... loading ...
دنیا میں کورونا وائرس کے حوالے سے فریب زدہ ماحول طاری ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عالم تما م حلقہ ٔ دام ہے۔ حقیقت افسانے کے فسوں میں کہیں گم ہے۔ جب ملک کے اندر جاری دھوکے کے اعدادوشمار پر سوال اُٹھتے ہیں تو مغرب سے مرعوب ذہن سوال اُٹھاتے ہیں کہ پھر دنیا بھر میں یہ کیا ہورہا ہے؟ سندھ میں شاہ سرکار کے اقدامات کا جائزہ لینے سے پہلے اسی لیے یہ ضروری خیال کیا گیا کہ دنیا کی ایک حقیقی تصویر سامنے لائی جائے تاکہ دھوکے کو دھوکا کہنا آسان ہو۔ کورونا وائرس کے حوالے سے جس کھیل کو عالمی سطح پر کھیلنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اس کی تہہ داریوں کی تفہیم آسان ہو۔
کورونا وائرس کے حوالے سے لاک ڈاؤن کی پالیسی کو دنیا بھر میں جن افراد نے آمرانہ انداز سے نافذ کرنے کی کوشش کی، اُن میں مائیکروسوفٹ کے بانی بل گیٹس، ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم، امریکا کے ڈاکٹر فوکی اور بڑے فارما ادارے شامل ہیں۔ بل گیٹس وائرس کی وبا کی بساط بچھانے والے ہیں۔ مگر ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم کے کردار کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے ٹیڈروس اذانوم ایک مائیکرو بائیو لوجسٹ ہیں۔ ایک نان فزیشن اور ایک افریقی کے طور پر وہ پہلے شخص ہیں جو اس منصب پر 2017ء سے فائز ہیں۔ یاد رہے کہ افریقا میں بل گیٹس کے مختلف منصوبے جاری ہیں،اور وہی ڈبلیو ایچ او کے مختلف منصوبوں کے سب سے بڑے مالیاتی سرپرست کے طور پر اس ادارے پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ڈبلیو ایچ او کے طور پر ٹیڈوس اذانوم کا انتخاب بل گیٹس کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس تعلق کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ دیکھیں کہ تعلقات کی کیمسٹری مخصوص مفادات کے جالے کیسے بُنتی ہے؟ اعدادوشمار اور جعلی خبروں کے ساتھ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن سے کورونا وائرس کو دل دہلا دینے والے مرض کے طور پر دنیا میں تسلیم کرا لیا گیا۔ اس لیے یہ بات کوئی سننے کو بھی اب تیار دکھائی نہیں دیتا کہ کورونا وائرس کو عالمی وبا یا ”pandemic“ قرار دینے میں متعلقہ ضرورتوں اور طبی تقاضوں کو نہ تو پورا کیا گیا اور نہ ہی حقیقی اعدادوشمار اس دعوے کی حمایت میں تھے۔
سب سے پہلے نکتے کے طور پر کورونا کے وبا قرار پانے کے حالات کو لیں۔ اگرچہ دسمبر میں کورنا وائرس کے معاملات سامنے آنا شروع ہوگئے تھے، مگر چین نے 7/ جنوری کو سرکاری طور پر کورونا کی نشاندہی کی۔ صرف دو ہفتوں کے بعد ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم پر 21 تا 24/ جنوری کے اجلاس میں بل گیٹس کی مالیاتی کفالت میں چلنے والے فارما اکٹھ یعنی ”سی ای پی آئی“ نے کورونا وائرس کے خلاف ایک ”این سی او ویکسین2019“ بنائے جانے کی خوشخبری سنا دی۔بظاہر کوئی مسئلہ نہیں تھا، مرض واضح تھااور ویکسین بنانے والے خوشخبری سنا چکے تھے۔ مگر بحران کو بحرانوں کے ذریعے حل کرنے اور نئے بحرانوں سے نئے اہداف طے کرنے کی ”میکیاولین“ ذہنیت پوری طرح بروئے کار آئی۔ ویکسین کو لانے کا فیصلہ التواء میں ڈال دیا گیا۔ یہاں صاف محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں کورونا کے پھیلاؤ کوایک فلم کی طرح چلنے دیا گیا۔ ڈبلیو ایچ او کا مشکوک کردار یہاں کھل کر سامنے آتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم نے 30/ جنوری کو دنیا بھر میں ہنگامی حالات(ایمرجنسی) کا اعلان کردیا۔تب تک دنیا بھر میں چین کے علاوہ کورونا کے تصدیق شدہ کیسیز صرف 150 تھے، جن میں امریکا کے چھ کیس بھی شامل تھے۔ دنیا کے موجودہ حالات کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت نے مستقبل کے حالات کا درست اندازا لگاتے ہوئے چین کے علاوہ صرف 150 کیسز پر ہنگامی حالات کا اعلان کرکے ایک زبردست کردار ادا کیا۔ مگر یہاں منافقت بالکل عیاں ہے۔ یہ سارا بندوبست کورونا کو روکنے کے لیے نہیں بلکہ اس کا خوف پھیلانے کے لیے تھا۔ اس مسئلے کی یہاں مناسب تفہیم ضروری ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم عملاً کورونا کے فروغ میں حصہ لے رہے تھے۔ کورونا کے حوالے سے دنیا بھر میں ہنگامی حالات کے پراسرار اعلان سے صرف دو روز قبل ٹیڈروس اذانوم چین کے صدر سے بیجنگ میں ملاقات کرتے ہیں۔ وہ چینی صدر سے ووہان اور اس کے اطراف میں کورونا نوول کے کیسز میں ڈرامائی اضافے پر گفتگو رکرتے ہیں۔ اب دیکھیے باریک کام شروع ہوتا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم ایک طرف چین کے نوول کورونا سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کو سراہتے ہیں جن میں پہلے کبھی نہ دیکھا جانے والا جدید تاریخ میں اُٹھایا جانے والا یہ بالکل نیا، متنازع اور انوکھا اقدام بھی شامل ہے جس میں ایک پوری آبادی کو کورنٹائن کردیا گیا۔ دوسری طرف وہ اُن ممالک پر پرُجوش تنقید کرتے ہیں جو چین سے اس عجیب وغریب بیماری کے خوف سے اپنی فضائی پروازوں کو محدود کررہے تھے۔ یہ دونوں باتیں ایک ہی اعلامیے میں کیسی کہی جاسکتی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک اوسط درجے کا ذہن بھی کافی سے زیادہ ہوگا کہ یاتو یہ دونوں ہی اقدامات درست تھے یا دونوں ہی غلط تھے۔ اگر چین کورونا کے باعث ایک پوری آبادی کو کورنٹائن کرتے ہوئے کچھ درست کررہا تھا تو پھر وہاں فضائی پروازوں کو روکنے کا فیصلہ غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ اور اگرچین کے لیے فضائی پروازوں کو روکنے کا فیصلہ غلط ہے تو پھر چین کا صحت عامہ کے شعبے میں جدید تاریخ میں اُٹھایا جانے والا یہ انوکھا اقدام درست کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ مگر ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم یہی کہہ رہے ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو بظاہر متضاد نظر آنے والے یہ دونوں اقدامات درحقیقت اس پورے کھیل کے سفاک شاطروں کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ضروری تھے۔ چنانچہ دونوں متنازع اقدامات کی گنجائش پیدا کردی گئی۔ چین نے کورونا وائرس کی سب سے پہلے ”میزبانی“ کی۔ایک بند اور مقفل سماج رکھنے والے چین میں کسی بھی نوع کا اقدام سیاسی سطح پر اُٹھانا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ چین میں کورونا وائرس کو سب سے پہلے پھیلانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ ایک بند معاشرے کے سخت گیر اقدامات کو ”کامیاب ماڈل“ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے جہاں بنیادی حقوق کے شور اور شعور میں یہ ابتدائی طور پر ممکن نہ ہوسکتا تھا۔
ڈبلیو ایچ اوکے ڈائریکٹر جنرل نے عملاً کیا کھیل کھیلا تھا، تفصیلات جان لیں۔ چین پر یہ الزام ہے کہ اُس نے کورونا متاثرین کے اعدادوشمار درست طور پر دنیا کے سامنے نہیں آنے دیے اور اپنے اقدامات کو ایک کامیاب ماڈل کے طور پر دکھانے کے لیے ایسے اعداد وشمار پیش کیے جو درست نہیں تھے۔ اس کے بالکل برعکس ایک حقیقت تو یہ ہے کہ چین نے سرکاری طور پر 7/ جنوری کو نوول کورونا کے مریضوں کی سرکاری طور پر نشاندہی کی۔ جسے بعد میں کووڈ۔19 قرار دیا جانے لگا۔ عملاً چین میں پہلے تین کیس 27/ دسمبر 2019ء کو سامنے آئے تھے۔ ان کیسز کو سارس کی نئی قسم کے طور پر شناخت کیا گیا تھا۔ اب سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ چین میں نئے قمری سال کی سرگرمیوں اور بہار میلے میں شرکت کے لیے کم وبیش چار سو ملین شہری اپنے خاندانوں کو ملنے اور مختلف تقریبات میں شرکت کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر نقل وحرکت کرتے ہیں۔ اس سال بھی یہ نقل وحرکت 17/جنوری سے 8/فروری تک جاری رہی۔ووہان انتظامیہ نے ڈرامائی طور پر نئے سال کے فیسٹول کا آغاز ہونے سے صرف دو روز قبل 23/جنوری کو شب دو بجے گیارہ ملین آبادی کے پورے شہر کو صبح دس بجے سے لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کیا۔ تب تک لاکھوں لوگ شہر سے باہر نکل چکے تھے اور کافی لوگ اعلان اور نفاذ کے عرصے میں موجود وقفے میں نکلنے میں کامیاب رہے۔ اب چین کوئی ایسا ملک نہیں جہاں ”آزادی“ کو اس طرح استعمال کیا جاسکتا ہو۔ مگر یہ سب کچھ ہونے دیا جارہا تھا۔ اب آپ ڈبلیو ایچ او کے 30/ جنوری کی تاریخ کو دھیان میں رکھیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ کورونا وبا کے پھیلاؤ کے لیے سب کچھ جانتے بوجھتے ہونے دیا گیا۔
ایک سوال یہاں جذب کرتے ہیں۔ کیا چین سے پہلے کسی مغربی ملک میں کورونا وائر س کا تجربہ ہوتا تو وہاں کسی بھی سطح پر پوری کی پوری آبادی یا ملک کو لاک ڈاؤن کرنے کا کوئی خیال بھی زیرِ بحث آسکتا تھا۔یہ چین میں ہی ہو سکتا تھا جہاں لاک ڈاؤن کو ایک کامیاب ماڈل کے طو رپر آزمانے کے بعد دنیا کے سامنے لایا گیا۔ امریکی صد رڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں نوول کورونا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر ڈبلیو ایچ او پر جو الزامات عائد کررہے ہیں، صرف اس ایک پہلو سے یہ موقف درست ہے۔ کیونکہ ڈبلیو ایچ او نوول کورونا کو روک نہیں رہا تھا۔بلکہ اپنے اقدامات سے اس کا خوف بڑھانے کے اقدامات میں شریک تھا اور یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں تھا۔ مغرب کے مرکزی ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کے بالکل برعکس یہ یورپ کے ہی متوازی ذرائع ابلاغ ہیں جو یہ راز منکشف کررہے ہیں کہ ڈبلیو ایچ او یہ سب کچھ”اوپر کے احکامات“ پر کررہا تھا۔ اگر آپ نہیں جانتے تو جان لیں کہ اس ”اوپر“ سے مراد امریکا کی نہایت”ڈیپ اسٹیٹ“ہے جو ایک مخصوص اشرافیہ ہے۔ یہی اشرافیہ دراصل ایک ”گڈ کلب“ کی شناخت بھی رکھتا ہے۔ اس میں بل گیٹس کا کردار سب سے نمایاں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔