... loading ...
کراچی میں لوگوں کا یہ عمومی تجربہ ہے۔ کسی شاہراہ پر اچانک کوئی اسکوٹر والا آپ کی گاڑی کے قریب آکر رُکتا ہے۔ اور پستول کنپٹی پر رکھ کر کہتا ہے کہ پیسہ یا زندگی، انتخاب کرلیں۔ ظاہر ہے کہ انتخاب بہت آسان ہوتا ہے، یعنی زندگی۔ چنانچہ آپ اپنے پیسے جھاڑ کرلرزتے کانپتے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں،جان بچی سو لاکھوں پائے۔ حالانکہ آپ لاکھوں کھو چکے ہوتے ہیں۔ خوف کام کرتا ہے۔ کووڈ۔19 ایک ایسا ہی ڈاکو ہے جو آپ کی کنپٹی پر رکھ دیا گیا ہے اور آپ سے کہہ رہا ہے، سب کچھ جھاڑ دیجیے! خوف یہاں بھی کام کررہا ہے۔ نقد رقم اور کاغذی کرنسی کووڈ۔19 نامی ڈاکو جھپٹنے کو تیار ہے۔
لاک ڈاؤن جیسے جیسے ربڑ کی طرح کھینچا جارہا ہے، نقد رقم اور کاغذی کرنسی انفرادی سطح اور کاروباری شعبے سے سمٹ رہی ہے۔ ابتدا میں یہ افواہ گردش کرتی رہی کہ کورونا وائرس کاغذی کرنسی کے ذریعے پھیل رہا ہے، مگر یہ افواہ ابتدا میں ہی دم توڑ گئی۔ درحقیقت عالمی سطح پر اس کے ذریعے کاروباری ردِعمل کو جانچا گیا ہے۔ دنیا اس خوف کے آگے کاغذی کرنسی کا ہتھیار ڈالنے کو تیار ہے۔لاک ڈاؤن کے ہنگام دنیا بہت تیزی سے آن لائن کاروبار کی طرف راغب ہوئی اور کاغذی کرنسی کے دستیاب متبادلات میں سے بینک کارڈز اور ڈیجیٹل ذرائع کو استعمال کر رہی ہے۔ نتیجتاً منڈی کی سلطنت میں کاغذی کرنسی اور نقد رقم کی بادشاہت ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دنیا کی طاقت ور صنعتی اشرافیہ کے ماتحت چلنی والی کارپوریشنز کے لیے نقد رقم اور کاغذی کرنسی کے مقابلے میں اعداد وشمار والی محض ڈیجیٹل رقم کی نگرانی،ہیراپھیری اور گرفت زیادہ آسان ہوگی۔ کارپوریشنز مختلف حکومتوں کی شراکت سے دنیا بھر کی دولت کو”بے کاغذ“ کرنے کے بعد اس سے عالمی سطح پر جب چاہیں کھلواڑ کرسکیں گے۔ اس مقصد کے لیے ایک طویل مدت سے دنیا کا امیر ترین کلب اور اُن کی حامی حکومتیں اپنی اہدافی جنگ ٹھیک ٹھیک لڑ رہی ہے۔ کورونا وائرس اس جنگ کا سب سے مضبوط ہتھیار بن چکا ہے۔ سمجھنا چاہئے کہ کاغذی کرنسی کے خاتمے کی جنگ دراصل کیا ہے؟
دنیا کے امیر ترین لوگ پوری دنیا کو ایک منڈی اور اس میں جیتے جاگتے لوگوں کو محض اپنے صارفین کی سطح پر رکھ کر دیکھتے ہیں۔ اس بنیادی تصور کی تحویل میں ان کی تمام سرگرمیاں انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ نتائج کی حامل ہوتی ہیں جس میں دولت پر کنٹرول ان کا پہلا اور آخری ہدف بن جاتا ہے۔ اس گھناؤنے مقصد کی خاطر صارفین کی تمام مالیاتی سرگرمیوں کو ڈیجیٹل ذرائع میں منتقل کیا جارہا ہے تاکہ اس کی بآسانی نگرانی، جمع وتفریق اور تعاقب کیا جاسکے۔ اس طرح یہ دولت ہمیشہ معلق(ہیک) اور قبضے (ہائی جیک)کے خطرے سے دوچار رہے گی اور بوقت ِ ضرورت قابلِ ضبطی ہو گی۔ یہ دولت کا ایک ناقابل تغیر اور جما جڑا نمونہ ہوگا۔جس میں امیر، ہمیشہ امیر، غریب دائم غریب اور طفیلی سدا طفیلی رہے گا۔ اس ماڈل کے تحت معیشت ہمیشہ چند ہاتھوں میں ہی رہے گی اور دنیا میں کسی بھی شخص یا ملک کے لیے اپنے طریقے پر ترقی کرنے یا مارکیٹ کی ایک نئی فورس بننے کا امکان مستقل طور پر ختم ہوجائے گا۔ اکنامسٹ کے اسٹیو فوربس سمجھاتے ہیں: دراصل ایک ”بڑی حکومت“ نقد رقم پر قبضے کے ذریعے بدصورت طاقت پر گرفت چاہتی ہے جو شروع تو بلز دینے سے ہوتی ہے مگر پھر آپ کو ان کے نیچے ایک چارہ بنا کر پھینک دیتی ہے۔اس میں رازداری نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی۔ ”بگ برادرز“کے لیے برقی تجارت سے یہ دیکھنا آسان ہو جاتا ہے کہ ہم کیا کررہے ہیں“۔ اسٹیو فوربس جن ”بگ برادرز“ کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ دراصل عالمی اشرافیہ کے اسی ”گڈ کلب“ کے ارکان ہیں جن کا ذکر ہم کورونا وائرس کے حوالے سے جاری اس سلسلہئ تحریر میں کرتے آرہے ہیں۔
دلچسپ طور پر منشیات اور دہشت گردی کے خلاف جنگوں کی طرح یہ نام نہاد ”نقد رقم کے خلاف جنگ“ بھی جاری ہے۔ جسے عوام میں دہشت گردوں، منشیات فروشوں اور ٹیکس چوروں سے لڑائی کے طور پرپیش کیا جارہا ہے۔ اب اس میں کوویڈ۔19 کے جراثیم سے لڑنے کی نئی منطق کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ کسی بھی تامل کے بغیر یہاں ایک اطلاع گوش گزار کردی جائے کہ حیاتیاتی دنیا کے مختلف حلقوں میں ماہرین اس امر کا اظہار کررہے ہیں کہ صرف کورونا کے خاندان سے کم وبیش 89وائرس پردہئ غیب سے ظاہر ہوں گے اور اس دنیا کی سیر کو آئیں گے۔ یاد رکھیں اس میں سے کچھ وائرس کاغذی کرنسی کے ذریعے منتقلی کا بھی ذریعہ بننے والے ہیں۔یہ منصوبہ مستقبل میں کسی بھی وقت حرکت میں آئے گا۔
اس کھیل کی آڑ میں ڈیجیٹل کرنسی کو دنیا میں رائج کرکے کاغذی کرنسی اور نقد رقم کے ذریعے ”کھیل بدل“(گیم چینجر)کے خوف سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جان چھڑا لی جائے گی۔ اور آئی ڈی۔2020 کے منصوبے کی اس جہت کی جانب قدم بڑھایا جائے گا جس میں دورِ جدید کے انسان کو ترقی کے نام پر حیوان بنا کر اُس کی تمام حرکات وسکنات اور جنبشِ ابرو تک کو نگرانی کے ایک نظام میں رکھا جائے گا۔اور اس کے پاس موجود محنت کے نام پر کمائی کو بھی اعدادوشمار کے ایک گورکھ دھندے میں ڈال کر محض دولت کے بھرم یا وہم میں مبتلا کردیا جائے گا۔ اب یہاں ایک مثال کو سامنے رکھیں جس سے اندازا ہوگا کہ یہ نظام کس بھیانک طریقے سے کام کرتا ہے۔ یہ صرف چند لوگوں کے لیے وبا کے دنوں میں بھی دولت کے حصول کو کتنا آسان بنا دیتا ہے۔کورونا وائرس کی وجہ سے اس وقت دنیا کے180 سے زائد ممالک میں ڈیڑھ ماہ سے جزوی لاک ڈاؤن ہے۔ جس سے عالمی کساد بازاری اور طرح طرح کے معاشی بحران گھروں کی دہلیز پر دستک دینے لگے ہیں۔ مگر اس عالم میں بھی دنیا کے امیر ترین انسان مزید امیر ہورہے ہیں جس کا سبب یہی بے کاغذ کرنسی اور ڈیجیٹل لین دین ہے۔ حالیہ دنوں میں دنیا کے امیر ترین شخص جیف بزوز کی دولت میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔برطانوی اخبار کے مطابق دنیا کے امیر ترین شخص جیف بزوز کی دولت میں کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران 24 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور ان کی دولت 114 ارب ڈالر سے بڑھ کر 138 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔جیف بزوزکی آن لائن کمپنی ایمازون کو لاک ڈاؤن میں حیران کن طور پر اندازوں سے زیادہ آرڈرز ملے۔ اسی طرح دیگر بے کاغذ کاروبار وبا کے دنوں میں پھلتے پھولتے رہے۔ جس سے پہلے سے ہی امیر لوگوں کی دولت میں حد سے زیادہ اضافہ ہوتا رہا۔ کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران امریکی ملٹی پل مینیوفیکچرنگ کمپنی ٹیسلا کے بانی ایلون مسک کی دولت میں بھی 10 ارب 40 کروڑ ڈالر یعنی پاکستانی 15 کھرب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا۔ایلون مسک کی طرح آن لائن اسٹور وال مارٹ کے مالکان کی دولت میں بھی 5 فیصد اضافہ ہوا،اسی طرح زوم ویڈیو ایپ کے مالک ایرک یووان کی دولت میں بھی 7 ارب 40 کروڑ ڈالر کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔یہ امیر کو امیر اور غریب کو مستقل غریب رکھنے کا ناقابلِ تغیر منصوبہ کورونا وائرس کی آڑ میں مزید پروان چڑھنے والا ہے۔ دیکھتے جائیں!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔