... loading ...
دوستو،خبر کے مطابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ مئی میں وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پا لیا تو عید کے بعد صورتحال بہت بہتر ہوگی لیکن اگر احتیاط نہ برتی گئی تو عیدالفطر پر مزید بندشیں لگانی پڑ سکتی ہیں۔یہ بات انہوں نے قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ مئی کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق فیصلہ کن مہینہ ہوگا۔ بیماری کے پھیلاؤ کے ساتھ ہمیں صحت نظام کی صلاحیت بھی بڑھانا پڑے گی۔وفاقی وزیر نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر عوام نے احتیاط نہ کی تو یہ نہ ہو عید کے لیے ہمیں کوئی بندشیں لگانی پڑیں تاہم اگر ہم نے احتیاط کی تو عید کے بعد زندگی بہتری کی طرف جانا شروع ہو جائے گی۔ دوسری جانب پنجاب حکومت نے بھی لاک ڈاؤن میں مزید 15 دن توسیع کردی، سحر وافطار کے وقت دودھ دہی کی دکانیں کھولنے کی اجازت جبکہ افطار کے اجتماعات پر پابندی ہوگی۔۔ سندھ حکومت کی جانب سے جاری ایس او پیز کے مطابق تراویح نماز کی ادائیگی گھروں پر ہوگی، احترام رمضان آرڈیننس پر سختی سے عمل کرنا ہوگا جبکہ کریانہ سٹور اور سبزی کی دکانیں صبح آٹھ بجے سے شام پانچ تک کھلی رہیں گی۔سندھ حکومت کی جانب سے جاری ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ دودھ کی دکانوں کو رات آٹھ بجے تک کام کی اجازت ہوگی۔ افطار کے روایتی لوازمات، فروٹ چاٹ، سموسے اور پکوڑے کے سٹالز لگانا ممنوع ہوگا۔ تاہم ان کو ہوم ڈیلیو رکرنے کی اجازت ہوگی۔اس کے علاوہ شام پانچ بجے سے رات آٹھ بجے تک گھروں سے نکلنے پر پابندی ہوگی۔ ریستوران کو شام پانچ سے رات دس بجے تک ڈیلیوری کی اجازت ہوگی۔ہوٹلز میں ٹیک اوے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہوم ڈیلیوری ڈرائیو تھرو سروس شام پانچ سے رات دس بجے تک کر سکیں گے۔ پبلک ٹرانسپورٹ، ڈبل سواری اور عمومی کاروباری سرگرمیوں پر پابندی ہوگی۔
آج رمضان المبارک کا پہلا”سنڈے“ ہے۔۔لیکن کیا فائدہ، سن ڈے ہویا من ڈے۔۔ لاک ڈاؤن نے تو اتوار کی اہمیت ہی ختم کردی ہے۔۔ ہر دن اتوار،اتوار سا ہی لگتا ہے۔۔ بلکہ ہمارے کئی دوست کہہ رہے تھے کہ جلدی سے لاک ڈاؤن ختم ہو تو وہ ایک ہفتے کی چھٹی لے کر مکمل آرام کریں گے، کیوں کہ لاک ڈاؤن کے دوران گھر میں رہ رہ کر وہ تھک سے گئے ہیں۔۔ گھر میں ر ہ کر تھکنے والی بات ہمیں تو مشکوک لگی۔۔ ان سے ہم نے پوچھا بھی کیا گھر والی گھر کے کام کراتی ہے۔۔برتن دھلواتی ہے یا کپڑے۔۔کھانا پکواتی ہے یا صرف تمہیں پکاتی رہتی ہے۔۔ ہمارے سوال سن کر وہ زیرمونچھ مسکرا کر خاموش ہوجاتے ہیں۔۔ رمضانوں میں بچپن سے دیکھتے آئے تھے، سڑکوں پر افطار کے اجتماعات کا اپنا ہی حسن تھا۔۔ آپ شہر میں کہیں بھی ہوں، آپ کو یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ روزہ کھولنا ہے اس لیے جلدی گھر پہنچو۔۔ ہر سڑک، ہر اسٹاپ، ہر چوراہے پر شاندار قسم کی افطار آپ کی منتظر ہوتی تھی، نوجوان زبردستی روک روک کر نہ صرف افطار کراتے تھے بلکہ ٹھنڈا شربت، جوس بھی پیش کرتے تھے۔۔ لیکن اس بار ہم سب اسے مس کرینگے۔
مشاہدے میں آیا ہے اور عام طور پریہ بات سچ بھی ثابت ہوئی ہے کہ رمضان میں بڑے بڑوں کا بجٹ فیل ہوجاتا ہے، کیونکہ ماشااللہ اس ماہ مبارک میں دن بھر روزے رکھنے والے خوش عقیدہ حضرات کی خوش خوراکی نفس پر ایسی حاوی ہوتی ہے کہ کسی نعمت کو چھوڑنا گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں۔۔کھجور اور پکوڑے سے لے کر زرق برق ملبوسات تک ببانگ دہل آزادانہ لوٹ مار جاری رہتی ہے۔ حقیقت سے ہمارا رشتہ کچھ زیادہ دوستانہ نہیں، برا نہ منائیے گا لیکن رمضان دراصل ہمارے لیے سال کا سب سے بڑا بزنس سیزن ہوتا ہے۔ غریب روزہ دار مجبور ہے کہ منہ مانگے مول ادا کرے، ٹھیلے والا ہو یا عظیم الشان شاپنگ مال اس مقدس مہینے کی برکت سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ماہ مقدس کے نام پر ٹی وی چینلز میں علما، نعت گو، اداکار، کرکٹرز، ماڈلز، گلوکار سب ایک میک اپ میں ایک ہی گھاٹ پر منہ مانگے مول لیکر سادگی، قناعت اور اللہ کی رضا کا درس دینے کی نیکی کماتے ہیں۔ سرعام کھانا پینا تو ممنوع مگر اشیائے خورونوش پر لوٹ مار کی آزادی ہوتی ہے۔۔جن کی تیوریوں پر پڑے بل دور سے نظر آ جائیں، بیزارگی اور جھنجھلاہٹ کی تصویر، یہ نشانی ہے روزہ داروں کی، اس کیفیت میں بے تکلف ہونے کا خطرہ قطعی مول نہ لیں۔ خیرحضور روزہ خور ہوں یا روزہ دار دفاتر میں کام آدھا اور جھگڑے دگنے ہو جاتے ہیں۔ بازاروں اور بسوں میں ذرا ذرا سی بات پر چیخ و پکار معمول ہوتی ہے اور بعض ”برگزیدہ“ روزہ دار مذہبی خبط عظمت کے تحت دفتری کام چھوڑ چھاڑ کر پندونصائح اپنا لیتے ہیں، یہ درسی کیفیت عموما افطار تک جاری رہتی ہے۔۔سڑکوں اور بازاروں میں ہر بندہ دوسرے کو کاٹ کھاجانے والی نظروں سے ”گھوریاں“ مارتا نظر آتا ہے۔۔ان میں سے توکچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سحری کھانے کے فوراً بعد کہنا شروع کردیتے ہیں کہ آج روزہ بہت لگ رہا ہے،دفتر آتے ہیں تو ہر ایک سے فرداً فرداً پوچھتے ہیں ”تمہارا روزہ ہے؟“ اور اس کا جواب سنے بغیر کہتے ہیں ”میرا تو ہے“۔۔ تربوز والا بھی دو،تین ”دانوں“ کو دھپ،دھپ کرنے کے بعد جب چوتھا دانہ آپ کو دیتا ہے تو آپ یقین کرلیتے ہیں کہ یہی ”دانہ“ لال، رسیلا اور میٹھا نکلے گا، حالانکہ تربوز والا اصل میں آپ کی نفسیات سے کھیل رہا ہوتا ہے۔۔ہم نے بھی ایک کیلے والے سے جب پوچھا کہ کیلے کیا درجن لگائے۔۔ وہ کچھ فلسفی ٹائپ تھاکہنے لگا، دس روپے کا ایک کیلا(یعنی ایک سو بیس روپے درجن کہتے ہوئے اسے موت پڑرہی تھی شاید)۔۔ہم نے بھولپن سے پوچھا۔۔ دس روپے، چھلکے کے بغیر کتنے کا لگاؤ گے؟؟۔۔
یہ ہمارے معاشرے کی افسوس ناک حقیقت ہے کہ جب رمضان المبارک کا مقدس مہینہ جلوہ گر ہوتا ہے تو ہم میں سے کچھ لوگ رمضان کے تقدس و عظمت کا مذاق اڑاتے ہیں،صحت و طاقت کے باوجود روزے نہ رکھ کر اس مہینے کی حرمت پامال کرتے ہیں،کچھ ایسے ہیں جو روزہ کی فرضیت کے منکر بھی ہیں،ایسے لوگ ہمارے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔آپ دیکھتے ہونگے کہ کچھ مسلمان صحت مند ہونے کے باوجود سڑکوں،ہوٹلوں اور آفسوں میں دھڑلے سے کھاتے پیتے اور سگریٹ نوشی کرتے نظرآتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ”میری ساری امت معاف کردی جائے گی سوائے کھلم کھلا گناہ کرنے والوں کے“۔ (بخاری،مسلم)۔۔۔اللہ سے ڈرو جس پر کوئی چیز مخفی نہیں،بھوک و پیاس کی یہ مشقت جو آپ اللہ کی رضا کے لیے برداشت کررہے ہیں،اس پر بے پناہ اجرو ثواب ہے۔ حدیثِ قدسی ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے ”روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کابدلہ دوں گا“۔۔یعنی روزہ کی عظمت اور اس کی شان اتنی بلند ہے کہ دیگر عبادتوں کے اجروثواب کے برعکس اللہ تعالیٰ خود ہی اس عبادت کا ثواب اور بدلہ بندے کوعنایت فرمائے گا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔زمانہ ترقی کرگیا،مگر مکھی، مچھر اور چوہے اب بھی پیداہوتے ہیں، جراثیم کش دوائیں نئے جرثومے پالتی ہیں، جیسے جیسے سائنس ترقی کررہی ہے،بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔۔انسان کل بھی دکھی تھا،آج بھی سکھی نہیں۔ علاج تو خالق کے قْرب میں ہے۔ لوگ سمجھتے نہیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔