... loading ...
عالمی وباء کورونا وائرس کے نتیجے میں دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں جاری”گریٹ لاک ڈاؤن“کی وجہ سے ترقی پزیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں جبکہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے اس ضمن میں اگلے دو برسوں کے دوران عالمی سطح پر”مجموعی پیداوار“ میں 9کھرب ڈالر تک کمی ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔بلاشبہ کورونا وائرس سے جہاں عالمی معیشت خطرے میں پڑگئی ہے وہاں عالمی نظام (ورلڈ آرڈر)کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے اس طرح دنیا کو ایک بار پھر خود کوکسی نئے عالمی نظام کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار کرنا ہوگا لیکن اس بار نیا عالمی نظام مذہبی اعتبار سے ہوگا یا پھر اس بار بھی معاشی بنیادوں پر ہی اس کے خدو خال تراشے جائینگے بہر حال اس کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہوجائے گا۔ چین سے پھیلنے والے”کورونا وائرس“ سے اب تک دنیا بھر میں 21لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں جبکہ ایک لاکھ 40ہزار سے زائد افراد موت کی آغوش میں جاچکے ہیں۔کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک میں چین، ایران،امریکا،برطانیا، اسپین،اٹلی اور جرمنی جیسے ممالک سر فہرست ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے 180ممالک میں کورونا وائرس نے رسائی حاصل کرلی ہے۔جیسا کہ اوپری سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن کا نفاذ ہے جس کی وجہ سے ان ممالک میں ہر قسم کی کاروباری سرگرمیاں معطل ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے ترقی پزیر ممالک کی معیشتوں پرسنگیں خطرات منڈلانے لگ گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کو وقتی ریلیف دینے کے لیے دنیا کے معاشی اعتبار سے مضبوط 20ممالک کے گروپ (جی۔20)نے پاکستان سمیت دیگر 76 ترقی پزیر ممالک کے 40ارب ڈالر کے قرضے ایک سال کے لیے منجمد کردیے ہیں جن میں پاکستان کے ذمہ آئی ایم ایف،عالمی بینک،ایشیائی ترقیاتی بینک،اسلامی ترقیاتی بینک اور پیرس کلب کے 12ارب ڈالر کی واجب الادا قرضے شامل ہیں۔جی 20ممالک کی جانب سے منجمد کیے جانے والے قرضوں میں سعودی عرب کا حصہ 20ارب ڈالر کا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی اداروں کی جانب سے ملنے والے اس غیر معمولی ریلیف سے پاکستان سمیت دیگر ترقی پزیر ممالک کے عوام براہ راست مستفید ہوتے ہیں یا نہیں کیونکہ عالمی اداروں کا یہ قدم خالصتاً انسانی ہمددری کی بنیادوں پر اٹھایا گیا ہے۔بہر کیف آئی ایم ایف کی جانب سے گریٹ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں امریکا اور چین سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مضبوط معیشتوں کی ممکنہ تنزلی کا خدشہ ظاہر کردیا گیاہے اس ضمن میں آئی ایم ایف کی چیف اکناماسٹ گیتا گوپی ناتھ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جاری اس بحران کے نتیجے میں جہاں رواں برس عالمی معیشت 3فیصد تک سکڑ سکتی ہے وہاں اس بحران کے نتیجے میں اگلے دو بروسوں میں عالمی پیداوار میں 9کھرب ڈالر تک کی کمی بھی ہوسکتی ہے یہی نہیں بلکہ 2021میں اگر کورونا وائرس کی نئی لہر آئی تو اس کے نتیجے میں عالمی جی ڈی پی مذید 8فیصد پوائنٹس کے ساتھ نیچے آسکتی ہے جو اس امر کی غمازی ہوگا کہ سرمایہ کار بعض ممالک کو قرض دینے کے لیے تیار نہیں ہونگے جس کی وجہ سے شرح سود میں بھی اضافہ ہوگا۔
آئی ایم ایف کے مطابق 1930کے”گریٹ ڈپریشن“ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ حالیہ بحران کی وجہ سے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر دونوں قسم کی ہی معیشتوں کو ”کساد بازاری“کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس ضمن میں رواں برس امریکا کی معاشی ترقی میں 5.9فیصد کمی آسکتی ہے جو کہ 1941کے بعد امریکا کی معاشی ترقی میں سب سے بڑی سالانہ تنزلی ہوگی جبکہ اس کے نتیجے میں امریکا میں بے روزگاری کی شرح 10.4فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔دوسری جانب چین ہے جہاں حالیہ بحران کے نتیجے میں 1976کے بعد پہلی مرتبہ معاشی ترقی کی رفتار میں واضح کمی دیکھی جائے گی۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گریٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں امریکا اور چین جیسی مضبوط معیشتیں ہلنے جارہی ہیں وہاں پاکستان سمیت دیگر ترقی پزیر ممالک کی کمزور معیشتوں کا کیا حال ہوگا جبکہ لاک ڈاؤن کا یہ عمل ابھی تک جاری ہے اور ناجانے کب تک جاری رہے گا۔اس وقت پاکستان اور برطانیہ میں میں لاک ڈاؤن کو بالترتیب دو ہفتوں اور تین ہفتوں تک کے لیے بڑھا دیا گیاہے جبکہ نیویارک میں لاک ڈاؤن میں 15مئی تک کے لیے توسیع کردی گئی ہے۔جہاں تک کورونا وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے لیے ویکسین کی تیاری کا معاملہ ہے تو یہ عمل ابھی تحقیقی مرحلے میں ہے جبکہ ویکسین کی تیاری کا عمل شروع ہونے کے بعد اس کے حتمی ہونے تک تقریباً ڈیڑھ برس سے زائد کا عرصہ درکار ہوگا توپھر ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کا علاج دریافت ہونے تک کیا جائے۔اس سوال کے جواب میں ”سیاسی تقاضا“ تو یہ ہے کہ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے جس کے لیے احتیاطی تدابیر کے طور پر لاک ڈاؤن کی ترکیب لڑائی گئی ہے جس میں انسانیت بالخصوص دنیا بھر کے غریبوں کوبھوک کے باعث ”مرنے“جیسے سنگین خدشات کا سامنا ہے جیسا کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے نے ممکنہ کساد بازاری کاخدشہ ظاہر کیا ہے۔مذکورہ سوال کا ”روحانی تقاضا“ یہ ہے کہ ایسے میں رب العالمین سے رجوع کیا جائے،اپنی کوتائیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کی جائے اور آئندہ ایسے کسی عمل سے پناہ مانگی جائے جو اللہ اور اس کے بندوں کے لیے غیر مناسب ہو یعنی حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو ملحوظ خیال رکھا جائے جو سماجی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی اعتبار سے بھی انسانیت کے لیے فائدے مند ہوں۔ یعنی دنیا میں ایسا سیاسی نظام ہونا چاہئے جس میں انسانیت کی تکریم کے ساتھ ساتھ مساوی طور پر معاشی حقوق کی ضمانت پائی جاتی ہو جبکہ نئے عالمی نظام کی بنیادی شرائط میں ”سود ی معاشی نظام“ سے اظہار بیزاری بنیادی شرط ہونی چاہئے کیونکہ موجودہ عالمی نظام میں سودی معیشت کو نمایاں حیثیت حاصل ہے اور یہی سودی معاشی نظام دنیا میں معاشی طاقت کے توازن میں بگاڑ کا سبب ہے۔
اس ضمن میں ایک مغربی مصنف ڈاکٹر جان کولیمن کی کتاب ”کونسپیریٹر ہیرار“کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جس میں ایک ایسی عالمی حکومت یا عالمی نظام کا خاکہ پیش کیا گیا تھا جو 1922میں یہودی بینکاروں کی جانب سے غیر محسوس انداز میں متعارف کیے گئے ”نظام“سے مماثلت رکھتا ہے جبکہ اس نظام میں انسانی ذہن پر قابو پانے، جنگوں، ادویات اور قحط کے ذریعے آبادی کنٹرول کرنے اورجنسی آزادی سے لیکر خواتین کی پُرفریب تذلیل تک کے کار ہائے نمایاں ہیں،الغرض اس نظام یا سیاسی مذہب کے ذریعے پوری دنیا کی حکومتیں چند غیر منتخب موروثی افراد کے ہاتھوں دینے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور 1999میں اس حوالے سے دنیا میں بڑی تیزی تبدیلی دیکھنے میں آئی جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے دنیا کے وسائل اور دولت پر اجارہ داری قائم کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ بہر کیف دنیا کو مذید تباہی سے بچانے اور اسے معاشی و اخلاقی طور پر خوشحال اور امن کا گہوارہ بنانے کے لیے شدت کے ساتھ ایک ایسے عالمی نظام کی تشکیل کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے جو انسانیت کو گمراہی سے نجات دلاسکے اور اسے پائیدار ترقی کی جانب گامزن کرسکے۔ ایسے مثالی عالمی نظام کی تشکیل کے لیے ضروری نہیں کہ پوری انسانیت کسی ایک مذہب کی ماننے والی ہوجائے،دنیا بھر کی قومیں اپنے اپنے مذہب میں رہتے ہوئے ایک ایسا مثالی عالمی نظام تشکیل دے سکتی ہے جس میں مذہبی رواداری، ہم آہنگی اور باہمی ترقی کے عوامل لازمی جُز کے طور پر اپنائے جاسکتے ہیں۔بہر حال اس حالیہ عظیم بحران نے ہر ایک قوم کو ”خالق کائنات“ کی ذات اقدس کوشدت کے ساتھ یاد دلایاہے جبکہ کارپوریٹ عالمی نظام کا نتیجہ بھی دنیا کے سامنے ہے جو عظیم قدرت کے سامنے رسوا ہی نہیں بلکہ بے بس بھی دکھائی دے رہا ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا خالق کائنات کے آخری آسمانی پیغام یعنی”القران الحکیم“کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرے۔ جیسا کہ آخری نبی الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺنے اپنے زمانے میں تبلیغ اسلام کے سلسلے میں عیسائیت سمیت دیگر مذاہب کے ماننے والے حکمرانوں کے لیے جوخطوط لکھوائے تھے ان میں انھیں انکے اپنے دین کی تردید کی بجائے اس آیت کا حوالہ دیکر اپنا پیغام پہنچایا کہ ”ترجمہ:اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں برابر(یکساں) ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں،نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں“((القران الحکیم،سورہ ال عمران،63/3))۔ جبکہ قران حکیم کی ان دو آیات کو عالمی دستور کے طورپر بھی لیاجاسکتا ہے،پہلی آیت ”ترجمہ: دین کے بارے میں کوئی زبر دستی نہیں ((القران الحکیم،سورہ البقرہ 256/2))۔دوسری آیت”ترجمہ:تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے“((القران الحکیم، سورہ الکافرون،6/109))۔اس حوالے سے شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودیؒ،مولانا ابوالکلام آزادؒاور ڈاکٹر حمید اللہؒجیسے ا عظیم اسکالرز کے ماضی میں لکھے گئے مضامین سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔عالمی وباء کورونا وائرس سے نجات اور انسانیت کی بقاء کے لیے جب عالمی سطح پر ایک ہی طرز کی احتیاطی تدبیر اپنائی جاسکتی ہے تو دنیا کو پُر امن اور خوشحال بنانے کے لیے مثالی عالمی نظام بھی تشکیل دیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔