... loading ...
آج کا برمودا مثلث ہمیں حیرتوں کے ایک جہان میں لے جاتا ہے مگر کبھی یہاں سے ایک بحری بیڑہ زندگی کی جنگ لڑتے محفوظ لوٹا تھا، جس نے انگریزی کے سب سے بڑے ڈراما نگار ولیم شیکسپیئر کو بھی ہکا بکا کردیا تھا۔ لندن میں سنسنی کی اُسی لہرمیں اُس نے ایک ڈرامے کو خون جگر دیا۔ ”ٹیمپسٹ“اُسی ڈرامے کا نام ہے۔ بس اُس کا ایک فقرہ ہمیں درکار ہے جس نے بعد میں ضرب المثل حیثیت اختیار کی:
”Hell is empty and all the devils are here.“
(جہنم خالی ہے اور تمام شیطان یہاں ہیں)۔
کورونا وائرس کے ہنگام یہ ڈاکٹر راشد بٹر ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ کس قسم کے شیطانوں نے جہنم خالی کرکے ہماری دنیا پر قبضہ کررکھا ہے۔ کورونا وائرس درحقیقت کیا ہے؟ اور یہ کس نوع کے اثرات مرتب کررہا ہے، اس کے متعلق ڈاکٹر بٹر کے خیالات نے ایک زلزلہ پیدا کردیا ہے۔ پہلے جان لیں کہ ڈاکٹر راشد بٹر کون ہیں؟وہ یونیورسٹی آف اوسٹیوپیتھک میڈیسن اینڈ ہیلتھ سائنسز، کالج آف میڈیسن اینڈ سرجری سے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے جنرل سرجری اور ایمرجنسی میڈیسن میں تربیت حاصل کی اور امریکی فوج میں بریگیڈ سرجن اور ایمرجنسی میڈیسن کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔وہ ایک لمبا چوڑا طبی پس منظر رکھنے کے ساتھ کچھ تنازعات میں بھی گھرے ہیں۔ اُن کے کینسر اور آٹزم (Autism) بیماریوں کے لیے طریقۂ علاج (کیلیشن تھراپی) پر اعتراضات وارد کیے جاتے ہیں۔ مگر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مرکزی فکر کے دھاروں سے الگ رہ کر مقام بنانے والے گاہے مختلف اعتراضات کے نرغے میں رہتے ہیں، کیونکہ وہ سوال اُٹھاتے ہیں۔ ڈاکٹر راشد بٹر نے کورونا وائرس کے حوالے سے انتہائی سنگین نوعیت کا مقدمہ کھڑا کردیا ہے۔ اُنہوں نے ایک پچاس منٹ کے مسلسل انٹرویو میں تین مختلف پہلوؤں سے کورونا وائرس کے رائج تمام تصورات کی قلعی کھول دی۔
اولاً: کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے تمام تصورات غلط ہیں، جسے مرکزی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک پروپیگنڈے کے طور پر راسخ کیا گیا ہے۔
ثانیاً: کورونا وائرس پھیلانے کے ذمہ دار کون ہیں؟
ثالثاً:اس پورے کھیل کے پس منظر میں ویکیسن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جارہا ہے، جس کی اس بیماری میں سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں۔
یہ تینوں تصورات دنیا کے موجود طرزِ عمل سے بالکل مختلف ہیں۔ ڈاکٹر راشد بٹر کے ان سنسنی خیز تصورات کی حقیقت بھی سمجھ لیتے ہیں۔
ڈاکٹر راشد بٹر زور دے کرکہہ رہے ہیں کہ کورونا وبا، وائرس سے زیادہ دراصل انسان کی ایک خاص حالت یعنی قلیل آکسیجنی کیفیت کو اپنا شکار بناتی ہے، جس میں فائیو جی ٹیکنالوجی ایک پیچیدہ عامل کے طور پر کام کررہی ہے۔ یہ امر واضح رہنا چاہئے کہ برطانیا میں کورونا وبا پھیلنے کے ساتھ ہی لوگوں نے فائیو جی ٹاؤر گرانے شروع کردیے تھے، اس عوامی ردِ عمل کو حکومت نے سختی سے کچل دیا تھا۔ مرکزی ذرائع ابلاغ نے بھی انتہائی جوش سے اس کا ساتھ دیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ فائیو جی ٹیکنالوجی ایک پیچیدہ عامل کے طور پر اس کے فروغ میں کہیں حصہ دار نہ ہو، مگر ڈاکٹر راشد بٹر کے پاس اس کی ٹھوس طبی وجوہات موجود ہیں۔سمجھنے میں کیا حرج ہے۔ڈاکٹر راشد بٹر کہتے ہیں کہ میں نے بہت سے دوست ڈاکٹرز سے اس موضوع پر خط وکتابت کی، تو سب ایک ہی بات پر اِصرار کررہے ہیں کہ یہ وائرل بیماری نہیں بلکہ ایک اونچائی سے لاحق ہونے والا بخار ہے جو ہائپو کسیا (hypoxia)کی حالت میں ظاہر ہوتا ہے۔ وہ یہ سادہ بیان نہیں دے رہے، بلکہ اس کی طبی تفصیلات بھی چھان پھٹک کر پیش کررہے ہیں۔ ڈاکٹر راشد بٹر کے مطابق ”ہم نے سب سے پہلے یہ پتہ لگایا ہے کہ کووڈ۔19 براہ راست پھیپھڑوں پر حملہ نہیں کرتا۔یہ نمونیا کے تعاقب میں ہوتا ہے۔جس کا اثر سب سے پہلے خون میں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے”ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن“ (hydroxychloroquine) بہت موثر رہتی ہے۔ کیونکہ یہ خون کے لیے شفا بخش ہے، پھیپھڑوں سے متعلق نہیں۔ کووڈ۔19 کا برتاؤ کسی وائرس کی طرح نہیں جو خود مدافعتی نظام کے لیے کسی پیراسائٹ حملے کی مانند ہوتا ہے بلکہ یہ ایک ملیریا اور لوپس (lupus) کے مرض جیسا ہے۔ اس میں ایک جراثیمی زہر (ٹاکسن) ہیمو گلوبن میں موجود آئرن کو آکسیجن لے جانے سے روکتا ہے۔ یوں بتدریج سانس لینے اور پھیپھڑوں کی پریشانی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے شکار لوگوں کے لیے اسی باعث وٹامن سی، سلینیئم اور وٹامن ڈی کافی مفید ہے اور ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن جادو کا کام کرتے ہوئے صرف ایک دن یا چند گھنٹے ہی لیتی ہے“۔ ڈاکٹر راشد بٹر کی اس طبی توجیہات وتفصیلات کو مان لیا جائے تو کورونا وائرس کے نام پر جاری پورا کھیل ہی ایک دھوکا لگتا ہے۔ یہ پہلو اس حوالے سے زیادہ سنگین طور پر قرین از قیاس لگتا ہے جب کورونا وائرس کے حوالے سے دنیا بھر میں اعدادوشمار ایک گورکھ دھندے کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ غلط اعدادوشمار اور غلط تاویلات سے یہ پورا تصور مشکوک ہو جاتا ہے جو کووڈ۔19 کے نام پر مرکزی دھارے میں موجود ہے۔ ڈاکٹر راشد بٹر نے اپنے انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ ایسے تمام ماہرین، معالجین اور طبی محققین جو اس پورے معاملے پر سنجیدہ طبی سوالات اُٹھا رہے ہیں، اُنہیں انتہائی منظم طور پر مرکزی دھارے سے محذوف (سنسرڈ) کیا جارہا ہے۔خود ڈاکٹر راشد بٹر کا یہ انٹرویو جسے اب تک چھ ملین کے قریب لوگ دیکھ چکے ہیں، اسی سلوک کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ مرکزی ذرائع ابلاغ کس طرح جھوٹ کے فروغ کا حصہ بنتے ہیں، عالمی سطح پر یہ نمونہ ٔ ابلاغ دراصل کیا قیامتیں ڈھاتا ہے، یہ ایک طویل اور علیحدہ موضوع ہے جسے الگ زیر بحث لایا جائے گا۔
ڈاکٹر راشد بٹر کے انٹرویو کاایک اہم حصہ اس کھیل کے پیچھے لوگوں کی نشاندہی سے متعلق ہے۔ امریکی فوج میں ایک برگیڈئیر سرجن کے طور پر فعال کردار ادا کرنے سے وہ بہت سی درونِ خانہ حقیقتوں سے واقف ہیں جس کا اُنہوں نے دبے دبے لفظوں میں ذکر کیا ہے۔ مگر اُنہوں نے کورونا وائرس کے حوالے سے براہ ِ راست بل گیٹس کے ساتھ ایک اکٹھ کو اس پورے کھیل کا ذمہ دار قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ کووڈ۔19 کے وائرس کی نشوونما میں بل گیٹس اورامریکی معالج اورڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف الرجی و وبائی امراض ڈاکٹرانتھونی اسٹیفن فوکی کو قرار دیا۔ ڈاکٹر راشد بٹر نے امریکیوں کو غلط معلومات کی مسلسل فراہمی پر اپنی بیزاری ظاہر کرتے ہوئے معالجین سے درخواست کی کہ وہ اس وبا کے متعلق غلط تصورات کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنی معلومات کے ساتھ سامنے آئیں۔ کیونکہ عوام کو یہ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس وبائی بیماری کی آڑ میں ایک بہت مجرمانہ عنصر موجود ہے۔ اُنہوں نے انکشاف کیا کہ ڈاکٹر فوکی 1981ء میں ایڈز کی ویکسین پر کام کررہے تھے، جب کہ یہ 1984 میں پوری طرح سامنے آیا تھا۔ کوئی شخص ایڈز کے پھیلنے کی پیش گوئی کیسے کرسکتا تھا؟ڈاکٹر راشد بٹر نے اسے بھی ایک ویکیسن کے کھیل سے منسلک کرتے ہوئے کچھ منصوبوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔ کورونا وائرس کے مختلف پہلوؤں کو مختلف زاویوں سے ہم یہاں کھنگال رہے ہیں۔ دنیا بھر میں متبادل موقف کے طور پر ایک نئی لہر بھی پیدا ہورہی ہے۔ اس پر نظر رکھیں گے۔ مگر ڈاکٹر راشد بٹر نے اس کھیل کے جس مقصد یعنی ویکسین کا ذکر کیا ہے، اس میں کچھ پیش رفت سامنے آرہی ہے۔ اگر اس پورے کھیل کو سمجھ لیا جائے تو ولیم شیکسپیئر سمجھ میں آتا ہے جسے دانائے راز علامہ اقبالؒ نے خود ایک ”رازداں“ قرار دیتے ہوئے کہا تھا:
حِفظ ِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
رازداں کے الفاظ پھر دہراتے ہیں: جہنم خالی ہے اور تمام شیطان یہاں ہیں“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔