وجود

... loading ...

وجود

پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی اور ڈبلیو ایچ او

هفته 25 اپریل 2020 پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی اور ڈبلیو ایچ او

ڈبلیو ایچ او نے پاکستان کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی۔ اقتدار کے ایوانوں سے کچھ دن قبل ایک آواز سنائی دی تھی۔ کورونا وائرس کے حوالے سے ہمارے اعدادوشمار بہت اچھے ہیں۔ یہ آواز ہماری پالیسی میں تو منتقل نہ ہوسکی مگر اِسے بل گیٹس کے زیراثر گھاگ مافیا اور خرانٹ فارما اکٹھ نے اچھی طرح سن لیا ہے، جن کے آلہئ کار کے طور پر ڈبلیو ایچ او بروئے کار آتا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ٹیڈروس اذونوم نے دفترِ خارجہ میں منعقدہ ایک کانفرنس سے ویڈیو ربط کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کورونا وائرس 115 اضلاع میں پھیل چکا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ پھیلاؤ پنجاب اورسندھ میں ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات نہ کیے گئے تو جولائی تک پاکستان میں دو لاکھ افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں عملاً کورونا وائرس کے حوالے سے سخت اقدامات مسلسل جاری ہیں۔ کوروناوائرس کے پھیلاؤ کے دنیا میں رائج تصورات عملاً غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے ”pandemic“(عالمی وبا)قرار دیے جانے پر بھی عالمی ماہرین وبائیات تک نے سوالات اُٹھاد یے ہیں۔ اس حوالے سے ہم سادہ طور پر کچھ سوالات کے جواب نہیں جانتے۔ ڈبلیو ایچ او اور بل گیٹس وہ کون سی گیڈر سنگھی رکھتے ہیں جواُنہیں وائرس کے متعلق پیش قیاسی کے قابل بناتی ہیں۔ اُن کے پاس کسی بھی ملک کے لیے اقدامات کے نام پر ”لاک ڈاؤن“ کا جبر مسلط کرنے کا علاوہ کوئی پروگرام نہیں۔ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے باوجود وائرس کام کیسے کررہا ہے؟ پاکستان عملاً کئی ہفتوں سے مسلسل لاک ڈاؤن سے دوچار ہیں۔ اس دوران میں وائرس کہاں سے حرکت کررہا ہے۔ مقامی منتقلی کا تصور اکثر کیسز میں عجیب وغریب نتائج کا حامل ہے۔ ایک ہی گھر میں کچھ لوگ متاثر ہیں اور اکثر نہیں، ایسا کیوں ہے؟ کیا وائرس لازمی طور پر سب کو نشانا نہیں بناتا؟ منطقی طور پر کسی بھی وائرس کے پہلے شکار وہی ہونے چاہئے جو وائرس زدہ کسی بھی مریض کے قریب ہوتے ہیں۔ مگر ملک کے مختلف حصوں میں جب کسی گھر کا پہلا مریض وائرس زدہ قرار دیا جاتا ہے تو وہ کہاں سے اس کا نشانا بنا؟ اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی مستند اعدادوشمار دستیاب نہیں جو واضح طورپر کورونا وائرس کے رویے اور کارگزاری کا ایک شجرہ مہیا کرسکے۔ درحقیقت دنیا بھر میں یہ کھیل جن دعووں کے ساتھ جاری ہے، اُس کی شہادتیں دستیاب نہیں۔ خوف کام کررہا ہے۔ مریض ڈھونڈے جارہے ہیں۔ اور کورونا کے خوف میں دیگر اموات سے دوچار مریضوں کو کووڈ۔19 میں شامل کرکے ہندسوں میں جعلسازی کی جارہی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذونوم کو اچھی طرح تولنے ٹٹولنے اور کھولنے کھنگالنے کی ضرورت ہے۔ یہ شخص دنیا بھر میں اس عالی وبا کے متعلق تمام غلط دعووں اور اندازوں کا ذمہ دار ہے، اسی نے چین میں ووہان کے حوالے سے اُٹھائے گئے اقدامات کو منظم کیا اور دنیا کو ایک چینی ماڈل دے کر بل گیٹس کے منصوبوں کی راہ ہموار کی، یہاں تک کہ امریکا کوبھی اس کی مخالفت کرناپڑی۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کے خلاف ایک پٹیشن زیر گردش ہے، جس پر اب تک ایک ملین سے زائد لوگوں نے دستخط کیے ہیں۔ پٹیشن کے ذریعے ٹیڈروس اذونوم سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اس منصب کے اہل نہیں۔یہ پٹیشن ایک کھیل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ پٹیشن میں بنیادی طور پر جو الزامات عائد کیے گئے وہ سب چین میں کورونا وائرس کے حوالے سے ٹیڈ روس کے مشکوک کردار کو عیاں کرتے ہیں۔ ٹیڈروس اذونوم پر کچھ اس قسم کے الزامات ہیں:
٭ ٹیڈروس نے کورونا وائرس کے حوالے سے چین کے اعدادوشمار پر بھروسا کیا، جسے پرکھنے کے لیے کوئی آزاد ذریعہ موجود نہیں تھا۔
٭ ٹیڈروس نے چین میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ہنگامہ خیز دنوں میں دنیا بھر سے چین کے لیے جاری پروازوں کو روکنے کی مخالفت کی جس سے وائرس کو دنیا بھر میں پھیلنے کا موقع ملا۔
یہ دونوں الزامات درست ہیں مگر ہمارے نزدیک اس سے اخذ کردہ نتائج بالکل غلط ہیں۔ ان الزامات کی بنیاد پر ڈبلیو ایچ او کے سربراہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا ہے، اور باور کرایا جارہا ہے کہ وہ چین کی ایک کٹھ پتلی ہے۔ ٹیڈوس ایک بڑا کھیل کھیل رہے تھے، جس کا مقصد چین کی معیشت یا پھر پروازوں کا تحفظ نہیں تھا۔ وہ عملاً وائرس کے پھیلاؤ کی ایک مستند وجہ کو منظم کررہے تھے۔ اس لیے اُنہوں نے ابتدا میں چین سے فضائی آپریشن جاری رکھنے پر اِصرار کیا۔ جب یہ کام بخوبی انجام پاگیا تو اُنہوں نے چین میں لاک ڈاؤن کے ماڈل کو سراہنا شروع کردیا۔ کورونا کے پھیلاؤ کی مستند وجہ اور اس کے لیے لاک ڈاؤن کی صورت میں ایک حل دونوں ٹیڈروس اذونوم کے ہاتھ چین سے لگے۔ یہ اس کھیل کا طے شدہ ماڈل تھا۔ جو اس سے قبل نیٹ فلیکس کی سیریز اوراس کی آزمائشی مشق میں اجاگر کیا گیا تھا۔ ٹیڈوس اذونوم نے اپنا کردار اسی طرح ادا کیاتھا۔ چین امریکا تنازع کے تناظر میں اس کی تشریح مختلف پیرایے میں کی گئی جو درست نہیں۔اب اس کھیل کی مختلف پرتیں اتاریں۔
عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ٹیڈروس اذونوم کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والی پٹیشن کے چند روز بعدامریکی گلوکارہ لیڈی گاگااچانک حرکت میں آئیں اور اسے ایک حقیقی سپر اسٹار قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ لیڈی گاگا چین کی خفیہ ایجنسی ”ایم ایس ایس“ کے لیے توکام نہیں کرتی۔ درحقیقت جنہیں ٹیڈوس اذونوم کی ضرورت ہے، یا اُن سے ایک مہرے کے طور پر جو کام لے رہے ہیں، وہی اُن کی چھوی کو بھی بہتر رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے کام اُسی امریکا میں کیا جارہا ہے، جہاں ان دنوں موصوف کی سب سے زیادہ مخالفت کی جارہی ہے۔ یہاں ٹہر کر گیٹس فاونڈیشن اور ڈبلیو ایچ او کی تال میل کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ دنیا کے سارے سمجھدار لوگ کورونا وائرس کا پورا کھیل اسی تانے بانے سے جڑاہوا مانتے ہیں۔ مائیکروسوفٹ کے بانی بل گیٹس کی میلنڈا اینڈ گیٹس فاونڈیشن ڈبلیو ایچ او کی دوسری سب سے بڑی مالی مددگار ہے۔ ڈاکٹر رتھ فاونڈیشن کی ایک دستاویز یہ انکشاف کرنے کے لیے کافی ہے کہ کس طرح ڈبلیو ایچ او کی آزادی پر سمجھوتا ہو چکا ہے، اور ایک عالمی ادارہئ صحت کے طور پر اس کی دنیا بھر کے لیے پالیسیوں پر شکوک کے کتنے گہرے سائے لپٹے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹررتھ فاونڈیشن کی رپورٹ دراصل 2018ء کی ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے سالانہ اجلاس کا احاطہ کرتی ہے۔یہ ڈبلیو ایچ او کا فیصلہ ساز ادارہ ہے۔اس اجلاس میں یہ انکشاف ہو اکہ ڈبلیو ایچ کور یاستوں اور فارما اداروں سے حاصل ہونے والی کل رقوم کے مجموعے میں بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاونڈیشن نے 327ملین ڈالر کی رقم دی جس سے یہ عملاً ڈبلیو ایچ او کا امریکا کے بعد دوسرا بڑا مالی مددگار بن گئی۔ رپورٹ سے انکشاف ہوتا ہے کہ بل گیٹس کے ساتھ ڈبلیو ایچ او ایک سربراہ ریاست کے طور پرپیش آتی ہے۔ جس سے اس عالمی ادارے کی آزادانہ حیثیت عملاً ختم ہوگئی ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کاروباری مفادات کے حصول میں کوشاں اداروں سے عطیات وصولی کی صورت میں اپنی سائنسی ساکھ کو سونپ کر اپنے تمام مشوروں کو ناقابلِ اعتبار بنا دیا ہے۔ بل گیٹس کسی بھی دوسرے شخص یا ریاست کے مقابلے میں ایک عالمی صحت کی پالیسی کو آمرانہ انداز سے نافذ کرنے کے زیادہ قابل ہوگئے ہیں۔ وہ ڈبلیو ایچ او کے سالانہ اجلا س میں ایک فرد کے طور پر کسی بھی ریاستی سربراہ کی حیثیت سے خطاب کرتے ہیں۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اگر بل گیٹس ڈبلیو ایچ او کو فراہم کیے جانے والے اپنے سالانہ عطیات روک دیں تو عملاً یہ ادارہ اپنے بہت سے پروگرام میں ایک عضوِ معطل ہو کر رہ جائے گا۔ اس تناظر میں ڈبلیو ایچ او کواب مریضوں کے مفادات کا نمائندہ ادارہ نہیں سمجھا جاتا۔ عالمی ادارۂ صحت قدرتی بچاؤ والی صحت کے انسانی حق میں اٹھائے جانے والے اقدامات کا ضامن اور محافظ نہیں رہا۔ کاروباری اداروں کے محافظ کے طور پر اُٹھائے جانے والے اس کے مشکوک اقدامات نے ایک نئے عالمی ادارے کی ضرورت کو اُجاگر کیا ہے۔ درحقیقت ڈبلیو ایچ او کے موجودہ مشکوک ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذونوم 2017 میں اس منصب پر خود بل گیٹس کی حمایت سے تعینات کیے گئے تھے۔کورونا وائرس کے حوالے سے ٹیڈروس اذونوم نے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے جو خود ڈبلیو ایچ او کے لیے ایک کورونا وائرس میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر