... loading ...
امریکی مصنف داشین اسٹوکس (DaShanne Stokes) کا فقرہ کتنا حسب حال ہے:
“Facts are threatening to those invested in fraud”.
(دھوکا دہی میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے حقائق خطرہ ہوتے ہیں)
لاک ڈاؤن کا دھوکا سندھ حکومت تک محدود نہیں یہ ایک عالمگیر رجحان ہے۔ مگر سندھ حکومت ”بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ“ کی تصویر کشی کررہی ہے۔ اس کا وہ ایک سیاسی فائدہ بھی اُٹھا رہی ہے۔پاکستان میں جاری یہ کھیل کس قماش کا ہے، اسے بعد میں زیر بحث لائیں گے۔ درحقیقت دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہی پاکستان میں بھی جاری ہے۔ کورونا وائرس پر دنیا کا ردِ عمل دھوکا دہی کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ جس میں دنیا کے امیر ترین لوگوں کی بے حساب سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ آئیے اس منافع بخش بساط کے مہرے پہچانتے ہیں۔
امریکی ریاست مینیسوٹا کے سینیٹر اسکاٹ جینسن نے ایک نیوز شو میں یہ انکشاف کیا کہ”مینیسوٹامحکمہ صحت کی طرف سے ڈاکٹرز کو یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ کووڈ۔19 کو موت کی ایک وجہ کے طور پر رپورٹ کیا جائے خواہ مریضوں کے اس حوالے سے کوئی ٹیسٹ نہ بھی ہوئے ہوں“۔واضح رہے کہ سینیٹر جینسن خود بھی ایک فعال ڈاکٹر ہیں، اُنہوں نے مزید کہا: میں نے اپنے پینتیس سالہ کیریئر میں اس سے قبل موت کے سرٹیفکیٹ پُر کرنے کے لیے کبھی ایسی خصوصی ہدایات نہیں لیں“۔مینیسوٹا میں ایک عمومی پالیسی کے تحت نمونیا یا نزلے کے ساتھ بخار کو کووڈ۔19 کے کیس کے طور پر لیا جارہا ہے۔ یہ اس امریکی ریاست کی کوئی الگ تھلگ پالیسی نہیں بلکہ ڈاکٹر اسکاٹ جینسن کے مطابق یہ امریکا کے مرکزی ادارے سی ڈی سی (Centers for Disease Control and Prevention)کے مطابق ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ پالیسی امریکا کی مختلف ریاستوں میں رائج ہے بلکہ یہی پالیسی اٹلی، جرمنی، برطانیا اور آسٹریا کی حکومتوں نے بھی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ دنیا بھر میں طبی شعبہ اپنے معمول کے اُصولوں پر کام نہیں کررہا۔ یہاں دو باتیں نہایت اہم ہیں۔
اولاً: موت کا سرٹیفکیٹ ڈاکٹروں کی قیاس آرائیوں یا احتمالات کے اظہار کے لیے نہیں ہوتا۔ اِسے ٹھوس طبی وجوہات درکار ہوتی ہیں۔ پھر یہ مرنے والے کے لیے زندہ رہ جانے والوں کی آخری ایمانداری ہوتی ہے۔فراڈ پر سرمایہ کاری کرنے والے شقی القلب لوگوں نے موت کو بھی فراڈ کا حصہ بنادیا ہے۔ سندھ میں اس فراڈ کی تہہ داریاں کتنی خطرناک ظاہر ہورہی ہیں، واقعات کے ساتھ انہیں بعد میں موضوع بنائیں گے۔
ثانیاً: دنیا بھر میں قومی اور مقامی حکومتیں کووڈ۔ 19 کے اعدادوشمار کو فروغ دینے کے لیے اپنے معمول کے اُصولوں سے کیوں ہٹ رہی ہیں؟یہ سوال کوروناوائرس کی پھیلی ہوئی سازشوں سے خطرناک طور پر جڑا ہوا ہے۔ اس سے ہمیں یہ اندازا بھی ہوجاتا ہے کہ ہم پر حکومت کرنے والے لوگ کس گھٹیا طرز کی سیاست کرنے کو بہیمانہ طور پر ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اسکاٹ جینسن نے کورونا وائرس کے حوالے سے حکومتوں کی گائیڈ لائن پر صرف ایک لفظ میں تبصرہ کیا: مضحکہ خیز (ridiculous)۔ یہاں تھوڑی دیر رُک کر مختلف حوالوں سے انتہائی مشکوک ڈاکٹر(؟) ظفر مرزا کے اس بیان پر زیرِ لب مسکرا لیجیے کہ وہ کورونا وائرس کے حوالے سے رمضان المبارک کی گائیڈ لائن تیار کررہے ہیں۔
سینیٹر ڈاکٹر جینسن صرف یہاں تک رہتے تویہ زیادہ چونکا دینے والی باتیں نہ ہوتیں۔ کیونکہ دنیا بھر میں کوروناوائرس کے ردِ عمل میں طبی دنیا کے طرزِ عمل کو ایک حقارت سے دیکھا جارہا ہے۔ یہاں کچھ چھچھوڑے گویے انہیں فرنٹ لائن پر لڑنے والے سپاہیوں کی طرح پیش کررہے ہیں۔ان کے حق میں گانے بنارہے ہیں۔ مگر عملاً دنیا کے بڑے بڑے ایماندار ڈاکٹرز اسپتالوں میں کارگزار معا لجین کے کردار پر سوالات اُٹھا رہے ہیں اور اُنہیں کورونا کے حوالے سے پھیلائے گئے خوف کا ذمہ دار قرار دہے رہیں۔ ڈاکٹر جینسن بھی بارِ دگر یہی بات کہہ رہے ہیں۔ اُنہوں نے فوکس نیوز پر یہ انکشاف کرکے ہلچل مچادی کہ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن اس امر کی حوصلہ افزائی کررہی ہے کہ مختلف اموات کو کورونا وائرس کے اعدادوشمار کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس حوالے سے جینسن نے ایک سات صفحات پر مبنی دستاویز کا انکشاف کیا جو یہ بتاتی ہے کہ ایک مرنے والے کے لیے کووڈ۔19 کو وجہ موت قرار دیتے ہوئے موت کا سرٹیفکیٹ کیسے پُر کیا جائے، چاہے اُس کی کورونا وائرس سے موت کی تشخیص پہلے نہ بھی ہوئی ہو، اور اس کے مرنے کی وجہ کا تعین کسی لیب ٹیسٹ سے نہ بھی کیا گیا ہو۔ یہ آپ کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے مگر ان کے لیے ایک منافع بخش کھیل ہے۔ جب آپ کسی بیماری کو ”وبا“ کہتے ہیں۔ پھر اس پر ایک خوف کی فضا دنیا بھر میں طاری کرلیتے ہیں، دنیا کی معیشت کو اس سے منسلک کردیتے ہیں تو سب کچھ اس کے اردگرد گھومنے لگتا ہے۔ پھر فارما مافیا اور اُن کے منافع سے جڑے ”مسیحا“ کی رالیں کیوں نہیں ٹپکیں گی؟ ابھی انڈس، آغاخان اور ساؤتھ سٹی اسپتالوں کی باتیں چھوڑئیے۔ امریکا میں دیکھیں کیا ہورہا ہے؟امریکا میں کسی اسپتال میں کووڈ۔ 19 یعنی کورونا وائرس کے کسی مریض کو داخل کرتے ہوئے ہی تیرہ ہزار ڈالر دیے جاتے ہیں، اگر وہی مریض وینٹی لیٹر پر چلا جائے تو پھر یہ رقم تین گنا بڑھ کر 39 ہزار ڈالر ہوجاتی ہے۔ آدمی کی ریڑھ کی ہڈی سنسنا اُٹھتی ہے۔ یہ کس قسم کا کاروبار جاری ہے۔
کیا ہم کورونا وائرس کے مریضوں میں اضافے کے بنیادی نکتے کو سمجھنے کے قابل ہوگئے؟ ابھی ہم اس کھیل کے پہلے مرحلے میں ہی داخل ہوئے ہیں۔ جو کورونا وائرس کے خوف میں کھیلا جاتا ہے۔ خوف لوگوں پر قابو پانے کا سب سے بُرا مگر آزمودہ طریقہ ہے۔ خوف ایک ایسا آلہ ہے جو لوگوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کوسلب کرلیتا ہے۔ یہ طریقہ جتنا کراچی میں کام کرتا ہے، اتنا ہی مینیسوٹا، روم، برلن، انگلینڈ اور ویانا میں بھی کارآمد ہے۔ جب کسی کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو جائے تو اسے فریب دینا آسان ہوتا ہے۔ کورونا وائرس کا پہلا فریب اس کا ”pandemic“ اعلان تھا۔ اقوام متحدہ کے ادارے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے یہ اعلان انتہائی پراسرار حالات میں کیا جس پر متوازی ذرائع ابلاغ کے دھارے نے الزام لگایا کہ ڈبلیو ایچ او مائیکرو سوفٹ کے بانی اور وائرسوں کی تحقیقات میں سب سے زیادہ پیسے لگانے والے بل گیٹس کے زیرِ اثرکام کررہا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ امریکی صدر ڈونڈ ٹرمپ نے اعلانیہ ڈبلیو ایچ او پر عدم اعتماد ظاہر کیا۔ ڈبلیو ایچ او بل گیٹس کی مالیاتی شراکت سے دنیا میں بیشتر منصوبوں پر کام کرتا ہے۔ خوف کے اس کھیل میں اس ادارے نے مرکزی کردار ادا کیاہے۔ کورونا وائرس نے یہ نکتہ سمجھنے کے لیے زیادہ روشن کردیا ہے کہ دراصل ڈبلیو ایچ او فریب کا کتنا بڑا منچ ہے۔ اس بحث کو مزید آگے بڑھائیں گے، یہاں انگلستان کے سترہویں صدی کے عظیم شاعر جان ڈرائیڈن کو یادداشت میں اجاگر کرتے ہیں:
”میں جب زندگی پر غور کرتا ہوں تو سب کچھ ایک دھوکا لگتاہے۔ امید کے ساتھ بے وقوف بننا فریب کی حمایت ہے“۔
کیا شاعر نے اس مفہوم کو پوری طرح باندھ لیا ہے:
دنیا ہمیں فریب پہ دیتی رہی فریب
ہم دیکھتے رہے نگہ اعتبار سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔