... loading ...
جنگل کا شیر اپنی ڈھلتی عمر اور بگڑتی صحت سے پریشان تھا۔ آئے روز “مشاورتی ” اجلاس بلائے جاتے۔ وزیروں مشیروں سے گھنٹوں بحث مباحثہ ہوتا۔ “بادشاہ ” سلامت کا سب سے قریبی مشیر بندر اس ساری صورتحال سے پریشان تھا۔ ایک دن عرض گزار ہوا کہ بادشاہ سلامت آپ کا اقبال بلند ہو۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کرو۔ بادشاہ نے اثبات میں سر ہلایا تو بندر نے کہا بادشاہ سلامت آپ کی عمر اور صحت روز بروز بگڑتی جارہی ہے۔ روزانہ کے اجلاسوں سے جنگل کے باسیوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ آپ جلد سے جلد اپنے “جانشین ” کا اعلان کریں۔ اجلاسوں سے تنگ آئے بادشاہ نے کہا تم ہی مشورہ دے دو اگر مناسب ہوا تو آج ہی اعلان کردوں گا۔ بندر بولا۔۔۔۔۔ ہاتھی دیکھنے میں تو بہت بھاری بھرکم ہے لیکن یہ آپ کے قبیلے کا “فرد” نہیں اس لیے شکار کرسکے گا اور نہ ہی ہمارا دفاع۔ لومڑ کے چالاک ہونے میں شک نہیں مگر لگائی بجھائی جیسی بد عادت کی وجہ سے جنگل کے باسی اسے پسند نہیں کرتے۔ بندر باری باری سب جانوروں کی خوبیاں۔ خامیاں بادشاہ کے گوش گزار کرتا گیا جب “گیدڑ” کا ذکر آیا تو شیر چونکا ایسے لگا کہ وہ کسی نتیجے تک پہنچ چکا ہے۔ شیر نے کہا بس فیصلہ ہوچکا میرا جانشین “گیدڑ ” ہوگا۔ بادشاہ کے اس اعلان سے کئی چہرے اتر گئے۔ جنگل کے “اصول” کے مطابق بادشاہ سلامت کا “فیصلہ” حتمی ہوتا ہے۔ طاقتور۔ دلیر۔ تیزرفتار۔ چالاک۔ ہوشیار ہاتھ ملتے رہ گئے اور “شیر” کا جانشین “گیدڑ ” قرار پایا۔ شیر نے اپنے مشیر خاص بندر کی “خدمات ” بھی اپنے جانشین کو سونپ دیں۔ محفل برخاست ہوئی تو نئے “بادشاہ ” نے بندر سے کہا تم جانتے ہو میں یہ “پنگا” لے تو بیٹھا ہوں اب اسے ثابت کرنا بھی لازمی ہوگا۔ بندر نے مشورہ دیا کہ آپ کی “اصلیت ” سب جانتے ہیں اس لیے آپ شیر کی “کھال” پہن لیں۔ اس جیسی دھاڑ کی کوشش کریں۔ گیدڑ کو یہ مشورہ اچھا لگا اس نے عملدرآمد کا فیصلہ کرلیا۔ بندر اپنا مشورہ مانے جانے پر بہت خوش ہوا کہ اس کا پہلا مشورہ ہی بادشاہ سلامت کو اچھا لگا۔
دن گزرنے لگے گیدڑ خود کو شیر سمجھنے لگا ایک دن کہنے لگا کہ آج میرا “شکار ” کا موڈ بن گیا ہے۔ بندر عمر رسیدہ بھی تھا اور چالاک ہونے میں تو شک ہی نہیں۔ اس نے بادشاہ سلامت سے کہا آپ یہ شوق رہنے دیں جو کچھ مل جاتا ہے صبر شکر سے کھالیا کریں۔ بادشاہ نے ناراضگی ظاہر کی جس پر بندر نے کہا جہاں پناہ ایک مشورہ ہے کہ جب تک آپ کی آنکھیں “لال” نہ ہوجائیں حملہ نہ کرنا۔ بادشاہ کو مشورہ پسند آیا اس خوشی میں بندر کی جان بخش دی البتہ اسے اپنی رفاقت اور جنگل سے نکلنے کا حکم دے دیا۔ اس بوڑھے بندر کے بعد اس نے ایک نوجوان بندر کے ساتھ ساتھ لومڑی کو اپنا مشیر نامزد کردیا۔ نئے مشیر اپنے بادشاہ کو صحیح مشورہ دینے کی بجائے چاپلوسی پر لگ گئے۔ بادشاہ سلامت نے ہرن کا شکار کرنے کا اعلان کیا اور اپنے لشکر سمیت ہرنوں کے علاقے کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔ جنگل کے اس حصے میں اس لشکر کو اٹھکیلیاں کرتے۔ کلانچیں بھرتے ہرن نظر آئے تو لشکر نے وہیں پڑاؤ کرلیا۔ بادشاہ نے اپنے مشیروں کو بلایا حملے کی حتمی مشاورت شروع کی۔ بادشاہ نے ان سے کہا جب تک شیر کے کان کھڑے اور آنکھیں لال ہوجائیں وہ شکار نہیں کرتا۔ میں اس کا “جانشین” ہوں اسی طرح حملہ کروں گا۔ اس نے کہا میرا ٹیسٹ تھوڑا مختلف ہے میں ہرن کی بجائے “بارہ سنگھا” شکار کروں گا۔ حملے کی تیاری شروع ہوئی لومڑی اور بندر کی ڈیوٹی لگی کہ وہ بتائیں گے کہ کان کھڑے اور آنکھیں لال ہوچکی۔ “اٹھکیلیاں ” کرتا ہوا بارہ سنگھا جیسے ہی سامنے آیا گیدڑ نے سینہ تانا۔ نتھنے پھولائے اور اپنے “مشیروں ” کی جانب دیکھا مشیروں نے سر ہلایا گیدڑ نے دوڑ لگادی بارہ سنگھا تو ابھی کچھ فاصلے پہ تھا کہ “ہرن” راستے میں آگیا اس نے سر جھکایا اور گیدڑ کو ٹکر جڑ دی۔ ٹکر اس قدر زوردار تھی کہ اس کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے ابھی سنبھلا بھی نہ تھا کہ پیچھے سے ایک اور ٹکر پڑی۔ “بھاگنے” کے سوا چارہ نہ تھا “شکار” کا شوق رفوچکر ہوچکا تھا۔ گیدڑ نے “میدان” سے دوڑ لگادی۔ “بادشاہ ” کو دوڑتے دیکھ کر اس کے رفقاء بھی بھاگ نکلے جب دوڑتے ہوئے بادشاہ (گیدڑ) کے قریب پہنچے تو گیدڑ نے “شکوہ ” کہ تم دونوں نے مجھے مروادیا کیونکہ نہ تو میرے کان کھڑے ہوئے تھے اور نہ ہی آنکھیں لال ہوئیں۔
جنگل کے اس قصے کو جنگل کی “حدود ” تک ہی سمجھا جائے اس کا ن لیگ کی سیاست سے تعلق “محظ” اتفاق ہوگا۔ میری وضاحت کے باوجود مجھے یقین ہے کہ ن لیگ اور خصوصاً شہبازشریف کے بدخواہ اس جنگل کی کہانی کو ن لیگ کی “حقیقت ” قرار دیں۔ ایک “بدخواہ” نے تو ابھی سے مماثلت شروع کردی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کی کامیاب “نمائش ” کے باوجود جب مطلوبہ نتائج نہ ملے تو “شیر” کا بوڑھا اور بیمار ہونا بنتا تھا۔ پہلے مرحلے میں شیر کی جانشینی “شیرنی” کو سونپنے کا “فیصلہ” ہوا تھا لیکن جنگل کے بھی کچھ “اصول ” ہوتے ہیں اس لیے شیرنی ان اصولوں کی “بھینٹ” چڑھ گئی۔ جنگل کا شیر تو پھر بھی اپنے خاندان سے باہر جانشینی منتقل کرنے پر تیار ہوگیاتھا۔ پاکستان کی سیاست کے بھی “اپنے” ہی اصول ہیں اس لیے جانشینی باہر منتقل کرنے کی بجائے “گھر” میں رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ “رعایا ” نے یہ فیصلہ خندہ پیشانی سے قبول کیا اب جانشین مسند پہ فائز ہوچکا اس لیے فیصلے بھی اپنی مرضی سے کرنے لگا۔ “بیمار” کی تیمارداری کے نام پر کئی ماہ لندن میں گزارنے کے بعد اچانک وطن پلٹنے کا اعلان کیا تو جنگل میں “خوشی”? کی لہر دوڑنا فطری تھا۔ جانشین کی “صلاحیتوں ” کے سبھی معترف تھے اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ سب اچھا ہے۔ “شیر” جب “میدان” آیا تو پتہ چلا غزالی آنکھوں والے ہرن کی جگہ نیب کے ڈراؤنے “جانور ” سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ اب شیر کو سمجھ نہیں آرہی وہ مشاورت پہ مشاورت کرتا جارہا ہے۔ اب اس کے پاس واپسی کا بھی راستہ نہیں بچا وہ “اس” کی تلاش میں ہے جس نے کہا تھا آپ کے کان کھڑے اور آنکھیں “لال” ہوچکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔