... loading ...
اس کا اصل نام کیا ہے ہم میں سے اکثر اس سے ناواقف ہیں یا شاید اسے اس قابل ہی نہیں جانا کہ اس سے اس کا اصل نام ہی پوچھ سکیں۔ وہ پورے گاؤں میں “بھولا” مشہور ہے۔ بھولے کے نام سے آپ کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ وہ گلیوں میں بلاوجہ گھومتا ہوگا۔ بچوں کا مجمع اس پر سنگ باری کرتا ہوگا یا وہ الف ننگا گلیوں میں پھرتا ہوگا۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ وہ ابھی تک غیر شادی شدہ اس کی وجہ بھی شاید یہی ہوگی کہ بیٹی والے کیوں ایسے شخص کو رشتہ دیں گے جو پورے گاؤں میں کملا مشہور ہے۔ ہمارے معاشرے کا یہی تو المیہ ہے کہ جو سیدھا سادہ بندہ ہو اس کا نام “بھولا” کملا یا بونگا رکھ دیا جاتا ہے۔ کملا۔ بھولا یا بونگا ایسا کردار بناکر پیش کیا جاتا ہے کہ چار جماعتیں پڑھا شخص بھی اسے “پاگل” سمجھ کر پاگل کی طرح ہی برتائو کرنے لگتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو بندہ جھوٹ نہ بولتا ہو مکروفریب سے دور ہو۔ سچی اور کھری بات منہ پر کہنے کی جراء ت رکھتاہو ایسے بندے کو تو عقلمند۔ سیانا کہنا اور سمجھنا چاہیے۔ یہاں اس سے یکسر الٹ رویہ اپنایا جاتا ہے جو تیزطرار۔ چالاک۔ ہوشیار یا چرب زبان ہو اسے “سیانا” سمجھا جاتاہے۔ میں تو جب بھی اپنے گاؤں کے “بھولا” سے ملا اس سے کچھ سیکھ کے ہی اٹھا۔ کل ہی اس سے سر راہ ملاقات ہوگئی اس نے ہمیشہ کی طرح سلام میں پہل کی۔ میں جب بھی اسے ملتا ہوں اس کے ساتھ ضرور بات کرتا ہوں۔ گلی کی نکر پہ کھڑے یا کسی تھڑے پر بیٹھ کر اس سے گپ شپ کرتا ہوں۔ میں نے اس کی فصل بارے پوچھا تو اسنے مجھے سیدھا سا جواب دینے کی بجائے پرانے زمانے کا ایک قصہ سنایا۔
اس نے بتایا کہ کسی ملک کا بادشاہ شکار کے لیے جنگل میں گیا اپنے لشکر سے الگ ہوکر وہ نشان راہ کھو بیٹھا بھٹکتا ہوا وہ کہیں دور نکل گیا۔ چلتے چلتے اس کی نظر ایک باغ پر پڑی وہ باغ میں داخل ہوا۔ باغ میں ایک خاتون بیٹھی تھی اس نے بادشاہ سے آمد کی وجہ جانی تو بادشاہ نے کہا میں راستہ بھٹک گیا ہوں۔ بہت پیاس لگی ہے مجھے پانی پلادیں۔ خاتون نہیں جانتی تھی کہ پانی مانگنے والا بادشاہ ہے اس نے مہمان کی طرح بادشاہ سے سلوک کیا۔ باغ میں سے ایک انار توڑا کپڑے کی مدد سے اس کا جوس نکالا بادشاہ کی آنکھوں کے سامنے ایک انار سے پورا گلاس بھرگیا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ ایک انار سے گلاس بھرگیا ہے اس کے دل میں خیال آیا کہ واپس جاکر باغوں پر بھی ٹیکس لگاتا ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے اس نے جوس کا گلاس ختم کیا مگر ابھی پیاس پوری طرح نہ بجھی تھی۔ ایک اور گلاس کی فرمائش کی اس خاتون نے پہلے سے بھی بڑا انار توڑا اور اس کا جوس نکالا۔ حیرت انگیز طور پر اس بار گلاس پورا بھرنے کی بجائے آدھا بھرا جس پر بادشاہ نے اس خاتون سے پوچھا کہ یہ انار پہلے انار سے زیادہ بڑا اور وزنی تھا پھر اس میں سے جوس کیوں کم نکلا اس خاتون نے جو کہا اس نے بادشاہ کے چودہ طبق روشن کردئیے۔ اس نے کہا ایک گھر کے سربراہ کیدل میں بے ایمانی آجائے تو قدرت اس سے ناراض ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس گھر میں نااتفاقی۔ ناچاکی اور بے برکتی ڈیرے ڈال لیتی ہے۔یہی بے ایمانی کسی علاقے کے سربراہ کے دل میں آجائے تو اس علاقے میں چوریاں۔ راہزنی اور قتل و غارت بڑھ جاتی ہیں اور اگر یہی بیایمانی کسی ملک کے سربراہ کے دل میں آجائے تو اس ملک میں خشک سالی۔ فصلوں میں بے برکتی۔ آفات کا نازل ہونا معمول بن جاتا ہے۔ اس خاتون نے کہا آپ نے جب پہلا گلاس پیا اس میں اللہ نے برکت ڈالی تب تک ہمارے ملک کے سربراہ کے دل میں کوئی بغض۔ بیایمانی یا فتور نہیں آیا تھا جب دوسرے گلاس کا وقت آیا تب ہمارے بادشاہ کے دل میں کوئی فتور آچکا تھا۔ اس خاتون کی یہ بات سن کر وہ مسافر بولا آپ کی بات سوفیصد درست ہے۔ میں بادشاہ ہوں میرے دل میں فتور آگیا تھا کہ میں اپنے محل واپس جاکر سب سے پہلے ان باغات پر ٹیکس لگائوں گا۔ جب میرے دماغ میں فتور آیا تو اللہ نے برکت اٹھالی۔ بادشاہ نے تہیہ کیا کہ وہ رعایا پر ناجائز اور بلاوجہ کوئی ٹیکس نہیں لگائے گا۔
“بھولا” بولا کہ مجھے لگتا ہے ہمارے ملک پر جو “بادشاہ ” اس وقت حکومت کررہاہے وہ اپنی مدت پوری نہیں کرسکے گا۔ میں نے کہا بھولے میاں آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ نہ آپ کے گھر میں ٹی وی ہے نہ آپ انپڑھ ہونے کی وجہ سے اخبار پڑھ سکتے ہیں۔ آپ کو کوئی سمجھدار بندہ اپنی محفل میں اور کوئی چودھری اپنی چوپال یا ڈیرے پر نہیں بیٹھنے دیتا پھر تمھیں کیسے پتہ چل گیا کہ ہمارا “بادشاہ ” اپنی مدت پوری نہیں کرسکے گا۔ وہ بولا فصلوں سے برکت اڑگئی ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے تو اس نے جٹکے انداز میں کہا اس بار بھی فی ایکڑ ایک سو دس سے زائد گٹھڑیاں باندھ کے رکھی ہیں لیکن جب یہ گٹھڑیاں تھریشر میں جاتی ہیں اور گندم نکلتی ہے تو پچھلے سال کی طرح اس بار بھی اوسط نہیں آئی فی ایکڑ بارہ۔ تیرہ بوریاں نکل رہی ہیں اس سے اندازہ لگایا کہ اللہ ہم سے ناراض ہے اللہ کی ناراضگی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ فصلوں میں سے برکت اڑ چکی اس سے ثابت ہوا کہ حکمران بیایمان اور جھوٹا ہے۔ میں نے پوچھا چلیں میں مان لیتاہوں فصلوں سے برکت اڑ گئی حکمران چور اچکے ہوں گے لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ اب ان کا بوریا بستر گول ہوجائے گا۔ میرے اس سوال پر بھولا بولا جب سے یہ حکومت آئی ہے ملک ایمرجنسی سے ہی نہیں نکلا۔ لگاتار تین فصلیں برباد ہوگئیں۔ فصلوں کی بربادی کا سلسلہ گزشتہ سال گندم کی فصل سے شروع ہوا تھا جو کپاس تک پہنچا اب دوسری بار گندم کی فصل آندھی۔ طوفان اور ڑالہ باری کی نظر ہوگئی جو بچ گئی اس کی شرح اوسط انتہائی کم ہے۔ بھولے نے کہا مجھے کسی نے بتایا کہ ہمارا “بادشاہ ” ٹیلیویڑن پر بیٹھ کر لوگوں سے چندہ مانگ رہا تھا۔ آپ بتائیں کبھی بادشاہ بھی اپنی رعایا سے مانگتے ہیں ؟ مانگنے والا بادشاہ نہیں ہوسکتا۔ بھولے نے کہا باؤ جی میری بات غور سے سنو۔ اس عورت نے بادشاہ سے کہا تھا جب کسی ملک میں آفات آنے لگیں تو سمجھیں ملک پر کسی بیایمان کی حکمرانی ہے۔ دوسری بات یہ کہ بادشاہ وہ ہوتا ہے جو اپنی رعایا کو دے۔ رعایا سے مانگنے والا بادشاہ نہیں ہوسکتا اور اگر کسی وجہ سے بن جائے تو رہ نہیں سکتا۔ میرے گاؤں کے بھولے نے اس بار کچھ زیادہ ہی گہری بات کہہ دی جو میرے جیسے عام انسان کے سر سے گزر گئی۔ مسندِ اقتدار “دینے” اور “لینے” والے بہت سیانے ہیں وہ کملے کی بات پر قیاس کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔