وجود

... loading ...

وجود

ایک طویل اور صبر آزما اعصابی جنگ

بدھ 22 اپریل 2020 ایک طویل اور صبر آزما اعصابی جنگ

نرمی اور فریب ایک ساتھ ہوں تو تاریخ بہت سے نئے قصے سناتی ہے۔انسانی جانوں کا نقصان ہمیشہ نئی تاریخ مرتب کرتا ہیاور کہیں کہیں جغرافیہ بھی بدل جاتا ہے۔سب سے زیادہ انسانی جانیں جنگوں کی نظر ہوئیں اور ان جنگوں نے جغرافیہ بھی تبدیل کرکے رکھ دیا۔بہت سے ملک صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور بہت سی قومیں اپنا وجود کھو بیٹھی۔لیکن اب جو ذہن و دل کی جنگ ہے۔ اس میں خوف زیادہ ہے۔موت کا خوف،جنگ میں انسانوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شجاعت اور بہادری کی انگنت داستانیں رقم کی ہیں۔ شجاعت کے یہ کارنامے انسان کی اپنی قوم ملک اور خاندان سے محبت کااظہار ہیں۔لیکن موجودہ حالات نے انسان کو اس محبت کی ایک ایسی سزا دی ہے۔ جس نے اسے بزدل بنادیا۔وہ اپنے نظریات اور اعتقاد پر مصلحت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسے اپنی جان سے زیادہ اس کے آس پاس اور اس کے پیاروں کی زندگی کا خوف دلایا گیا ہے۔اس خوف نے بہت سے مرتے ہوئے لوگوں کو اپنے پیاروں سے اس وقت جدا اور تنہا کردیا جب انھیں اس کی زیادہ ضرورت تھی۔
ابھی تک نہ حکومت ایک پیج پر ہے، اور نہ ہی کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب ہوا ہے، جس سے پوری قوم یک جا ہو کر ایک سمت ہوکر اس وبا کا مقابلہ کرے۔ ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہا ہے کہ کورونا کی ویکسین بننے میں ڈیڑھ سال لگ سکتا ھے۔عالمی ادارے بھی ابھی اس بارے میں کوئی حتمی رائے کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ،،لوگوں سے زبردستی لاک ڈاؤن نہیں کرا سکتے،، تقریبا ایک ماہ پہلے جب سندھ نے اس بارے میں پہل کی تھی تو اندازہ تھا کہ دو تین ہفتے بعد صورت حال معمول پر آجائے گی۔ لیکن نہ تو پہلے سے اس بارے میں کوئی تیاری تھی اور نہ ہی لوگوں کو اس کی شدت کا اندازہ تھا۔ ہمارے لوگ یوں بھی سمندری طوفان کی آمد کا سن کر بچاؤ کرنے کے بجائے، سمندر کا رخ کرتے ہیں کہ طوفان کیسے آتا ہے، یہی حال کورونا کے بارے میں ہے، لوگ کورونا کو ڈھونڈ رہے ہیں اور اسے ہر جگہ گلے لگانے کو بے تاب ہیں۔ ایسے میں ہر طرح کے حفاظتی اقدامات لاک ڈاؤن کے نام پر مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ عوام اور انتظامیہ دونوں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اب اصولی طور پر عوام گھروں سے اس وقت باہر نکل سکتے ہیں جب باہر کورونا کا ایک مریض بھی نہ ھو یا اس کی ویکسین ایجاد نہیں ہو جاتی۔ کیوں کہ اس وبا کو پھیلانے کے لیے ایک مریض بھی کافی ہوتا ہے۔ دوسری طرف سندھ گورنمنٹ نے جو بھی سخت لاک ڈاؤن کیا وہ صرف سندھ کے شہری علاقوں، شہرو کے تاجروں اور فیکٹریوں تک محدود رہا۔ بازاروں، بڑے بڑے اسٹورز اور امدادی رقوم کی وصولی کے لیے وہی ہجوم باقی رہا۔ پولیس نے اس صورت ھال کو بھی اپنی کمائی کا ذریعہ بنایا۔ بہت سے تاجروں اور کارخانہ داروں نے ملازمین کو ملازمت سے فارغ بھی کر دیا ہے۔ سندھ حکومت طبی سہولیات کی فراہمی، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل کو حفاظتی سامان کی فراہمی میں بھی ناکام رہی یا سرے سے اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔ ٹیسٹوں کی رفتارسست اور ناکافی ہے۔ سندھ حکومت اس بار بھی شفافیت دکھانے میں ناکام رہی، لٹیروں نے اس وبا کو دھندہ بنا لیا ہے۔ اجناس آٹا، چینی ، ماسک گلوز، سینیٹائیزر، اینٹی سیپٹک فروٹ سبزی دودھ اسی طرح مہنگی فروخت کی جارہی ہیں۔ تین دن بعد رمضان بھی شروع ہونے والے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی معیشت شدید خطرے میں ہے، اس لیے لوگوں نے جزوی طور پر دکانیں کھولنے اور کام پر واپس جانا بھی شروع کردیا ہے۔
معاشرے میں نفساتی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ کورونا نے انسانوں کو اندر سے توڑ پھوڑ دیا ہے۔ لوگ اس خوف میں صبح کا آغاز کرتے ہیں کہ جانے آج کا دن کیسے گزرے گا۔ وبائی بیماری کیا گل کھلائے گی۔ اور رات کو اس امید کے ساتھ سوتے ہیں کہ صبح اٹھیں گے تو دنیا سے اس وبا کا خاتمہ ہوجائے گا۔دنیا کے حقائق اور زندگی کے حوصلہ بخش معمولات سے ہم دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس صورت حال پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ حالات چند ہفتوں اور مہینوں میں نہیں تبدیل ہوں گے۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما اعصابی جنگ ہے۔جسے ہر فرد کو اپنے اپنے انداز اور اپنے اپنے حالات میں لڑنی ہے۔اسے ختم ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں اور چند ماہ بھی۔ اس کے حساب کتاب میں روز وشب نہیں گھلانے ہیں۔ جینے والوں کو حوصلہ درکار ہے۔وقت کو گزارنے کا بیتانے کا حوصلہ۔اس وقت کا کوئی مثبت استمال کریں۔سب سے زیادہ حوصلہ تو اپنے رب کی حمد ثنا اور استغفار میں ہے۔اٹھتے بیٹھتے ذکر کریں۔ شکر کریں ان نعمتوں کا جو آپ کے آس پاس ہیں۔ یہی آپ کو جینے اور اس مشکل وقت کو گزارنے کا عزم وحوصلہ دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر