... loading ...
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ‘ دو سو سے زائد ممالک کورونا وائرس یا کووڈ 19 سے متاثر ہیں۔ ایک وائرس دراصل ذیلی خوردبینی متعدی مرض یا وبا پھیلانے والا ایجنٹ ہے اور یہ حیاتی اجسام میں انفیکشن پیدا کرتا ہے۔ وائرس طفیلی صفت کا حامل ہوتا ہے ‘جس کے نتیجہ میں وہ انسانوں‘ جانوروں کے ساتھ بیکٹیریا میں کئی امراض یا بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔ صرف ایک Organism یا عضویہ کے اندر زندہ خلیہ کو لپیٹے رہتا ہے۔ اس کالم کے لیے وائرس کے بارے میں اتنی تفصیلات کافی ہیں۔ کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی متعدی مرض کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے COVID-19 کا نام دیا ہے۔ یہ وائرس پہلی مرتبہ ایک چینی ڈاکٹر لی وین لیانگ نے دسمبر 2019ء کے دوران ایک مریض میں دیکھا‘ جو اس وائرس (کورونا) کی زد میں آنے کے باعث بیمار ہوگیا تھا۔ چینی حکومت نے اس ڈاکٹر کی ستائش کرنے کی بجائے اسے ہراساں و پریشان کیا۔ یہاں تک کہ اس سے زبردستی اقبال ِجرم کی دستاویز پر دستخط بھی کروالیں۔ بدقسمتی سے وہ ڈاکٹر خود کورونا وائرس کی زد میں آنے کے باعث 7 فروری 2020ء کو صرف 33 سال کی عمر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی آغوش میں پہنچ گیا‘ (لیکن چینی حکام نے ڈاکٹر کی موت کے بعد اظہار معذرت کی) جس نئے وائرس کو ڈاکٹر لی وین لیانگ نے مریض میں دیکھا تھا‘ صرف 100 دن سے بھی کم عرصہ میں بڑی تیزی کے ساتھ ساری دنیا میں پھیل گیا۔ کووڈ 19 کو کسی بھی ملک کی سرحد پر روکا نہیں جاسکتاہے۔ وہ قومی سرحدوں کا احترام نہیں کرتا اور یہ ایسا وائرس ہے‘ جو مذہب‘ ذات پات‘ رنگ و نسل‘ جنس اور مقام پیدائش کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ امتیاز نہیں برتتا۔ حس ِمزاح کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وائرس کے بارے میں یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ کورونا ایسا وائرس ہے‘ جو دستور ہند کی دفعات 14 اور 15 کا احترام کرتا ہے۔
بے بس و مجبور قائدین کرہ ارض کا سب سے بااختیار باالفاظ دیگر طاقتور انسان (جیسا کہ وہ کہتے ہیں) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بڑی بے بسی و لاچاری کے ساتھ لاکھوں امریکیوں کو اس وائرس سے متاثر ہوتے ہوئے دیکھا۔ امریکا میں کورونا متاثرین کی تعداد تین اپریل کو 213600 ہوگئی۔ (جو دنیا میں متاثرین کی سب سے بڑی تعداد ہے) امریکا جیسے ترقی یافتہ اور طاقتور ملک میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر مرنے والوں کی امکانی تعداد ایک لاکھ اور 240000 کے درمیان بتائی جارہی ہے‘ یعنی یہ پیش قیاسی کی جارہی ہے کہ وہاں مذکورہ تعداد میں لوگ فوت ہوں گے۔ جہاں تک امریکی فوج کا سوال ہے‘ یہ دنیا کی طاقتور ترین فوج ہے‘ لیکن وہ بھی وائرس سے ہو رہی تباہی روکنے کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ دنیا کے بیشتر دولت مند امریکا میں رہتے ہیں ‘لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان دولت مندوں کی دولت بھی کسی کام کی نہیں۔ ڈالر کی قدر دیگر کرنسیوں کی مقابل کافی مستحکم ہے‘ لیکن ایک طاقتور و مستحکم ڈالر فی الوقت یورو اور یون کی طرح بے بس و بے اختیار ہوگیا ہے۔ ابھی تک کئی سربراہان ِحکومت جن میں منتخبہ یا اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔ اپنے ملکوں میں حکمرانی کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کی حکمرانی میں شہریوں کی مرضی شامل نہیں ہے‘ جیسا کہ بروس‘ اسپرنگیٹنBad Lands and a king ain’t Satisfied خشک علاقے اور ایک بادشاہ ہر چیز پر حکمرانی تک مطمئن نہیں ہوگا ‘چاہے ان حکمرانوں کے اقدامات آج کتنے کھوکھلے دکھائی دیتے ہیں۔ حکم و فرمان شرائط‘ تاحیات اقتدار‘ ربڑ سٹامپ پارلیمنٹ‘ جانبدار عدالتیں‘ اپنے آپ کو موقع کے مطابق ڈھالنے والی ایجنسیاں‘ جاسوس اور سب سے زیادہ بیجا استعمال کیا جانے والا آلہ‘ یعنی اپنے سیاسی مخالفین کو بنا کسی الزام کے مہینوں‘ برسوں تک قید خانوں میں پھینک دینا تمام کتنی کھوکھلی چیزیں ہیں۔ ظالم و جابر اور مظلوم آپ کو چاہیے کہ ظالم و جابر کو یاد دلائیں کہ یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ ساری دنیا قید خانہ میں تبدیل ہوچکی ہے اور اس قید خانہ میں ظالم اور مظلوم دونوں قید ہیں۔ جب سے آپ لاک ڈائون کر دیئے گئے ہیں یا آپ پر لاک ڈائون نافذ کیا گیا ہے ‘یہاں ایک ایسا گیم ہے‘ جو آپ کھیل سکتے ہیں۔ اپنے لیپ ٹاپ یا فون میں عالمی نقشہ ڈائون لوڈ کریں۔ اپنے خاندان کے کسی رکن سے کہئے کہ وہ ایک کے بعد ایک ملکوں کی نشاندہی کرتے جائے ‘پھر ایک سوال کریں۔ آیا اس ملک نے بغیرکسی الزام کے عوام کو جیلوں میں ٹھونس دیا ہے؟ اس کھیل کے ذریعہ آپ کو یہ پتا چلے گا یہ صرف مثالیں ہیں۔ چلیے جنوبی امریکا سے شروع کرتے ہیں‘ ونیزویلا اس ملک میں تیرہ اپوزیشن قائدین کی پارلیمانی رکنیت چھین لی گئی ہے اور یہ کام صدر نکولاس مدورو کی کٹھ پتلی عدلیہ نے کیا ہے۔ یہ اپوزیشن قائدین جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں یا پھر جیلوں میں قید و بند کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب‘ افریقہ کی طرف چلتے ہیں‘ یہاں تو منظر بہت خراب ہے۔
ایتھوپیا‘ مسٹر ابی احمد 2018ء میں عہدہ وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوئے۔ انہوں نے ایریٹیریا کے ساتھ امن معاہدہ کیا‘ جس کے عوض انہیں اس کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اس ملک میں 2019 ء میں انٹرنیٹ بند کردیا گیا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم نے کم از کم 64 ماورائے عدالت قتل کا انکشاف کیا اور اس سلسلہ میں دستاویزات تیار کیے‘ یہاں تک کہ 1400 ایسے واقعات کا بھی پتا چلایا ‘جہاں من مانی کرتے ہوئے لوگوں کو حراست میں لیکر محبوس رکھا گیا ہے۔ تنزانیہ : صدر جان ماگوفولی نے اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ اور صحافیوں کو گرفتار کروایا۔ میڈیا اداروں کو بند کیا۔ اور ناراض سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے قوانین منظور کروائے۔ یورپ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ملی جلی تصویر نظر آئی ہے۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اورہان نے عاملہ‘ متفقہ اور عدلیہ کو اپنا موافق بنا لیا۔ ان کی حکومت نے سنٹرل یوروپین یونیورسٹی کو بند ہونے پر مجبور کیا۔ ساتھ ہی پہلا انٹرنیٹ ٹیکس نافذ کیا۔ 30 مارچ کو مسٹر اورہان نے ایمرجنسی قانون منظور کروایا‘ جس کے تحت وہ جب تک چاہیں ملک پر حکمرانی کرسکتے ہیں۔ روس : روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ایک دستوری ترمیم کے ذریعہ اپنی میعاد کو بڑھانے کا کام کیا ہے‘ یعنی وہ بھی اپنی مرضی کے مطابق‘ جب تک چاہیں صدر برقرار رہ سکتے ہیں۔ ماسکو میں اس قانون کے خلاف جب لاکھوں کی تعداد میں احتجاجی سڑکوں پر نکل آئے حکام نے ان پر لاٹھی چارج کردیا۔ 2000 سے زائد زخمی ہوئے۔ درجنوں کو شدید زدوکوب کیا گیا۔ بے شمار مظاہرین کے خلاف فوجداری مقدمات دائر کیے گئے۔ سیاسی مخالفین کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ پولیس عہدہ داروں نے تشدد کی حد کردی‘ بچوں کو بھی حراست میں لیا گیا‘ جبکہ والدین و سرپرستوں کو دھمکیاں دیا جانا عام ہوگیا ہے۔ فی الوقت روس میں 200 سیاسی قیدی ہیں۔
ایشیاء :آزادی کی صورتِ حال مختلف ملکوں میں مختلف ہوئی ہے۔ بعض ملکوں کو ہم جمہوریتوں سے تعبیر بھی نہیں کرسکتے۔ تھائی لینڈ : وزیراعظم پرایوت چان اوچا کی نئی حکومت نے 2019ء میں اقتدار سنبھالا۔ سیاسی کارکنوں پر جسمانی حملے کیے گئے۔ حقوق انسانی کی پامالی کو روکنے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے جہد کاروں کو روپوش ہونے پر مجبور کیا گیا۔ ضابطہ فوجداری کی ایسی دفعات بنائی گئیں ‘جو اظہارِ خیال کی آزادی کے لیے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہیں۔کمبوڈیا میں 2018ء کے انتخابات انتہائی جانبدارانہ انداز میں کروائے گئے‘ جس میں رائے دہندوں کو بامعنی پسند کا حق نہیں دیا گیا۔ اصل اپوزیشن جماعت پر پابندی عائد کردی گئی۔ اپوزیشن قائدین کو جیل میں ڈالا گیا یا پھر جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ آزادانہ میڈیا اور مہذب سماج کے جہدکاروں پر پابندیاں عائد کی گئیں ‘انہیں بند کردیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حکمراں جماعت نے دونوں ایوانوں کی ہر نشست پر کامیابی حاصل کی۔ انسانیت کی فتح ہوگی۔ اس سے پہلے کہ مایوس ہو جائیں اپنے آپ سے پوچھئے کہ ہر طاقتور بااثر لیڈر کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے قابل نہیں۔ ا?خر کیوں؟ کیا اس وبا پر بالآخر انسانیت فتح پالے گی؟ ٹاملناڈو کے بقید حیات ممتاز شاعر مسٹر وائرا متھو بھی ایسا ہی کچھ سوچتے ہیں اور انہوں نے کورونا وائرس پر ایک خوبصورت نظم تحریر کی ہے۔ یہاں صرف اس کے ایک حصہ کا ترجمہ پیش ِ خدمت ہے:۔ ایٹم سے بھی چھوٹا ایٹم بم سے زیادہ ہلاکت خیز خاموشی سے داخل ہوا جنگ کے بناء تباہ کردیا ایسا کورونا کوبھی فنا کردے گا اور وہ اس وبا پر فتح پائے گا جب کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں انسانیت کامیاب ہوتی ہے ‘تو مجھے امید ہے کہ انسانیت‘ آمر حکمرانوں اور ظالم حکومتوں سے اپنی آزادی کی لڑائی بھی جیت جائے گی۔ ان لوگوں کے خلاف بھی جو ڈکٹیٹر بننے کے خواہاں ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔