... loading ...
کورونا وائرس کے بعد اب آگے کیا ہوگا؟
یہ دنیا کے اکثر لوگوں کے منہ پر مچلتا سوال ہے۔ اندیشوں اور وسوسوں سے بھری دنیا کے اندازے چاروں جانب بکھرے ہوئے ہیں۔ مگر اس کا جواب صرف”صوفیہ“ کے پاس ہے۔آپ سوچیں گے، صوفیہ کون ہے؟
صوفیہ اگلی دنیا کا معاشی منظرنامہ ہے۔ بظاہر سادہ مگر انتہائی پیچیدہ معاملہ۔ یہ ایک انسان نما سماجی روبوٹ ہے۔ ہانگ کانگ کی ایک کمپنی ہینس روبوٹکس نے اِسے تیار کیا ہے۔ صوفیہ کو 14 /فروری 2016 کو فعال کیا گیا اور یہ پہلی بار وسط مارچ 2016 کو امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں ایک فلم وموسیقی کے میلے میں منظرعام پر آئی۔ صوفیہ کا چہرہ باسٹھ انسانی تاثرات کا اظہار کرنے کی مکمل قدرت رکھتا ہے۔ صرف ایک سال بعدجدیدیت کے راستے پر بگٹٹ بھاگتے سعودی عرب کو نامعلوم کیا سوجھی، اُس نے صوفیہ کو شہریت دے دی۔ اور دعویٰ کیا کہ سعودی عرب کسی روبوٹ کو شہریت دینے والا پہلا ملک ہے۔ صوفیہ کے موجد ڈیوڈ ہانسن نے دعویٰ کیا تھا کہ صوفیہ میں مصنوعی ذہانت کوٹ کوٹ کر بھردی گئی ہے۔ یہ دوسرے چہروں کو شناخت بھی کرسکتی ہے۔ سعودی عرب کی ایجادات کانفرنس میں جب صوفیہ سے انٹرویو کرتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ اُسے سعودی شہریت دے دی گئی ہے، تو اس کا ردِ عمل یہ تھا: سعودی عرب کی سلطنت کا شکریہ۔ میں اس اعزاز پر فخر محسوس کررہی ہوں۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے“۔ صوفیہ میں مصنوعی ذہانت کوٹ کوٹ کربھری تھی۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اُسے شہریت دینے کا معاملہ کوئی تاریخی لمحہ نہیں بلکہ خود تاریخ کو بدل ڈالنے کا لمحہ تھا۔یاد رکھیں، حسن عسکری مرحوم نے شیکشپیئر کی”لیڈی میکبتھ“کو”جدید عورت“ کی پرنانی کہا تھا۔ صوفیہ اُسی جدید عورت کاناجائز اسقاط ہے۔
اب ذرا ٹہر کر اس پہلو پر غور کر لیں کہ سعودی عرب صوفیہ کو شہریت دینے میں فیاضی دکھا تا ہے مگر برسوں سے کارگزار پاکستانی، بھارتی، نیپالی اور بنگلہ دیشی انسانوں کو یہ حق نہیں دیتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کے حقوق ہوتے ہیں،جو ریاست پر بوجھ بنتے ہیں مگر روبوٹ کے نہ مطالبات ہیں اور نہ حقوق۔ کورونا وائرس کے بعد یہ سوچ دنیا کے معاشی مستقبل کی شاہ کلیدہے۔ دنیا کا اگلامعاشی منظرنامہ چار بنیادی محوروں کے گرد گھوم رہا ہے۔ فائیوجی ٹیکنالوجی، الیکٹرانک بیٹری، مصنوعی ذہانت اور روبوٹ۔ غور کیجیے! اس میں انسان کہیں نہیں آتے۔ دنیا کی آبادی کم کرنے کا مشن رکھنے والے امراء کے کلب کے اہم ارکان صرف مصنوعی بیجوں، ویکسی نیشن، وائرس اور دیگر ذرائع سے ہی انسانوں کی آبادی کو کم کرنے کا منصوبہ پورا نہیں کرتے، بلکہ وہ ٹیکنالوجی کی ترقی میں بھی اس ہدف کو نہیں بھولتے۔ انسانوں کے اثرو دخل سے آزاد معاشی دنیا ان کا کورونا وائرس کے ہنگام میں بھی ایک بڑا ہدف ہے۔
کورونا وائرس نے دنیا کا معاشی منظرنامہ بدل دیا ہے۔ وبا کے بعد شروع ہونے والی دنیا نئی ہوگی، جو پہلے سے رائج معاشی اُصولوں پر کبھی واپس نہیں پلٹ سکے گی۔یہ کورونا وائرس کا بہت ہی خطرناک مرحلہ ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں منافع ہوتو پھر منڈی کی معیشت کے اُصول پر وائرس ایک سرمایہ کاری کہلائے گا۔ کورونا وائرس نے نئی دنیا کے منافع کی شکلوں پر قبضے کے لیے اپنی سرمایہ کاری کی جہتوں کو کھولنا شروع کردیا ہے۔ یہ خطرناک سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ پہلے اس گرداب کو دیکھیے!تاریخی طور پر بڑی معاشی بدحالیاں اور عالمی کساد بازاری کچھ غیر متوقع واقعات سے شروع ہوتی ہے۔آسٹریلیا کے ایک بینک نے مئی 1930ء میں ایک بحران کا سامنا کیا جس نے پوری بینکاری کی دنیا کو دیکھتے دیکھتے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ کورونا وائرس عالمی مالیاتی مارکیٹ کے لیے ایک حیران کن واقعہ ثابت ہوا ہے۔ جس نے پوری دنیا کی معاشی جکڑ بندی کر لی ہے۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بعد انسانی تاریخ کی سب سے بڑی معاشی تبدیلیوں کا دور شروع ہوگاجو عالمی معاشی منظرنامے کو رائج تمام تصورات کے ساتھ تبدیل آشنا کردے گا۔ سابق امریکی صدارتی امیدوار اینڈریو یانگ کے مطابق، بہت سے امریکیوں کے پاس کورونا وباکے خاتمے کے بعد واپس جانے کے لئے ملازمت نہیں ہوگی“۔وہ مزید کہتے ہیں:درحقیقت وائرس کمپنیوں کے لیے ملازمین سے نجات پانے، روبوٹ اور مشینیں لانے اور یہ معلوم کرنے کے لئے بہترین ماحول ہے کہ وہ کس طرح زیادہ موثر انداز میں کام کرسکتے ہیں“۔ اب یہ صرف ایک خواہش نہیں بلکہ حالات کے جبر میں بھی ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق صرف امریکا میں اگلے چند ہفتوں میں ایک لاکھ دس ہزار ریسٹورنٹ بند ہو جائیں گے،صرف ریسٹورنٹ انڈسٹری سے 7.4 ملین لوگوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ کورونا وائرس کے معاشی جھٹکے کے پہلے ہفتے میں، 3.3 ملین امریکیوں نے بے روزگاری کے دعوے دائر کیے۔ یہ 2008 کی کساد بازاری کے عروج میں موجود ہند سے سےتین گنا زیادہ ہے،اس کے صرف ایک ہفتے بعد بے روزگاری کے دعوے دگنے ہو کر 6.6 ملین ہوگئے۔مستقبل میں اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
دراصل یہاں مختلف النوع کاروبار کے اندرالگ الگ جھانک کر یہ دیکھنے کا موقع نہیں کہ وہ کس تیزی سے ملازمین کو فارغ کرنے والے ہیں۔ یہاں بس ایک بنیادی نکتہ واضح رہنا چاہئے کہ ملازمین اپنے مستقبل کو کھونے والے ہیں۔ فیڈرل ریزرو بینک سینٹ لوئس کے صدر جیمز بلارڈ کے مطابق 2020 کی دوسری سہ ماہی میں امریکی بے روزگاری کی شرح 30 فیصد ہوسکتی ہے۔جو 1930 کی عالمی کساد بازاری کے بعد کبھی نہیں دیکھی گئی۔ بہت سی چھوٹی کمپنیاں دوبارہ کھلنے سے ہی محروم رہیں گی۔ اکثر اپنے قرضوں کے باعث دیوالیہ ہو جائیں گی۔یہ منظرنامہ دنیا کی تاریخ کے چوتھے صنعتی انقلاب کے طور پر بیان کیا جارہا ہے جس میں مینوفیکچرنگ ورکرز باقی نہیں رہ پائیں گے، وہ بزنس کی دیگر شکلوں خوردہ فروشی، کال سینٹرز، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر وائٹ کالر ورکز مثلاً فارماسسٹ اور وائرلوجسٹ کی جانب منتقل ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس میں ملازمتوں کا دائرہ پہلے سے زیادہ محدود رہے گا۔ یہ بات ایک غیر معمولی سطح پر لے جاکر ہمیں چونکاتی ہے کہ دنیا میں آنے والی ان تمام تبدیلیوں کے متعلق اگر کسی پلیٹ فارم سے قبل ازوقت بات ہوتی ہے تو یہ وہی ورلڈ اکنامک فورم ہے۔ جہاں 2016 میں ان تبدیلیوں کے متعلق مکمل آگاہی موجود تھی۔سال 2016 کے اجلاس میں ماہرین نے دنیا کو یہ بتایا تھا:ہمارے جسم اتنے ہائی ٹیک ہوں گے کہ ہم اس میں قدرتی کیا ہے اور مصنوعی کیا ہے، کا امتیاز کرنے کے قابل بھی نہیں رہ جائیں گے“۔
اس پورے کھیل کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ آدمیوں سے نجات! جو اپنے بنیادی حقوق پر اصرار کرتے ہیں۔ انہیں گھر رہنا چاہئے۔ تاکہ وہ ان کے ہی پھیلائے ہوئے دیگر ہتھیاروں میں سے کسی نہ کسی کی زد میں آ جائیں۔ وہ ان کی نگرانی میں رہیں گے، کیونکہ آئی۔ ڈی 2020 کا منصوبہ ان کے ساتھ رہے گا۔ ان کا مرکزی معاشی منظر میں کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ ان کی جگہ روبوٹ لیں گے۔ اس ایجنڈے میں صرف بڑے کاروبار رہ جائیں گے۔ جسے کنٹرول کرنے والے زیادہ تر بل گیٹس کے ہی”گڈ کلب“ کے لوگ ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔