... loading ...
تمام حمد و ثنا اس پاک پروردگار کے لئے ہے جس کی مدحت تک ناطق کے تکلم کو رسائی نہیں اور اس کی نعمتوں کو گننے والے شمار نہیں کرسکتے۔ اس کے حق کو کوشش کرنے والے ادا نہیں کرسکتے، نہ ہمتوں کی بلندیاں اس کا ادراک کرسکتی ہیں نہ ذہانتوں کی گہرائیاں اس کی تہہ کو پاسکتی ہیں۔اس نے تجربات کے مراحل سے گزرے بغیر زمین و آسمان اور ان کے مابین مخلوقات کو غیب سے بالکل ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ ایجاد کیا اور واشگاف الفاظ میں دعوت دی کہ کوئی ہے جو اس کی تخلیقات میں عیب کی نشاندہی کرے۔ اس نے عرش و کرسی کی تخلیق کی اور کار ہائے قدرت کے لیے تمام تخلیقات کو ان کے افلاک میں ڈال کر ضوابط و قوانین کا پابند بنا دیا۔اس نے متضاد اجزاء کے مرکب سے آدم کو تخلیق کیا اور اسے فضیلتِ اشرف سے نواز کراحسنِ تقویم قرار دیا اور فرشتوں کو سجدہئ آدم کا حکم دے کر اس کی افضلیت پر مہر ثبت کر دی۔ پھر جس نے غرور و تکبر کے زیرِ اثر اس کے حکم سے سرکشی اختیار کی تو اسے ابلیس کا نام دے کر لعنت کا مستحق قرار دیا اور دیگر مخلوقات کے لیے نشانِ عبرت قرار دیا جبکہ دوسری جانب جب آدم نے اپنی خطا پر معافی طلب کی اور اس کی بزرگی، برتری و کبریائی کا اقرار کیا تو اسے ہدایت کے ساتھ زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کردیا اور اپنی صفات کا اقل تر تین حصہ عطا کیا تاکہ اس کے تقابل سے وہ اپنی بزرگی، برتری و کبریائی سے انسان کو مزید روشناس کروائے۔ پھر یوں جس نے اس کی وحدانیت، حقانیت اور کبریائیت کا اِصرار و تکرار کیا اس ذات نے اس کی تمام تر کمزوریوں اور ناتوانیوں کو ناقابل تسخیر طاقتوں میں بدل دیا پھر چشم فلک شاہد ہے کہ کبھی اس نے نار کو گلزار کروایا تو کبھی دریا کی تندو تیز لہروں کو چیر کر دشمن سے پرورش کروائی۔ کبھی کنویں کی تاریکیوں سے نکال کر مصر کا بادشاہ بنایا تو کبھی سمندر کو پاٹ کر راہ گزر بنا دی، کبھی لمس ید سے بے جان کو زندہ کردیا تو کبھی جنبشِ انگشت سے چاند کو دولخت کردیا، کبھی تارِ عنکبوت سے لشکر کا راستا روک دیا تو کبھی صحرانشینوں کے قدموں میں سلطنت روم وایراں کو ڈال دیا۔
غرض جس نے اس کی بڑائی بیان کی اور اس کے قوانین کا پاس کیا، اس نے اس کے سامنے کائنات کو جھکا دیا اور جس نے جستجو کی اس پر کائنات کے اسرار و رموز کو کھول کر رکھ دیا۔
اس نے قانونِ فطرت کے لبادے میں بنی آدم کی ہدایت کے لیے قانونِ حیات، قانونِ سیر، قانونِ سلطانیہ، قانونِ طبیعیات، قانونِ فلکیات، قانونِ ارضیات، قانونِ حیاتیات، قانونِ طب،قانونِ عبادات اور قانون اخلاقیات و دیگر سے متعارف کروایا۔ ان قوانین کی تعلیم کے لیے اس نے انبیاء ارسال کیے اور خاتم المرسلین ﷺپر اس سلسلے کو تمام کیا اور ان قوانین کو مکمل و جامع انداز میں قرآن مجید، فرقان حمید کی صورت میں قیامت تک بنی آدم کو عطا کرکے دعوت تدبر دیا۔
اس تدبر میں رنگ و نسل، دین و مذہب، عرب و عجم کی کوئی تفریق نہیں کی گئی جس کے باعث کبھی سمرین نے کائنات کے سربستہ رازوں کو پایاتو کبھی آموری، عکاری،آشوری، مصری، عرب وہندی نے علم و فنون کے ابواب وا کیے۔ پھر اہل فرہنگ،بنی سام اور بنی قنطورہ نے یہ باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لی اور جدت کے نام پر بنی نوع انسان کو خالقِ حقیقی سے دور کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ وہ قوانین جو باہم شیر و شکر تھے ان کو الگ الگ کرنے کا آغاز ہوا پھر کچھ قوانین معمل گاہوں اور رصد گاہوں کی زینت بنے تو کچھ کو ایوانوں اور عبادت گاہوں تک محدود کردیا۔ جب کہ کتاب ضابطہ حیات بلا تمیز و تخصیص دعوت فکر دے رہی تھی۔
یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں جہاں قوانین طبیعیات، کیمیاء، فلکیات، طب، حیات و حیاتیات میں نئے ابواب رقم کیے، وہاں قانونِ اخلاقیات قانون السلطانیہ والسیرکی بھرپور پامالی کی، اپنے اقتدار کے لیے ہر جائز اور ناجائز ذرائع کو استعمال کرنے میں دریغ نہیں کیا اپنی برتری جتانے کے لیے انسان نے تلوار کی جگہ آتشی اسلحہ دریافت کیا تو کبھی ایٹمی، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار کا استعمال کیا۔کھنکھناتی، ٹھیکری مٹی کا مجسم انسان، چند صفات اور اعزاز ِمسجود ملائکہ کے زیر اثر اپنے حقیقی تخلیق کار اور حاکم کو بھول کر ابلیس سے بھی آگے نکل گیا۔ ابلیس نے اس کی کبریائی کا اقرار تو کیا تھا لیکن حکم سے سرکشی اختیار کی مگر انسان نے تو اپنے رب کے وجود کا ہی انکار کردیا اور اپنی ربوبیت کا دعویدار ہوگیا۔
انسان نے جب اس کے قانون سے روگردانی کی تو اس منتقمِ اعظم نے انسان کے ضعف و ناتوانی کو باور کروانے کے لیے اپنے بظاہر کمزوراور ناتواں سپاہی اس کی سزا کے لئے مقرر کیے جب بابل کے حکمران نے سرکشی اختیار کی تو ایک مچھر سے اس کا مقابلہ کروا دیا اور اپنے قانون میں بیان کیا کہ وہ مچھر کی مثال دیتے ہوئے نہیں شرماتا۔ جب مصر کے حکمران نے طاقت کے نشے میں اس کے قانون کو للکارکر اپنی برتری کا دعویٰ کیا تو اس نے مینڈک اور ٹڈی کے ذریعے تنبیہہ کی اور جب اس نے سرکشی اختیار کی تو اسے رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔ جب انسان نے اس سے مقابلے کے لیے مال و اسباب اور ہاتھی جیسے جانور پر بھروسا کیا تو اس نے ابابیل کو پاسبان مقرر کرکے انسان پر واضح کردیا کہ وہ اکیلا ہی ہے غالب اور حکمت والا اور انسان کو چاہئے کہ اس سے سبق سیکھے۔
تاریخ وہ زبان ہے جسے اللہ نے قرآن کے لیے پسند کیا اور بار بار انسان کو گزشتہ سے تعبیر لے کر آئندہ کے لیے تدبیرِ صالح کا حکم دیا لیکن انسان خوگرِپیکر محسوس ہے وہ اس وقت تک عبرت نہیں لیتے جب تک عذاب کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لے،جبکہ آنکھوں کا دیکھنا حقیقت میں دیکھنا شمار نہیں کیا جاتا کہ آنکھیں اپنے اشخاص کو دھوکا دے سکتی ہیں پر عقل کا سکھایا ہوا کبھی دھوکا نہیں کھائے گا اور عقل کہتی ہے کہ دنیا میں سب سے بڑا عذاب توفیقِ سجدہ معبود کا سبب ہوتا ہے۔ آج درِبیت اللہ اور درِ بیت الرسول کا بند ہونا اس طرف اشارہ تو نہیں کہ اب ہمارے سجدوں میں اب وہ خلوص نہیں رہا اور ہماری ریاکاری اور خودکَشی (سیلفی) نے وہاں ہماری عبادتوں کی جگہ لے لی ہے۔
عصر حاضر کے صاحب اقتدار ایک بار پھر طاقت کے بدمست ہاتھی پر سوار ہوکر اس حاضر و ناظر کے وجود سے انکاری ہوئے تھے تواس نے اپنے نادیدہ سپاہی مقرر کرکے انسان کو ایک بار پھر اپنی طرف پلٹنے کے تنبیہہ کی ہے۔ ہمیں اس کے اشارے کو سمجھنا چاہئے۔ کورونا وائرس کی تخلیق رصدگاہ (لیب) میں ہوئی یا باہر ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ عذاب کو کسی بھی شکل میں اور کسی کے ذریعے بھی بھیج سکتا ہے۔ جب ہلاکو کو کسی نے اللہ کے قہر سے ڈرایا تو اس نے جواب دیا کہ آنکھیں کھول کر دیکھو میں ہی اس کا قہر ہوں جو تم پر نازل ہوا ہوں۔
خدا بڑا غیور ہے وہ اپنے اقتدار میں کسی کی شراکت برداشت نہیں کرتا۔آج بہت سی بین الاقوامی طاقتیں اس نادیدہ بظاہر حقیر ترین مخلوق کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہیں اور آسمان سے مدد کی امید میں ہیں۔ اس بات سے قطع نظر یہ نکتہ بھی اہم اور قابل توجہ ہے کہ ابلیس و دجال کے نمائندے انسانیت و دیانت کے لباس میں میدان میں اُترتے ہیں یہ فریب دورخی تصویر کی مانند ہے عام لوگ اس کی انسانیت و دیانت کی خدمت کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جبکہ اہلِ نظر اس میں پوشیدہ شیطانی مذموم مقاصد کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ موجودہ دور کا ہلاکو خان بل اینڈ میلنڈاگیٹس فاؤنڈیشن اور جان ہاپکنز بلومبرگ اسکول آف پبلک ہیلتھ اور عزائم نقد کرنسی اور انسانی آزادی کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے اور ایجنڈا 21 بھی۔
مخبرِ صادق ﷺنے خبر دی تھی کہ دجال جو جنت دکھائے گا وہ درحقیقت جہنم اور جو جہنم دکھائے گا وہ در حقیقت نجات ہوگی آج وہی ہوتا نظر آرہا ہے انسانیت کی خدمت اور فلاح کے پس پردہ انسانیت کے خلاف ہی جال بنا جارہا ہے۔
انسان سے اس کی آزادی اور دیگر حقوق سلب کرکے اسے ایک روبوٹ کی زندگی دی جارہی ہے۔ مرتے ہوئے انسان کو جان بچانے والی دوا بغیر پیسے کے نہ دینے والے بندوق کی نوک پر ویکسین مفت پلاتے ہیں۔ اب دیکھیں کے کورونا وائرس کی ویکسین کسی طرح سے پیش کی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پوری دنیا میں جن بااثر افراد نے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا دعویٰ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی جاں بحق نہیں ہوا بلکہ پانچ یوم کے قلیل عرصہ میں بھی صحت یاب ہوکر قرنطینہ سے باہر آگئے۔
اس دنیا نے اپنی تمام تر رعنائیوں اور رنگینوں کے باوجود ایک مقررہ دن کو فنا ہوجانا ہے اور باقی صرف اس کی ذات نے رہنا ہے جو لازوال ہے اور لامتناہی ہے۔ انسان اس دنیا کے فریب میں اس کو پانے کے لیے کیا کیا جتن کرتا ہے لیکن ایک دن سب کچھ یہاں چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہتا ہے اور پیچھے رہنے والے ایسے ہوجاتے ہیں کہ گویا موت صرف اسی کے لیے تھی جو چلا گیا کہتے ہیں کہ پھر تو یہ لوٹنا نقصان دہ ہے۔ یقینا لوٹنا تیرے رب کی طرف ہے اور اس کے نام کی تاثیر میں ہر مرض کی شفا ہے اور ہمارے حق میں شفا صرف اس کے ذکر میں پوشیدہ ہے اس ذات نے مرض سے پہلے دوا خلق کی ہے بس دریافت انسان کے سپرد کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انسان نے اپنے فرض کی ادائیگی کسی طرح کی۔ بے شک اُسی کی طرف اُن کو لوٹنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔