئے اُبھار میں خود کو سرخرو کریں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔