وجود

... loading ...

وجود

کورونا وائرس کا نشانا کاغذی کرنسی

جمعه 17 اپریل 2020 کورونا وائرس کا نشانا کاغذی کرنسی

کراچی میں لوگوں کا یہ عمومی تجربہ ہے۔ کسی شاہراہ پر اچانک کوئی اسکوٹر والا آپ کی گاڑی کے قریب آکر رُکتا ہے۔ اور پستول کنپٹی پر رکھ کر کہتا ہے کہ پیسہ یا زندگی، انتخاب کرلیں۔ ظاہر ہے کہ انتخاب بہت آسان ہوتا ہے، یعنی زندگی۔ چنانچہ آپ اپنے پیسے جھاڑ کرلرزتے کانپتے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں،جان بچی سو لاکھوں پائے۔ حالانکہ آپ لاکھوں کھو چکے ہوتے ہیں۔ خوف کام کرتا ہے۔ کووڈ۔19 ایک ایسا ہی ڈاکو ہے جو آپ کی کنپٹی پر رکھ دیا گیا ہے اور آپ سے کہہ رہا ہے، سب کچھ جھاڑ دیجیے! خوف یہاں بھی کام کررہا ہے۔ نقد رقم اور کاغذی کرنسی کووڈ۔19 نامی ڈاکو جھپٹنے کو تیار ہے۔
لاک ڈاؤن جیسے جیسے ربڑ کی طرح کھینچا جارہا ہے، نقد رقم اور کاغذی کرنسی انفرادی سطح اور کاروباری شعبے سے سمٹ رہی ہے۔ ابتدا میں یہ افواہ گردش کرتی رہی کہ کورونا وائرس کاغذی کرنسی کے ذریعے پھیل رہا ہے، مگر یہ افواہ ابتدا میں ہی دم توڑ گئی۔ درحقیقت عالمی سطح پر اس کے ذریعے کاروباری ردِعمل کو جانچا گیا ہے۔ دنیا اس خوف کے آگے کاغذی کرنسی کا ہتھیار ڈالنے کو تیار ہے۔لاک ڈاؤن کے ہنگام دنیا بہت تیزی سے آن لائن کاروبار کی طرف راغب ہوئی اور کاغذی کرنسی کے دستیاب متبادلات میں سے بینک کارڈز اور ڈیجیٹل ذرائع کو استعمال کر رہی ہے۔ نتیجتاً منڈی کی سلطنت میں کاغذی کرنسی اور نقد رقم کی بادشاہت ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دنیا کی طاقت ور صنعتی اشرافیہ کے ماتحت چلنی والی کارپوریشنز کے لیے نقد رقم اور کاغذی کرنسی کے مقابلے میں اعداد وشمار والی محض ڈیجیٹل رقم کی نگرانی،ہیراپھیری اور گرفت زیادہ آسان ہوگی۔ کارپوریشنز مختلف حکومتوں کی شراکت سے دنیا بھر کی دولت کو”بے کاغذ“ کرنے کے بعد اس سے عالمی سطح پر جب چاہیں کھلواڑ کرسکیں گے۔ اس مقصد کے لیے ایک طویل مدت سے دنیا کا امیر ترین کلب اور اُن کی حامی حکومتیں اپنی اہدافی جنگ ٹھیک ٹھیک لڑ رہی ہے۔ کورونا وائرس اس جنگ کا سب سے مضبوط ہتھیار بن چکا ہے۔ سمجھنا چاہئے کہ کاغذی کرنسی کے خاتمے کی جنگ دراصل کیا ہے؟
دنیا کے امیر ترین لوگ پوری دنیا کو ایک منڈی اور اس میں جیتے جاگتے لوگوں کو محض اپنے صارفین کی سطح پر رکھ کر دیکھتے ہیں۔ اس بنیادی تصور کی تحویل میں ان کی تمام سرگرمیاں انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ نتائج کی حامل ہوتی ہیں جس میں دولت پر کنٹرول ان کا پہلا اور آخری ہدف بن جاتا ہے۔ اس گھناؤنے مقصد کی خاطر صارفین کی تمام مالیاتی سرگرمیوں کو ڈیجیٹل ذرائع میں منتقل کیا جارہا ہے تاکہ اس کی بآسانی نگرانی، جمع وتفریق اور تعاقب کیا جاسکے۔ اس طرح یہ دولت ہمیشہ معلق(ہیک) اور قبضے (ہائی جیک)کے خطرے سے دوچار رہے گی اور بوقت ِ ضرورت قابلِ ضبطی ہو گی۔ یہ دولت کا ایک ناقابل تغیر اور جما جڑا نمونہ ہوگا۔جس میں امیر، ہمیشہ امیر، غریب دائم غریب اور طفیلی سدا طفیلی رہے گا۔ اس ماڈل کے تحت معیشت ہمیشہ چند ہاتھوں میں ہی رہے گی اور دنیا میں کسی بھی شخص یا ملک کے لیے اپنے طریقے پر ترقی کرنے یا مارکیٹ کی ایک نئی فورس بننے کا امکان مستقل طور پر ختم ہوجائے گا۔ اکنامسٹ کے اسٹیو فوربس سمجھاتے ہیں: دراصل ایک ”بڑی حکومت“ نقد رقم پر قبضے کے ذریعے بدصورت طاقت پر گرفت چاہتی ہے جو شروع تو بلز دینے سے ہوتی ہے مگر پھر آپ کو ان کے نیچے ایک چارہ بنا کر پھینک دیتی ہے۔اس میں رازداری نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی۔ ”بگ برادرز“کے لیے برقی تجارت سے یہ دیکھنا آسان ہو جاتا ہے کہ ہم کیا کررہے ہیں“۔ اسٹیو فوربس جن ”بگ برادرز“ کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ دراصل عالمی اشرافیہ کے اسی ”گڈ کلب“ کے ارکان ہیں جن کا ذکر ہم کورونا وائرس کے حوالے سے جاری اس سلسلہئ تحریر میں کرتے آرہے ہیں۔
دلچسپ طور پر منشیات اور دہشت گردی کے خلاف جنگوں کی طرح یہ نام نہاد ”نقد رقم کے خلاف جنگ“ بھی جاری ہے۔ جسے عوام میں دہشت گردوں، منشیات فروشوں اور ٹیکس چوروں سے لڑائی کے طور پرپیش کیا جارہا ہے۔ اب اس میں کوویڈ۔19 کے جراثیم سے لڑنے کی نئی منطق کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ کسی بھی تامل کے بغیر یہاں ایک اطلاع گوش گزار کردی جائے کہ حیاتیاتی دنیا کے مختلف حلقوں میں ماہرین اس امر کا اظہار کررہے ہیں کہ صرف کورونا کے خاندان سے کم وبیش 89وائرس پردہئ غیب سے ظاہر ہوں گے اور اس دنیا کی سیر کو آئیں گے۔ یاد رکھیں اس میں سے کچھ وائرس کاغذی کرنسی کے ذریعے منتقلی کا بھی ذریعہ بننے والے ہیں۔یہ منصوبہ مستقبل میں کسی بھی وقت حرکت میں آئے گا۔
اس کھیل کی آڑ میں ڈیجیٹل کرنسی کو دنیا میں رائج کرکے کاغذی کرنسی اور نقد رقم کے ذریعے ”کھیل بدل“(گیم چینجر)کے خوف سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جان چھڑا لی جائے گی۔ اور آئی ڈی۔2020 کے منصوبے کی اس جہت کی جانب قدم بڑھایا جائے گا جس میں دورِ جدید کے انسان کو ترقی کے نام پر حیوان بنا کر اُس کی تمام حرکات وسکنات اور جنبشِ ابرو تک کو نگرانی کے ایک نظام میں رکھا جائے گا۔اور اس کے پاس موجود محنت کے نام پر کمائی کو بھی اعدادوشمار کے ایک گورکھ دھندے میں ڈال کر محض دولت کے بھرم یا وہم میں مبتلا کردیا جائے گا۔ اب یہاں ایک مثال کو سامنے رکھیں جس سے اندازا ہوگا کہ یہ نظام کس بھیانک طریقے سے کام کرتا ہے۔ یہ صرف چند لوگوں کے لیے وبا کے دنوں میں بھی دولت کے حصول کو کتنا آسان بنا دیتا ہے۔کورونا وائرس کی وجہ سے اس وقت دنیا کے180 سے زائد ممالک میں ڈیڑھ ماہ سے جزوی لاک ڈاؤن ہے۔ جس سے عالمی کساد بازاری اور طرح طرح کے معاشی بحران گھروں کی دہلیز پر دستک دینے لگے ہیں۔ مگر اس عالم میں بھی دنیا کے امیر ترین انسان مزید امیر ہورہے ہیں جس کا سبب یہی بے کاغذ کرنسی اور ڈیجیٹل لین دین ہے۔ حالیہ دنوں میں دنیا کے امیر ترین شخص جیف بزوز کی دولت میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔برطانوی اخبار کے مطابق دنیا کے امیر ترین شخص جیف بزوز کی دولت میں کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران 24 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور ان کی دولت 114 ارب ڈالر سے بڑھ کر 138 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔جیف بزوزکی آن لائن کمپنی ایمازون کو لاک ڈاؤن میں حیران کن طور پر اندازوں سے زیادہ آرڈرز ملے۔ اسی طرح دیگر بے کاغذ کاروبار وبا کے دنوں میں پھلتے پھولتے رہے۔ جس سے پہلے سے ہی امیر لوگوں کی دولت میں حد سے زیادہ اضافہ ہوتا رہا۔ کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران امریکی ملٹی پل مینیوفیکچرنگ کمپنی ٹیسلا کے بانی ایلون مسک کی دولت میں بھی 10 ارب 40 کروڑ ڈالر یعنی پاکستانی 15 کھرب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا۔ایلون مسک کی طرح آن لائن اسٹور وال مارٹ کے مالکان کی دولت میں بھی 5 فیصد اضافہ ہوا،اسی طرح زوم ویڈیو ایپ کے مالک ایرک یووان کی دولت میں بھی 7 ارب 40 کروڑ ڈالر کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔یہ امیر کو امیر اور غریب کو مستقل غریب رکھنے کا ناقابلِ تغیر منصوبہ کورونا وائرس کی آڑ میں مزید پروان چڑھنے والا ہے۔ دیکھتے جائیں!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر