... loading ...
مغرب بدترین مفادات کے سفاک محافظ کے طور پر ہمیشہ ”سچ“ کا قاتل رہا۔اس کی تاریخ جھوٹ، منافقت، گمراہ کن بیانئے، بدترین تاویلیں، غلط پروپیگنڈا، دھوکا اور متضاد کردار سے عبارت ہے۔ کورونا وائرس کے ذریعے جاری دنیا بھر میں کھیل اسی کردار کی مزید وضاحت بنتا جارہا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں تاریخ میں ہسپانوی لیڈی کسے کہتے ہیں؟جان لیجیے! یہ انفلوئنزا وبا کا نام ہے، جس نے 1918-19 میں اپنی چَھب دکھائی، دیکھتے ہی دیکھتے امریکا کی 48ریاستوں میں پھیل گئی۔ انفلوئنزا کی وبا دو مختلف لہروں میں پھیلی تھی۔ پہلی نے 1918ء کی ابتداء میں گھونگٹ اُٹھایا، دوسری اُسی سال موسم گرما میں وائرس کے ساتھ بغلگیر ہو کر اِٹھلاتی لہراتی سامنے آئی۔
دنیا کے بدترین حادثات پر کام کرنے والے مصنف اسٹیفن جے اسپگنیس نے دنیا کے بڑے حادثات اور وباؤں کا احاطہ کیا تو ”ہسپانوی لیڈی“ کا تذکرہ بھی چھیڑا۔ 1918 ء میں نیویارک کے ہیلتھ کمشنر ڈاکٹر گولڈ واٹر کا ایک بیان ہمیں متوجہ کرتا ہے: صورتِ حال لوگوں کے تصور سے بھی زیادہ خراب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس شہر میں انفلو ئنزا کے مریضوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے جتنی کہ کہ محکمۂ صحت نے بتائی ہے“۔امریکا باقی دنیا کے ساتھ ٹھیک 102 برسوں بعد ایک دوسری وبا کا سامناکررہا ہے جسے امریکی صدرطنزاً چینی وائرس کہتے ہیں۔ کوروناوائرس کے حوالے سے امریکی کردار بالکل مختلف طور پر ظاہر ہورہا ہے۔
امریکا انفلوئنزا وبا کے ہنگام میں اپنے اعدادوشمار چھپا رہاتھا، کیونکہ اس وبا کا بڑا ہدف فوجی بنے تھے۔ فوجی حوصلوں کو کسی منفی لہر سے بچانے کے لیے امریکا نے اعدادوشمار کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ اب معاملہ مختلف ہے۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی پالیسی کورونا وائرس کے خوف سے وابستہ ہے۔ جس میں اعدادوشمار بنیادی کردار اداکرتے ہیں۔ اعدادوشمار میں اضافہ لاک ڈاؤن کی پالیسی کو تقویت دیتا ہے، اور لاک ڈاؤن ایک نئی دنیا کی تشکیل میں معاون ثابت ہورہا ہے۔ چنانچہ کھیل خطرناک طریقے سے جاری ہے۔ انفلوئنزا نامی ہسپانوی لیڈی کو حجاب میں رکھنے اور کورونا نامی تاج کو دنیا دنیا گھمانے میں مشترک بات ”فائدے“ کی نفسیات ہے۔ صداقت اور انسانیت یہ کن بلاؤں کا نام ہے؟دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے کہ کورونا وائرس کے مبالغہ آمیز اعدادوشمار دراصل لاک ڈاؤن کے مکروہ منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے طبی شعبے کی سفاکانہ معاونت سے پیدا کیے جارہے ہیں۔
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں اس امر کا اعتراف کیا کہ کورونا وائرس سے شمار کی جانے والی ہلاکتوں میں اسّی فیصد تعداد ایسے مریضوں کی ہیں جو دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا تھے۔ ان سطور کو تحریر کیے جانے تک پاکستان بھر میں ”سندھ حکومت کی پوری اُچھل کود“کے باوجود کورنا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی سرکاری تعداد 197 ہے۔اگر اس میں سے دیگر امراض میں مبتلا اسی فیصد تعداد کو منہا کردیا جائے تو یہ ہندسہ 40افراد سے بھی کم پر آٹہرتا ہے۔ بھیڑ چال کے چلن، قومی شعور کی پستی اور ناقص منصوبہ بندی کی اِسی روش پر عدالتِ عظمیٰ کے منصف اعلیٰ گلزار احمد نے انتہائی جائز سوالات اُٹھا ئے ہیں۔ اس کھیل کے اصل مرکز امریکا میں بھی اس پر شدید آوازیں اُٹھ رہی ہیں یہاں تک کہ مشی گن میں عوام احتجاج کرنے کے لیے باہر نکل آئے ہیں۔ یہ تمام پہلو ہماری توجہ کا زیادہ ارتکاز چاہتے ہیں کہ اعدادوشمار کی ان جعلسازیوں کواچھی طرح سمجھا جائے جو دنیا بھر میں کورونا وائرس کے نام پر جاری ہے۔ اسٹینفورڈ کے تازہ ترین سروے نے ان جعلسازیوں سے پردہ مزید سرکا دیا ہے۔
ایم آئی ٹی ٹیک ریویو نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیقات کا اپنے ایک مضمون میں احاطہ کرتے ہوئے اسے ایک خوب صورت عنوان ”کووڈ۔19 کے ذریعے ایک نئی دنیا کی تشکیل“ دیا ہے۔ درحقیقت اس نئی دنیا کا حصول موجودہ دنیا کو معاشرتی اور معاشی طور پر مفلوج کرکے ہی ممکن ہے۔ لاک ڈاؤن اس ہدف کو آسان کررہا ہے۔ مضمون میں اُن زرخیز رشتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو عوامی ہیجان کو پیدا کرنے کا باعث ہے جس سے کووڈ۔19 کے”پھیلاؤ“کا مغالطہ تخلیق کیا جاتا ہے اور پھر اس سے دنیا کو معاشرتی ومعاشی طور پر اپاہج بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کا مطالعہ ایک زبردست رجحان کے طور پر نئے پہلو سے کورونا وائرس کو پہچاننے میں مدد دیتا ہے۔ یہ تحقیقاتی مطالعہ دعویٰ کرتا ہے کہ کورونا وائرس کے شکار دنیا میں اس سے کہیں زیادہ لوگ ہیں جنہیں اعدادوشمار میں ہم شامل کرتے ہیں یا جن کی تشخیص کا ہم (غلط) اعلان کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر یونیورسٹی اس نکتے کو اجاگر کرتی ہے کہ اگر اُن بے شمار لوگوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں سوچا جائے تو یہ اس سے کہیں زیادہ ہونی چاہئے جتنے کے اعدادوشمار ہمارے پاس موجود ہے۔ مگر یونیورسٹی کی تحقیقات کے مطابق کورنا وائرس کے شکار بے شمار افراد کے مقابلے میں ہلاکتوں کی تعداد اپنے تناسب میں انتہائی کم رہ جاتی ہے۔ اسٹینفورڈ کا اپنے تحقیقاتی مطالعے میں اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں کوروناوائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح کسی بھی طور سے 0.2 فیصد سے زیادہ نہیں۔ اس شرح سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کورونا وائرس عام نزلہ سے بھی زیادہ خطرناک نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عام نزلہ دنیا کے لیے خطرناک نہیں تو پھر کووڈ۔19 یا کورونا وائرس کیوں خطرناک ہے؟ظاہر ہے کہ یہ مطالعہ اس حوالے سے ایک ایسے قرین ازقیاس پہلو کو اجاگر کرتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوروناوائرس بیان کردہ اعداوشمار سے زیادہ مگر عوامی ہیجان میں پیدا کیے گئے خوف سے کہیں کم مہلک ہے۔
یہ بات ریکارڈ پر رہنی چاہئے کہ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی تازہ تحقیق کے شریک مصنف اور اسٹینفورڈ اسکول آف میڈیسن سے وابستہ مشہور یونانی امریکی معالج وسائنسدان جان آئینڈس (John Ioannidis)دنیا بھر میں شواہد کی بنیاد پرادویات، وبائیات اور علاج کے متعلق تحقیقات میں انتہائی مشہور ہیں۔ اُنہوں نے مارچ میں بھی اپنی ایک تحقیق پر مبنی تحریر میں یہ نشاندہی کی تھی کہ کورونا وائرس عوامی اندیشوں کے مقابلے میں انتہائی کم مہلک ہے۔ اس تحقیق سے یہ بھی واضح ہے کہ کورونا وائرس کے بحران کے خاتمے پر شرح اموات مزید کم ہوجائیگی۔جب جوہری طور پر یہ اندازا بھی لگانا آسان ہو جائے گاکہ وائرس نے کتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو نشانا بنایا تھا مگر اُن میں نہ تو کوئی خاص علامتیں ظاہر ہوئیں اور نہ ہی اُنہیں علاج کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس خیال کو مزید تقویت بوسٹن میں واقع برگیہم اینڈ وومن اسپتال کے مشہور معالج جیریمی سیموئیل فاسٹ نے بھی اپنے نتائج فکر سے پہنچائی۔ اُنہوں نے اپنی ایک تحریر میں کورونا وائرس کے حوالے سے بیان کردہ شرح اموات کے متعلق صاف صاف لکھا کہ جب یہ معاملہ سمٹے گا تو یہ شرح اموات ایک دم گر کر بہت نیچے چلی جائیں گی۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیقات بآلفاظ دیگر اس پہلو کی تصدیق کرتی ہے۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیقات میں کیلیفورنیا کی چھٹی سب سے زیادہ آبادی والی سانٹا کلارا کاؤنٹی سے کل”3330“ لوگوں کے ٹیسٹ لیے گئے تو اندازا ہوا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ لوگوں کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے 50تا 85 فیصد زیادہ ہے مگر اس سے ہونے والی ہلاکتیں تناسب کے اعتبار سے انتہائی کم رہ جاتی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق منگل تک امریکا میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق شرح اموات 4.1فیصد تھاجو اپنے اصل اعدادوشمار کی روشنی میں محض 0.12 سے 0.2 فیصد تک ہی سمٹ کر رہ جاتا ہے۔ یہاں ہم سیدھے طریقے سے یہ مان رہے ہیں کہ جن اعدادوشمار کو دنیا بھر میں بیان کیا جارہا ہے، وہ درست ہے، امریکا کورونا وائرس کے حوالے سے متاثرین کی جوتعداد بتا رہا ہے وہ سچ ہے۔وزیراعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی جن اسی فیصد مریضوں میں دیگر امراض کی نشاندہی کررہے ہیں وہ بھی ”غلط“ ہے اور سو فیصد درست کورونا کی تشخیص کے ساتھ درست اموات شمار کی گئیں، ڈبلیو ایچ او کی گمراہ کن گائیڈ لائن بھی درست ہے۔ پھر بھی کورونا متاثرین کے درست اعدادوشمار کو جمع کرلیا جائے تو بھی اصل شرح اموات نزلہ زکام سے ہونے والی معمول کی ہلاکتوں کی شرح اموات سے بھی زیادہ نہیں رہ جاتی۔
یہ بات کورونا کی بساط بچھانے والے ”اصل کھلاڑی“ بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے دنیا بھر میں کوروناوائرس کی اصل تباہ کاریوں پر انحصار نہیں کیا بلکہ جعلی طور ڈبلیو ایچ او اور مراد علی شاہ قسم کی حکومتوں کے غلط تصورات کو بڑھاوا دینے والے محرکات پر نگاہ رکھی، جس سے مجموعی طور پر عوامی ہیجان پیدا کرکے درست حقائق پر کسی کی توجہ نہیں جانے دی۔ ابھی تک یہ کھیل کامیاب ہے۔ مگر دنیا بھر میں اب اس کے خلاف ایک احتجاجی ردِ عمل پیدا ہورہا ہے۔ ہسپانوی لیڈی کو چھپانے اور کورونا کو عریاں کرنے والے یہ ذہن جن مقاصد کو پورا کرنا چاہ رہے ہیں اس کی راہ میں یہی ردِ عمل رکاؤٹ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔