... loading ...
دوستو،ایک خبر کے مطابق امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے فوراً بعد سونگھنے اور ذائقے کی حِس میں مکمل یا بہت حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ انٹرنیشنل جرنل فورم آف الرجی اینڈ رائنولوجی میں شائع ایک رپورٹ میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کے ماہرین نے کہا کہ ان دونوں حسوں میں کمی درحقیقت کورونا وائرس کی ابتدائی علامت بھی ہوسکتی ہے۔اس ضمن میں پروفیسر کارول یان نے بتایا کہ اب بھی بخار کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی پہلی وجہ ہے لیکن تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ ذائقہ کھوجاتا ہے اور خوشبو یا بدبو کا احساس ختم ہوتا جاتا ہے جسے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی پہلی علامات میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ تحقیق سے عیاں ہے کہ اگر اچانک آپ میں سونگھنے اور چکھنے کی حس ختم ہوجائے تو اس بات کا دس گنا امکان ہے کہ اس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ کووِڈ 19 انفیکشن ہوسکتا ہے۔ اسی بنا پر سونگھنے اور چکھنے کی حس پر بطورِ خاص نظر رکھی جائے۔ خیال ہے کہ انفیکشن کے دو سے چار ہفتے بعد ہی سونگھنے اور چکھنے کی حس متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے کے بعد اکثر افراد میں سونگھنے اور چکھنے میں بہتری محسوس ہونے لگتی ہے لیکن بعض افراد نے بتایا ہے کہ اب تک ان کی دونوں حسیات بہتر نہیں ہوئی ہیں۔۔
اس خبر کو پڑھ کر ہم دہل گئے۔۔کیونکہ ہمارے اندر بچپن سے ہی سونگھنے اور چکھنے کی حس نہیں۔۔ ہے ناں عجیب و غریب انکشاف؟؟ اگر اس خبر کو سچ مان لیا جائے تو اس کا مطلب ہے ہمیں بچپن سے ہی ”کورونا وائرس“ ہے اس حساب سے دیکھا جائے تو پھر کورونا تو سترکے عشرے میں ہی مارکیٹ میں آگیا تھا۔۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اماں نے کہا،چولہے پر ہانڈی ہے،میں واش روم میں کپڑے دھورہی ہوں دیکھنا اگر جلنے کی بوآئے تو چولہا بجھادینا۔۔ آپ یقین کریں، اماں کپڑے دھو کر پورے گھر کی صفائی بھی کرلیتی تھیں، ہانڈی جو جل کا سیاہ ہوچکی ہوتی تھی اسے تبدیل بھی کردیتی تھیں ہمیں پتہ نہیں لگتا تھا کہ ہانڈی جل رہی ہے یا نہیں۔۔چونکہ اس عادت کا اماں کو علم تھا اس لیے انہوں نے ہمیں بالکل کچھ نہیں کہا۔۔بس دوپہر کا کھانا نہیں دیا۔۔فریج میں اکثر کئی روز تک کوئی کھانا پڑا رہ جاتا ہے، گھر کی خواتین اسے سونگھ کر بتادیتی ہیں کہ یہ کھانے کے قابل ہے یا نہیں۔۔ ہمیں بالکل اندازہ نہیں ہوتا، ہم گرم کرکے کھالیتے ہیں، وہ تو جب پیٹ میں جاکر ”لڑ“ جاتا ہے تو لگ پتہ جاتا ہے کہ کوئی غلط چیز کھالی ہے۔۔ لیکن معصومیت دیکھیں کہ ذہن پھر بھی اس طرف نہیں جاتا کہ ہم نے مضر صحت کھانا کھایا ہے، بس یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ایسا کیا غلط کھالیا کہ پیٹ گڑبڑ کررہا ہے۔۔اسی طرح ہمارے سامنے کوئی سالن ہوتو ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم کھا کیا رہے ہیں،بس ہمارا ”مین ٹارگٹ“ پیٹ بھرائی ہوتا ہے۔۔ایک بار ہمارے بہت پرانے اور سینئر صحافی امتیازشاہ کے گھر پہنچے، ان دنوں پبلک اخبارمیں کام کرتے تھے، صبح ہم دونوں کی عدالت میں پیشی تھی، پیشی سے واپسی پر چونکہ امتیاز شاہ کا گھر قریب تھا،پروگرام بنا کے لنچ گھر پرکرتے ہیں، بھابھی نے جلدی سے گرم گرم روٹیاں ڈالیں اور دسترخوان چن دیا۔۔ہم دونوں نے ڈٹ کر کھایا،اینڈ میں بھابھی نے پوچھا، کھانا کیسا بنا تھا؟ ہم نے بیساختہ کہا،بھابھی قیمے کا جواب نہیں تھا،جس پر امتیاز شاہ اور بھابھی خوب ہنسے اور ہنستے ہوئے ہمیں بتایا کہ جسے آپ قیمہ کہہ رہے ہیں وہ چنے کی دال سے بنی ”منگوچیاں“ ہیں۔۔ (یہ بالکل قیمے کی طرح ہوتی ہیں)۔۔
سیانے کہتے ہیں۔۔تین رشتے وقت آنے پر پہچانے جاتے ہیں۔۔اولاد بڑھاپے میں، دوست مصیبت میں اور بیگم لاک ڈاؤن میں۔۔آجکل شوہروں کے پاس پیسے ختم اور بیویوں کے چھپائے ہوئے پیسوں سے گھر چل رہا ہے۔۔ہمارے ایک لکھاری دوست آفتاب عالم جو کہ خیر سے ایک عدد بیگم صاحبہ کے شوہر نامدار بھی ہیں، شوہروں کے لاک ڈاؤن کے حوالے سے احوال کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔۔جس وقت لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا اور مجھے مجبوراً گھر بیٹھنا پڑ گیا توشروع کے پہلے پانچ دن تو وارے نیارے ہوگئے، ایسا لگتا تھا کہ ”مایوں“ بٹھا دیا گیا ہوں، ہر کام مجھ سے پوچھ کر اور میری مرضی کاہورہاتھا۔تینوں وقت کے کھانے پوچھ کے اور پسند کے بنائے جانے لگے۔کبھی پوچھا جاتا تھاکہ ناشتہ میں کیا لیں گے، آملیٹ اسٹیک کے ساتھ بنادوں کیونکہ کل صرف فرائی انڈا لیا تھا۔اچھا دوپہر کو سلاد لنچ سے آدھا گھنٹہ پہلے کھا لیجیے گا۔رات کو پڈنگ یا کیرامل ٹھیک رہے گا ناں۔۔چوتھے دن کے ناشتہ میں فریش جوس اور کارن فلیکس، اور شہد ود ایلمنڈ ٹھیک رہے گا۔دوپہر میں بھی میری پسند کا پلاؤ یا بریانی اور مناسب سا میٹھا کھانے کو ملنے لگا۔۔اس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔۔کبھی سادہ شوربہ تو کبھی سبزی کے ساتھ کوئی سالن۔۔ناشتہ بھی جب اٹھ گئے تو مل گیا،رات کے کھانوں میں بھی اہتمام ذرا کم نظر آنے لگا۔باہر جانے پر تو ویسے ہی پابندی، تمام نمازوں کا گھر پہ ہی اہتمام، ایسا لگا کہ میں ”اعتکاف“ میں بٹھا دیا گیا ہوں۔خیر جیسے تیسے ابتدائی دس دن بھی گزر گئے۔اس کے بعد کھانے بالکل سادہ اور پھیکے ملنے لگے۔دوپہر کا ناغہ شروع کرادیا کہ بیٹھے بیٹھے پیٹ باہر نکلنا شروع ہوگیا ھے اور تو اور بیگم نے شعبان کے نام پر روزے بھی رکھوانے شروع کردیے۔۔کپڑے بھی بغیر استری ملنا شروع ہوگئے ہیں کہ کس نے ملنے آنا ہے یا تم کونسا باہر جا رہے ہو۔ اب اس عمر میں بننے سنورنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کس کو دکھلانا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔پہلا جمعہ گھر پہ ہی پڑھوایا گیا اب تو ایسا لگتا ہے کہ مجھے ”عدت“ میں بٹھا دیا گیا۔۔
شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے بیوی نے کہا۔۔اس بار جانوروں کے ڈاکٹر کو دکھاؤ شاید پھر آپ ٹھیک ہوجائیں۔۔ شوہر نے حیرت سے پوچھا، وہ کیوں؟؟ بیوی کہنے لگی۔۔ روز صبح مرغے کی طرح جلدی اٹھ جاتے ہو، گھوڑے کی طرح بھاگ کر آفس چلے جاتے ہو، گدھے کی طرح دن بھر کام کرتے ہو، بندر کی طرح باس کے اشارے پر ناچتے ہو، گھر آ کر فیملی پر کتے کی طرح بھونکتے ہو، اور پھر بھینسے کی طرح سو جاتے ہو۔ایسے میں انسانوں کا ڈاکٹر کیا خاک تمہیں ٹھیک کرے گا۔۔ویسے یہ بات سوفیصد سچ ہے کہ کچھ لوگوں نے ڈسپرین، پیناڈول اور پونسٹان کمپنی سے باقاعدہ معاہدے کررکھے ہیں کہ بھائی آپ لوگ گولیاں بنائیں سردرد دینا ہمارا کام ہے۔۔ڈاکٹرپرایک اور واقعہ یاد آیا،ہمارے ایک ڈاکٹر دوست نے اپنے ایک بھلکڑ ڈاکٹر دوست کا سچا واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے۔۔ بھلکڑ ڈاکٹر نے آپریشن کے بعد مریض سے اس کی طبیعت کا پوچھا،مریض نے جواب دیا کہ۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سینے میں ایک کی بجائے دو دل دھڑک رہے ہوں۔۔بھلکڑڈاکٹر نے جلدی سے اپنا دایاں ہاتھ دیکھا اور کہا۔۔ اوہو۔ میں سوچ رہا تھا آخر میں اپنی گھڑی کہاں رکھ کر بھول گیا ہوں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات میں آج محسن نقوی کے ایک شعر یوں ہے کہ۔۔جس کے آنگن میں غریبی کا شجر ہومحسن۔۔ ان کی ہربات زمانے کو بری لگتی ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔